ہمارے مرد حضرات کی اکثریت جو عموماََ 20سے30سال کے درمیان والی عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے پاکستان کے امیج کے بارے میں بہت متفکر رہتی ہے۔ انہیں کامل یقین ہے کہ مغرب کے بیشتر ممالک مذہب اور خاندانی نظام کے مخالف ہیں۔ اپنے ہاں تو انہوں نے کئی دہائیوں سے لادینیت اور فحاشی پھیلارکھی ہے۔ اسلام کے نام پر قائم ہوئے پاکستان میں لیکن وہ اپنے مکروہ خیالات پھیلانے میں ناکام رہے۔ اس ضمن میں ہوئی مسلسل ناکامی سے بجائے شرمسار ہونے کے اب وہ ایسے واقعات کے بے چینی سے منتظر رہتے ہیں جن کے ذریعے دنیا کو یہ پیغام دیا جاسکے کہ پاکستان گویا وحشیوں کے ہجوم کا نام ہے۔
جنون سے مغلوب ہوئے جتھے یہاں غیر مسلم اقلیتوں اور خواتین کی برسرعام تذلیل کے مواقع ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ بسااوقات انہیں مذہب اور غیرت کے نام پر وحشیانہ انداز میں برسرعام قتل بھی کردیا جاتا ہے۔ محبان وطن کی لہٰذا ذمہ داری ہے کہ مذکورہ پیغام کو تقویت پہنچاتی ویڈیوز اگر سوشل میڈیا پر وائرل ہوجائیں تو ان کا اعتبار نہ کریں۔ ایسی ویڈیوز کو شیئر یا ری ٹویٹ کرنے سے بھی گریز کریں اور سوشل میڈیا پر مقبول ہوئیں ویڈیوز میں نظر آئے معاملے سے جڑے تمام تر حقائق کے منظر عام پر آنے کا انتظار کریں۔
سوشل میڈیا کی نموداری کے اولیں دور میں اس کی قوت اوررسائی سے میں بھی ذاتی طورپر بہت متاثر ہواتھا۔ اپنے دل ودماغ میں جمع ہوئے خیالات کو اس کے ذریعے اظہار کرنے کو بے تاب رہا۔ بعدازاں مگر ٹھوس ذاتی تجربات اور تھوڑی تحقیق کے بعد دریافت کرلیا کہ سوشل میڈیا درحقیقت ہمارے دلوں میں نسلوں سے موجود تعصبات ہی کو ہیجان خیزی کے لئے استعمال کرنے کو ایجاد ہوا ہے۔ پاکستان ہی نہیں دنیا کے کئی ممالک میں اس نے لوگوں کو اندھی نفرت وعقیدت سے مغلوب ہوئے جنونیوں میں بدل دیا ہے۔ دورِ حاضر میں اسے نظرانداز کرنا بھی لیکن ممکن نہیں۔ اس پر کامل انحصار سے مگر گریز ہی میں عافیت ہے۔
منگل کی شام کمرے میں اکیلے بیٹھے لیپ ٹاپ کھولنے کو مجبور ہوا تو سوشل میڈیا پر ایک وڈیو وائرل ہوئی نظر آئی۔ وڈیو کا جو حصہ میں نے دیکھا اس میں فیصل آباد کو سرگودھا سے ملانے والی سڑک کے ایک چوک کے قریب موجود بازار کے دوکان دار دو خواتین کو برسرعام برہنہ کرتے نظر آئے۔ میں اسے دیکھ کر دکھی ہوگیا۔ جی کو دوبارہ پریشانی لاحق ہوگئی کہ ہمیں بحیثیت قوم کیا ہوگیا ہے۔ اسی فکر میں مبتلا تھا تو ایک بہت ہی پروفیشنل صحافی جو میرے عزیز ترین دوست بھی ہیں سے رابطہ ہوگیا۔ ہم دونوں نے رپورٹر کی جبلت سے حقائق کا کھوج لگانے کیلئے فون ملانا شروع کردئیے۔
فیصل آباد کے جن لوگوں سے رابطہ ہوا تو وہ تمام یکسوہوکر اصرار کررہے تھے کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی وڈیو میں مظلوم نظر آتی خواتین درحقیقت جرائم پیشہ ہیں۔ وہ جس نسلی گروہ سے تعلق رکھتی ہیں اسے پنجاب میں اوڈھ کہا جاتا ہے۔ یہ عموماََ دریائوں کے کنارے جھونپڑیوں سے بنائی آبادیوں کے باسی ہیں۔ انہیں پکھی واس اور چنگڑ بھی پکارا جاتا ہے۔ میرے بچپن میں ایسی خواتین محلوں میں گڈوی بجاتے ہوئے پنجابی کے چند درد بھرے گیت سناکر ویلوں کی صورت پیسے جمع کرتی تھیں۔ ان میں سے چند بچوں کو پتلی تماشے بھی دکھاتیں۔
بچپن سے ہمیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان خواتین کے گھرانوں کے مرد نکمے ہوتے ہیں۔ مختلف نشوں کے عادی ہیں اور ان کی خواتین ہی بازاروں اور محلوں میں گڈوی بجاتی یا کوڑا کرکٹ جمع کرکے اسے کباڑیوں کے ہاتھ بیچ کر گھرچلانے کا بندوبست کرتی ہیں۔ ان میں سے چند چوری چکاری کی بھی عادی ہیں۔ انہیں گھروں میں گھسنے نہیں دینا چاہیے۔ مردوں کو خاص طورپر ان سے احتیاط برتنا چاہیے کیونکہ وہ اکثر انہیں برے کاموں کو اُکساتی ہیں۔ اپنی کاوش میں ناکام ہوجائیں تو دراز دستی کے الزام لگاتے ہوئے مردوں کو بدنام کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
فیصل آباد کے جن لوگوں سے رابطہ ہوا وہ سب میرے جیسے مرد تھے۔ میری طرح ان کے ذہنوں میں بھی بچپن سے اوڈھ خواتین کے بارے میں مذکورہ بالا تعصبات جاگزیں کئے ہوں گے۔ وہ یکسوہوکر مصر رہے کہ مختلف گروہوں کی صورت گزشتہ کئی دنوں سے ایسی خواتین فیصل آباد اور چنیوٹ کے بازاروں میں گھوم رہی ہیں۔ وہ زبردستی دوکانوں میں گھس آتی ہیں۔ دوکان دار کو ان میں کوئی ایک لچھے دار گفتگو سے لبھانے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کی توجہ بٹ جائے تو دیگر خواتین سٹال میں لگی چند اشیاء کو اچک لینے کی کوشش کرتی ہیں۔ دوکاندار ان کی حرکت دیکھ لے تو اس پر زیادتی کا الزام لگانے ولا شور مچانا شروع ہوجاتی ہیں۔ اسلام آباد میں بیٹھے ہم دو صحافیوں سے گفتگو کرنے والے بضد رہے کہ سوشل میڈیا پر فیصل آباد کے ایک بازار میں مبینہ طورپر زبردستی برہنہ کی گئی خواتین کا تعلق بھی ایسے ہی کسی گروہ سے ہے۔
میں یہ الزام تسلیم کرنے کو ہرگز تیار ہوں کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی وڈیو میں نظر آنے والی خواتین چوری چکاری کے عادی گروہ کا حصہ ہوں گی۔ ایسی خواتین کی نشان دہی کے بعد مگر پولیس کو اطلاع دے کر انہیں گرفتار بھی تو کروایا جاسکتا تھا۔ انہیں دوکان دار کی جانب سے ازخود سبق سکھانے کی کوشش مگر لازماََ ہوتی نظر آئی ہے۔ جو وڈیو میں نے دیکھی ہے اس میں ایک مرد بلکہ پہلے سے برہنہ ہوئی ایک کم عمر خاتون پر ڈالی چادر کو نفرت سے کھینچتا ہوا نظر آیا۔ قانون کو دوکان داروں کے گروہ نے یقینا اپنے ہاتھ میں لیا۔ ازخود سبق سکھانے کا فیصلہ کیا۔
فیصل آباد پولیس نے مذکورہ واقعہ کی ایف آئی آردرج کرلی ہے۔ اس کے بعد چند گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں۔ میری اطلاع کے مطابق اس شہر کے ایک سینئرپولیس افسر تفتیش کی ذاتی نگرانی کررہے ہیں۔ نام ان کا عمران محمود ہے اور پویس سے رابطے میں رہنے والے رپورٹر انہیں نیک نام پروفیشنل بتارہے ہیں۔ میں ان کی جانب سے ہوئی تفتیش پر اعتبار کرنے کو ترجیح دو ں گا۔
سوشل میڈیا پر تاہم "عورت کارڈ" کھیلنے والے ان پاکستانیوں کا جو لادین مغرب کے سہولت کار بھی تصور ہوتے ہیں مکوٹھپنے کے لئے 20سے 30سال کے درمیان والی عمر کے محبان وطن متحرک ہوچکے ہیں۔ فیصل آباد میں ہوئے واقعہ کی مبینہ طورپر مکمل وڈیو انہوں نے مختلف سی سی ٹی وی کیمروں پر ریکارڈ ہوئی حرکات کو جمع اور ایڈٹ کرکے تیار کرلی ہے۔ اسے دکھاتے ہوئے دہائی مچائی جارہی ہے کہ پاکستان کو خواتین پر ظلم کی ایک اور کہانی گھڑے ہوئے بدنام کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ ہمیں اس سے گمراہ نہیں ہونا چاہیے۔
ان نوجوانوں کے گراں قدر خیالات سنتے ہوئے مجھے امریکہ کا سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ یاد آگیا۔ وہ ڈھٹائی سے مصر رہا تھاکہ امریکہ میں تمام جرائم کی وجہ غیر ملکوں سے آئے پناہ گزین ہیں۔ فرانس میں بھی ان دنوں زیمور نام کا ایک سابق صحافی اور ناول نگار نفرت آمیز پیغام پھیلاتے ہوئے اس ملک کا صدر منتخب ہوناچاہ رہا ہے۔ وہ ڈھٹائی سے اصرار کرتا ہے کہ فرانس میں منشیات فروشی اور چوری چکاری سے متعلق تمام تر جرائم فقط اس ملک میں افریقہ اور عرب ملکوں سے آئے مسلمانوں کے ہاتھوں سرزد ہوتے ہیں۔
امریکہ میں ہر سیاہ فام کوو ہاں کا نسل پرست جرائم پیشہ شمار کرتا ہے۔ فرانس کے نسل پرستوں کو عرب اور مسلمان جرائم کی مجسم علامت نظر آتے ہیں۔ ہمارے ہاں ویسے ہی خیالات اوڈھ خواتین کے بارے میں نسلوں سے موجود ہیں۔ ہم مگر اس کا اعتراف کرنے کی جرأت نہیں دکھا پائیں گے۔