آنکھیں میری گزشتہ کئی مہینوں سے کالے موتیا کی زد میں ہیں۔ اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے لازمی ہے کہ ٹی وی، کتابوں اور انٹرنیٹ سے کم از کم رجوع کروں اور چند گھنٹوں کی گہری نیند یقینی بناؤں۔ ذات کے رپورٹر کو عملی صحافت سے ریٹائر ہوجانے کے باوجود مگر یہ "عیاشی" نصیب نہیں ہوتی۔ 23مئی سے 25مئی کے دوران مشکل سے وقفوں میں چھ گھنٹے سوپایا۔
عمران خان صاحب 25مئی کی دوپہر اسلام آباد پر چڑھائی سے قبل پشاور سے بذریعہ ہیلی کاپٹر صوابی انٹرچینج پر موجود کنٹینرپر سوار ہونے پہنچے۔ اسلام آباد میں اس وقت "خبر" یہ پھیلی ہوئی تھی کہ تحریک انصاف اور حکومتی نما ئندوں کے مابین "خفیہ مذاکرات"ہورہے ہیں۔ ان کے ذریعے سابق وزیر اعظم کو "محفوظ" یا "درمیانی" راستہ فراہم کرنے کی گنجائش نکالی جارہی ہے۔
حکومت نئے انتخاب کی تاریخ کا اعلان کرتے ہوئے عمران خان صاحب کو اسلام آباد میں 2014ءجیسا دھرنا دینے سے روک سکتی ہے۔ دریں اثناءسپریم کورٹ بھی متحرک ہوچکی تھی۔ اس کے عزت مآب جج حکومت کو پکڑدھکڑ سے اجتناب کی ہدایت دیتے ہوئے یہ گنجائش نکال رہے تھے کہ عمران خان صاحب اپنے حامیوں کے ہمراہ اسلام آباد کے ڈی چوک نہ آئیں۔ دارالحکومت کے کسی اورمقام پر جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اپنے حامیوں کو دھرنے کے بجائے منتشر ہونے کی ہدایت فرمادیں۔
عمران خان صاحب تک جب ان خبروں کی اطلاع پہنچی تو تلملا اُٹھے۔ کنٹینر پر نمودار ہوکر مائیک سنبھالااور حکومت کے ساتھ کسی بھی سمجھوتے کے امکانات کو سختی سے مسترد کردیا۔ اس کےساتھ یہ بھی واضح کردیا کہ ان کی منزل اسلام آباد کا ڈی چوک ہی ہوگا۔ حکومت بھی مذاکرات کے بارے میں واضح جوابات فراہم کرنے میں ناکام رہی۔ سپریم کورٹ نے تاہم یہ کاوش جاری رکھی کہ عمران خان صاحب بخیروعافیت اسلام آباد پہنچ سکیں۔ ڈی چوک کے بجائے H-9کے میدان میں جلسہ کریں اور دھرنا سے گریز کریں۔ بالآخر اس ضمن میں ایک تحریری حکم بھی صادر فرمادیا۔
اسلام آباد کی جانب گامزن عمران خان صاحب مذکورہ فیصلے کے باوجود ڈی چوک پہنچنے کے ارادہ کا اعادہ کرتے رہے۔ سپریم کورٹ کے حکم کے تحت اسلام آباد میں داخل ہونے والے راستوں پر لگائی رکاوٹیں اس کے بعد ہٹادی گئیں۔ تحریک انصاف کے جذباتی کارکن حکومتی لچک سے فائدے اٹھاتے ہوئے ڈی چوک پہنچنا شروع ہوگئے۔ کئی گھنٹوں تک چلائی آنسو گیس اور لاٹھی چارج انہیں قابو میں پانے میں ناکام رہے۔ مجھ سادہ لوح نے یہ سوچا کہ سپریم کورٹ شاید ایک بار پھر یاد دلائے گا کہ عمران خا ن صاحب کو ڈی چوک آنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ میری سوچ مگر خوش گمانی ثابت ہوئی۔ یہ سوچتے ہوئے نیند کی دوگولیاں کھاکر رات تین بجے سوگیا کہ عمران خان صاحب اب ہر صورت ڈی چوک ہی پہنچیں گے۔
جمعرات کی صبح دس بجے اُٹھ کر ٹی وی لگایا تو علم ہوا کہ عمران خان صاحب اپنا عہد نبھانے میں کامیاب رہے ہیں۔ انہوں نے ایک بار پھر یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ کسی بات پر ڈٹ جائیں تو کوئی بھی حکومت اور ریاستی ادا رہ انہیں اپنی ضد بروئے کار لانے سے روک نہیں سکتا۔ علامتی طورپر ڈی چوک کے بہت قریب پہنچ جانے کے بعد اگرچہ انہوں نے فراخ دلی سے کام لیتے ہوئے دھرنے سے گریز کیاہے۔ حکومت کو تقریباََ ایک ہفتے کی مہلت دے دی ہے۔ اس کے دوران نئے انتخاب کا اعلان نہ ہوا تو وہ دوبارہ ڈی چوک آجائیں گے۔ شاید اب کی بار اپنے حامیوں سے خطاب کے بعد بنی گالہ بھی نہیں جائیں گے۔ اپنے مطالبات پورے ہونے تک دھرنے کی صورت وہیں براجمان رہیں گے۔
عمران خان صاحب کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے فارغ کروانے کے بعد شہباز شریف کی قیادت میں قائم ہوئی گیارہ جماعتوں کی حکومت اب کیا حکمت عملی اختیار کرے گی میں اس کی بات اعتماد سے کچھ لکھ نہیں سکتا۔ محدود آمدنی کا حامل عام پاکستانی ہوتے ہوئے میرے (اور آپ کے لئے بھی) پریشان کن اور ٹھوس خبر یہ ہے کہ عالمی معیشت کے نگہبان ادارے آئی ایم ایف نے پاکستان کو مزید امدادی رقوم فراہم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ وہ مصر ہے کہ مذکورہ رقم کے حصول کو یقینی بنانے کے لئے پاکستان پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں طلب ورسد کی منطق کے تقاضوں کے مطابق فی الفور اور ناقابل برداشت اضافہ کرے۔ بجلی کی نرخ بڑھانے کا مطالبہ بھی اپنی جگہ برقرار ہے۔ آئی ایم ایف یہ بھی اصرار کررہا ہے کہ مذکورہ اشیاءکی قیمتوں میں اضافے کا وعدہ گزشتہ حکومت نے فروری کے مہینے میں اس کے ساتھ ہوئے مذاکرات کے دوران کیا تھا۔ بعدازاں وہ اس وعدے سے مکر گئی۔
آئی ایم ایف کا مذکورہ دعویٰ مگر عام پاکستانی کو یاد نہیں رہے گا۔ پیٹرول کے فی لیٹر کی قیمت میں کم از کم 30روپے یکمشت بڑھانے کا اعلان ہوا تو اس کے نتیجے میں مہنگائی کی جو نئی جان لیوا لہر نمودار ہوگی اس کا سارا دوش شہباز حکومت ہی کے کاندھوں پر رکھا جائے گا۔ ڈیزل کی قیمت میں اس سے دوگنا اضافے کا تقاضہ ہے۔ آئی ایم ایف کے تقاضوں پر عملدآمد کرنے کے بعد شہباز شریف صاحب کی مسلم لیگ (نون) انتخابی میدان میں اتری تو شاید اسے اپنی جماعت کے ٹکٹ کے طلب گار افرادبھی میسر نہیں ہوں گے۔
جو "ووٹ بینک" نواز شریف نے 1985ءسے بہت لگن کے ساتھ قائم کیا اور بڑھایا تھا وہ ہوا میں تحلیل ہوا نظر آئے گا۔ پیپلز پارٹی ایسی خجالت سے 1997ءسے دوچار ہورہی ہے۔ 2002ءمیں اسے تھوڑا افاقہ نصیب ہوا تھا۔ 2013ءکے بعد سے مگر پنجاب میں اس کے چراغوں میں روشنی معدوم ہونا شروع ہوگئی۔ اب کی بار پنجاب میں مسلم لیگ (نون) کے ساتھ بھی ایسے ہی عمل کا آغاز ہوسکتا ہے۔
شہباز حکومت فیصلہ جو بھی کرے اس کی "بھان متی کے کنبہ والی" کمزوری 25مئی کے واقعات نے آشکار کردی ہے۔ ایک بار پھر ثابت ہوگیا ہے کہ بھرپور عوامی حمایت اس وقت فقط عمران خان صاحب ہی کو میسر ہے۔ اس کی بدولت وہ ریاستی اداروں کو للکارنے کی جرات ودلیری سے بھی مالا مال ہوچکے ہیں۔