مارچ کے آخری ہفتے کے دوران جب یہ سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کہ عمران خان صاحب اپنے خلاف قومی اسمبلی میں پیش ہوئی قرارداد سے کیسے نبردآزما ہوں گے، مجھے شادی کی ایک تقریب میں شریک ہونا پڑا۔ مذکورہ تقریب میں ان دنوں کی اپوزیشن جماعتوں کے سرکردہ رہ نما بھی موجود تھے۔ نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ والوں کی تعداد اگرچہ دوسری جماعتوں کے نمائندوں سے کہیں زیادہ تھی۔ اس جماعت سے وابستہ چند افراد مجھے کونے میں لے جاکر سرگوشیوں میں محض ایک سوال پوچھتے رہے:"نصرت صاحب ہم کہیں ٹریپ(Trap)تو نہیں ہوگئے؟"
میرے ذہن میں مذکورہ سوال کا واضح اور برجستہ جواب موجود نہیں تھا۔ عاجزی سے اس کااعتراف کرتا رہا۔ اس رائے پر اگرچہ مصر رہا کہ عمران خان صاحب کے خلاف براہِ راست قدم اٹھانے کے بجائے اپوزیشن جماعتوں کو سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنا چاہیے تھی۔ اس قرار داد پر خفیہ رائے شماری کی بدولت عوام کو پیغام مل جاتا کہ عمران خان صاحب قومی اسمبلی میں اکثریت سے محروم ہوچکے ہیں۔ وہ ایوان سے ایک بار پھر اعتماد کا ووٹ لینے کا بوجھ محسوس کرتے۔ اس ضمن میں پیش قدمی سے اجتناب سابق وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو ٹھوس جواز فراہم کردیتی۔ سپیکر کے بجائے وزیراعظم کو براہِ راست نشانہ بنانا مجھے عاجلانہ وار محسوس ہوا۔
یہ کالم گواہ ہیں کہ ذاتی طورپر میں اس رائے کا حامل تھا کہ عمران خان صاحب کو بطور وزیر اعظم اپنی آئینی مدت مکمل کرنے دی جائے۔ ان سے فوری نجات ہی مقصود تھی تو عمران حکومت کے تیار کردہ بجٹ کا انتظار کرلیا جاتا۔ عالمی منڈی کے حالات اور آئی ایم ایف کا غیر مشفقانہ رویہ واضح پیغام دے رہا تھا کہ نئے مالی سال کا بجٹ تیار کرتے ہوئے سابقہ حکومت کو بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وہ ایسا بجٹ پیش کرنے کو مجبور نظر آرہی تھی جو عوام میں بڑھتی مایوسی کو غصہ میں بدل دیتا۔
عمران خان صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے ضمن میں نمایاں نظر آنے والی عجلت کا سبب بطور رپورٹر میں نے اپوزیشن کے کئی سرکردہ رہ نمائوں سے "آف دی ریکارڈ" ملاقاتوں میں جاننا چاہا۔ کوئی ایک شخص بھی واضح جواب فراہم نہیں کرپایا۔ مسلم لیگ (نون) کے ایک قد آور شخص نے تاہم سرسری طورپر "29مئی 2022" کا ذکر کیا۔ یہ تاریخ ان کی دانست میں ایک طاقت ور ترین ریاستی ادارے میں کلیدی تعیناتی کے تناظر میں اہم ترین تھی۔ عمران خان صاحب کو اس سے قبل فارغ کرنا لازمی تصور کرلیا گیا۔
انتہائی مستند ذرائع کی بدولت میں کامل اعتماد سے یہ دعویٰ کرسکتا ہوں کہ ذاتی طورپر نواز شریف صاحب بھی عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے گھر بھیجنے کو آمادہ نہیں ہورہے تھے۔ ان کے چند دیرینہ وفادار بھی مصر رہے کہ سابق وزیر اعظم کو "سیاسی شہید" بنانے سے گریز اختیار کرنا چاہیے۔
عمران خان صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوجانے کے باوجود بھی یہ وفادار مصر رہے کہ سابق وزیر اعظم کی فراغت کے بعد جو نیا شخص اس عہدے کے لئے منتخب ہو وہ حلف اٹھاتے ہی عہد کرے کہ "انتخابی اصلاحات" یقینی بنانے والے قوانین کی برق رفتار تیاری اور منظوری کے بعد موجودہ قومی اسمبلی تحلیل کردی جائے گی اور نئے انتخاب کی جانب بڑھا جائے گا۔
نواز شریف کے ذاتی وفاداروں کے برعکس جولائی 2018میں ان کے نام سے منسوب جماعت کے ٹکٹ پر اسمبلیوں کے لئے منتخب ہوئے افراد کی بھاری اکثریت مگر ہر صورت عمران خان صاحب سے فی الفور نجات حاصل کرنا چاہ رہی تھی۔ ان کی وزارت عظمیٰ کے منصب سے فراغت کے بعد کیا کرنا ہے اس کی بابت اگرچہ ان کے ذہن میں کوئی واضح حکمت عملی موجود نہیں تھی۔
بہرحال جو ہونا تھا وہ ہوچکا ہے۔ نظر بظاہر فی الوقت نواز شریف کے وہ ذاتی وفادار جو عمران خان صاحب کو "سیاسی شہید" نہیں بنانا چاہ رہے تھے اپنے خدشات کے حوالے سے ان دنوں درست ثابت ہورہے ہیں۔ پارلیمانی جمہوریت کے کتابی تقاضوں کو ذہن میں رکھیں تو عمران خان صاحب آخری لمحات تک خود کو وزیر اعظم کے منصب پر برقرار رکھنے کے لئے ہر نوعیت کا حربہ استعمال کرتے نظر آئے۔
اس ضمن میں کئی ایسے حربے بھی استعمال ہوئے جو ہر اعتبار سے غیر آئینی تھے۔ ہم مگر اندھی نفرت وعقید ت میں خوفناک حد تک تقسیم ہوئی قوم بن چکے ہیں۔ "تخت یا تختہ" والے ماحول میں حقائق معدوم ہوجاتے ہیں۔ جذبات سے مغلوب ہوئے فریقین اپنے تعصبات اور خواہشات پر مبنی "حقائق" ہی ایجاد کرلیتے ہیں۔
اپنے دیرینہ مداحین کو عمران خان صاحب اس امر پر قائل کرچکے ہیں کہ انہیں وزارت عظمیٰ کے منصب سے باہمی اختلافات کا نشانہ بنی جماعتوں نے یکجاہوکر قومی اسمبلی میں ووٹ کے ذریعے فارغ نہیں کیا ہے۔ ان کی فراغت کا حقیقی ذمہ دار امریکہ ہے جو ان کی جانب سے مبینہ طورپر اپنائی "آزاد خودمختار" پالیسی سے نالاں ہوگیا تھا۔ یوکرین پر حملے سے عین ایک دن قبل عمران خان صاحب کی روسی صدر پوٹن سے ماسکو میں ہوئی ملاقات نے اسے مزید بھڑکایا۔ واشنگٹن میں تعینات پاکستانی سفیر کو اس کے بعد "دھمکی آمیز" پیغامات دئیے گئے۔
حقیقت کچھ بھی رہی ہو عمران خان صاحب کے دیرینہ مداحین کے علاوہ دیگر پاکستانیوں کی مؤثر تعداد نے بھی "امریکی سازش" والی کہانی کو قابل اعتماد تصور کرلیا ہے۔ سیاسی اعتبار سے سازشی کہانی کی بدولت عمران خان صاحب کمزور ہونے کے بجائے مزید توانا ہوگئے ہیں۔ ان کے سیاسی مخالفین "امریکی سازش" کے الزام کو بھرپور انداز میں ابھی تک جھٹلانہیں پائے ہیں۔
اندازِ حکمرانی کے حوالے سے شہباز شریف صاحب کی "سپیڈ" حیران کن تصور ہوتی رہی ہے۔ وہ مگر وزیر اعظم منتخب ہوجانے کے ایک ہفتہ بعد بھی وفاقی کابینہ تشکیل نہیں دے پائے۔ اس ضمن میں ابھری تاخیر نے یہ تاثر اجاگر کیا کہ عمران خان کے خلاف یکجا ہوئے "بھان متی کے کنبہ" میں اہم وزارتوں کے حصول کی خواہش نفاق بڑھانا شروع ہوگئی ہے۔
عمران خان صاحب کے شہر شہر ہوئے پُرجوش جلسے اور وفاقی کابینہ کے قیام میں تاخیر شہباز حکومت کو مزید کمزور اور بے بس دکھانے کا باعث ہوئی۔ جو کمزوری نظر آئی وہ عمران خان صاحب کے مداحین کو یقین دلارہی ہے کہ پاکستان فوری انتخاب کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
ممکنہ انتخاب کی بدولت عمران خان صاحب سیاسی اعتبار سے مزید توانا ہوکر وزارت عظمیٰ کے منصب پر جلد ہی واپس لوٹ آئیں گے۔ دیکھنا ہوگا کہ شہباز حکومت امیدوں اور خواہشوں سے بھری اس سوچ کو غلط ثابت کرسکتی ہے یا نہیں۔