پیٹرول کی قیمت میں حال ہی میں جو گراں باراضافہ ہوا ہے وہ حکومت کو مطمئن نہیں کرپایا۔ ہمارے پالیسی ساز اس کے باوجود پراعتماد ہیں کہ اپنی "حقیقی آمدنی چھپانے کے عادی" عوام بجلی کے نرخوں میں مزید اضافے کو بھی بآسانی برداشت کرسکتے ہیں۔ اسی باعث ایک سمری تیار ہوئی ہے جو بجلی کے ایک یونٹ کی قیمت میں چھ روپے بڑھانے کی خواہاں ہے۔ وطن عزیز میں غریبوں کے یک وتنہا ہمدرد ٹھہرائے وزیر اعظم عمران خان صاحب شاید اس تجویز کو منظور کرنے میں دیر لگائیں۔ مگر تابکہ؟ !
عالمی معیشت کا نگہبان ادارہ -آئی ایم ایف- بضد ہے کہ پاکستان کے صارفین بجلی کی وہ قیمت تو ہر صورت ادا کریں جو اسے پیدا کرنے میں خرچ ہوتی ہے۔ انگریز ی میں اسے Cost Recoveryکہا جاتا ہے۔ ایسا نہ ہوا تو بجلی پیدا کرنے والوں کے واجب الادا قرضوں میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ اس کی بدولت ہم بالآخر جدید زندگی کے لئے لازمی شمار ہوتی اس سہولت سے محروم بھی ہوسکتے ہیں۔
سینکڑوں پاکستانیوں کی طرح مجھے بھی اپنی آمدنی میں اضافے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔ روزمرہّ زندگی میں استعمال ہونے والی کئی اشیاء کو خریدتے ہوئے دل گھبراجاتا ہے۔ حکومتی ترجمانوں کی فوج ظفر موج مگر مصر ہے کہ میڈیا میں مہنگائی کی دہائی مچانے والے درحقیقت ماضی میں حکمران رہے "چور اور لٹیروں " سے ملے "لفافوں اور ٹوکریوں " کی وجہ سے اس کی بابت واویلا مچاتے ہوئے قوم میں مایوسی پھیلارہے ہیں۔ عام لوگ مہنگائی کی وجہ سے واقعتا پنجابی محاورے والے "نکونک" محسوس کررہے ہوتے تو گزشتہ ہفتے پنجاب کے تقریباََ قلب میں واقع منڈی بہائوالدین میں وہ فقید المثال اجتماع نہ ہوپاتا جس سے وزیر اعظم صاحب نے دھواں دھار خطاب فرمایا ہے۔ عوام کی اس اجتماع میں بھرپور شرکت نے ایک بار پھر یہ پیغام دیا ہے کہ رائے دہندگان کی بے پناہ اکثریت اپنی مشکلات کا حتمی ذمہ دار شریف خاندان جیسے سیاستدانوں ہی کو ٹھہراتی ہے۔ وہ شدت سے خواہش مند ہے کہ عمران خان صاحب ایسے سیاستدانوں کے خلاف احتسابی عمل کو جلد از جلد منطقی انجام تک پہنچائیں۔ عدالتوں سے فراہم ہوئے "سٹے آرڈر" مگر عبرت کا نشان بنانے والے عمل کو تیزی سے مکمل نہیں ہونے دے رہے۔
عدالتوں سے "سٹے آرڈر" کا شکوہ کرتے ہوئے حکومتی ترجمان یہ حقیقت فراموش کردیتے ہیں کہ محترمہ مریم نوازصاحبہ کو احتساب عدالت نے سزا سنائی تھی۔ انہوں نے اس سزا کے خلاف اسلا م آباد ہائی کورٹ میں اپیل کاقانونی حق استعمال کیا۔ ٹھوس دلائل کے ذریعے مذکورہ اپیل کو مسترد کروانا نیب کی ذمہ داری ہے۔ اس کی جانب سے تعین ہوئے نئے پراسیکیوٹر نے تاہم اپنے دلائل مرتب کرنے کے لئے گزشتہ ہفتے ہی ایک ماہ کی مہلت طلب کرلی ہے۔ شہباز شریف اور ان کے فرزند کے خلاف "مقصود چپڑاسی" کے نام پر ہوئی اربوں روپوں کی مبینہ منی لانڈرنگ کے بھی بہت چرچے ہیں۔ گزرے جمعہ کے دن مگر ان دونوں کے خلاف بھی باقاعدہ فرد جرم نہ لگ پائی۔
عدالتوں سے "سٹے آرڈر" کا مسلسل گلہ کرنے کے باوجود حکومت مگر ایک قانون صدارتی آرڈیننس کے ذریعے فی الفور لاگو کرنا چاہ رہی ہے۔ اس کی بدولت سوشل میڈیا پر متحرک تخریب کاروں کو عدالتی نظام پر سوال اٹھانے کی وجہ سے بلاوارنٹ گرفتاری کے بعد پانچ برس تک جیل بھیجنے کو یقینی بنایا جائے گا۔
سوشل میڈیا کو لگام ڈالنے کی کاوشوں میں اس ٹی وی پروگرام نے مہمیز کا کردار ادا کیا ہے جو نظر بظاہر وفاقی کابینہ کے سب سے محنتی اور اپنی کارکردگی کی بنا پر نمبرون ٹھہرائے رکن جناب مراد سعید کی بابت اخلاق سے گرے پیغامات دیتا محسوس ہوا۔ اس پروگرام میں شامل ایک صاحب کو ڈرامائی انداز میں گرفتار بھی کرلیا گیا ہے۔ وہ صاحب کئی دہائیوں سے عمران خان صاحب کے قریب ترین مصاحبین میں شمار ہوتے تھے۔ ان کی گرفتاری نے لہٰذا پنجابی محاورے والا "نیا کٹا" کھول دیا۔ معاملہ اب عدالت میں ہے۔ اس کے بارے میں خاموشی اختیار کرنا مجھ جیسے دو ٹکے کے صحافی کے لئے لازمی ہے۔
جہانگیر ترین صاحب بھی کئی برسوں تک عمران خان صاحب کے قریب ترین دوستوں میں شامل رہے ہیں۔ وہ ایک کامیاب ترین صنعت کار بھی شمار ہوتے ہیں۔ "ککھ کو لکھ" میں تبدیل کرنے والی صلاحیتوں سے مالا مال۔ 1990ء کی دہائی میں شہباز شریف جب پنجاب کا مقدر سنوارنے کو بے چین اس صوبے کے طاقت ور وزیر اعلیٰ تھے تو زراعت کو جدید تر اور منافع بخش بنانے کے لئے ترین صاحب کی ذہانت سے رہ نمائی کے مستقل طلب گار رہے۔ وہ اقتدار سے فارغ ہوئے تو جنرل مشرف کو بھی ان کی صلاحیتوں سے استفادے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ شوکت عزیز کا حسد مگر ترین صاحب کی پرواز میں رکاوٹ ڈالتا رہا۔
جنرل مشرف کی نگرانی میں 2008ء کا عام انتخاب بھی ہوا تھا۔ ترین صاحب اس کی بدولت اپنے بردار نسبتی مخدوم زادہ احمد محمود صاحب کے موروثی اثرورسوخ کی بدولت قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ وہاں پیر پگاڑا سے منسوب مسلم لیگ کی نشست پر خاموشی سے براجمان رہتے۔ دل ہی دل میں تاہم بلندیٔ پرواز کے منصوبے بناتے رہتے۔ اسحاق خاکوانی صاحب ان کے دیرینہ دوست ہیں۔ وہ میرے مہربان بھی رہے ہیں۔ ان کی بدولت ترین صاحب کے اسلام آباد والے محل نما گھر میں کئی بار جانے کا اتفاق ہوا۔ ان کی میزبانی سے لطف اندوز ہونے کے علاوہ ترین صاحب سے مختلف النوع آموں کے کریٹ بھی اپنے گھر عاجزی سے وصول کرتا رہا۔ 2010ء سے لیکن وہ میری دیانت کے بارے میں سوال اٹھانے کو مجبور ہونا شروع ہوگئے۔
وجہ ان کی بدگمانی کی یہ ہوئی کہ 2010ء کے سیلاب کے بعد جنوبی پنجاب میں خواجہ غلام فرید کے مزار تلے واقع تباہ ہوئی ایک بستی کی آباد کاری کے لئے نواز شریف نے ایک منصوبے کا افتتاح کیا۔ میں ان دنوں ایک ٹی وی کے لئے پروگرام بھی کرتا تھا۔ میرے ساتھی مشتاق منہاس کی وساطت سے پیغام ملا کہ نواز شریف صاحب مذکورہ منصوبے کے افتتاح کے لئے ہمیں اپنے ہمراہ لے جانا چاہ رہے ہیں۔ میں نے فقط اس صورت آمادگی کا اظہار کیا کہ اگر دوران سفر وہ ہمارے سوالات کا جواب دینے والا انٹرویو دیں گے۔ وہ رضا مند ہوگئے تو ہم اپنے ٹی وی کی فراہم کردہ کار پر لاہور گئے۔ وہاں ایک ہوٹل میں رات گزاری۔ اس ہوٹل کا خرچہ بھی ہمارے ٹی وی ہی نے دیا۔ ہمیں پیغام ملا کہ نواز شریف صاحب لاہور کے پرانے ایئرپورٹ سے مذکورہ سفر پر روانہ ہوں گے۔ ہم دفتر کی فراہم کردہ گاڑی پر ہی ایئرپورٹ پہنچ گئے۔ وہاں موجود ایک نجی طیارہ نواز شریف صاحب کے سفر کے لئے استعمال ہوا۔ ہمارا انٹرویو واپسی پرواز کے دوران ہوا اور میں نے اس دوران اپنے تئیں نواز شریف صاحب سے کئی سخت سوالات بھی پوچھے۔
وہ انٹرویو ٹی وی پر چل گیا تو ترین صاحب نے اپنے اسلام آباد والے گھر مدعو کیا۔ میرے کئی سینئر ساتھیوں کی موجودگی میں طنزیہ تکرار سے استفسار کرتے رہے کہ نواز شریف صاحب جس طیارے میں محو پرواز تھے وہ کس کی ملکیت تھا۔ ترین صاحب کا بھی ایک مشہور زمانہ نجی طیارہ ہے۔ میں نے واقعتا یہ سوچا کہ غالباََ انہوں ہی نے یہ طیارہ نواز شریف کے سفر کے لئے فراہم کیا ہوگا۔ میں نے اس شبے کا اظہار کیا تو وہ تلملا اٹھے۔ نہایت حقارت سے فرمایا کہ وہ شریف خاندان جیسے "بدعنوان" سیاستدانوں سے ہاتھ ملانے کوبھی آمادہ نہیں۔ بعدازاں میں نے دریافت کرلیا کہ وہ طیارہ درحقیقت چودھری منیر کی ملکیت تھا جو اب مریم نوازصاحبہ کے سمدھی بھی ہیں۔
ترین صاحب کی شریف خاندان سے "اصولی بنیادوں " پر شدید تر ہوئی نفرت وحقارت ہفتے کے دن میڈیا میں مشہورہوئی اس خبر کے بعد بہت شدت سے یاد آرہی ہے جس میں دعویٰ ہوا کہ موصوف کی شہباز شریف صاحب سے تنہائی میں ایک خفیہ اور طویل ملاقات ہوئی ہے۔ مذکورہ ملاقات بالآخر شہباز صاحب کو عمران صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے میں آسانیاں بھی فراہم کرسکتی ہے۔ شہباز شریف اور جہانگیر ترین گویا دوبارہ "بھائی -بھائی" ہونے والے ہیں۔ شاید میں دو ٹکے کا صحافی اگر اب شہباز صاحب سے پیشہ وارانہ ضرورت کی وجہ سے کوئی انٹرویو کروں تو ترین صاحب اس انداز میں چراغ پا نہیں ہوں گے جیسے آج سے بارہ سال قبل نواز شریف صاحب سے انٹرویو کی وجہ سے ہوگئے تھے۔ باہمی نفرتیں اور غصہ بھلاکر ایک دوسرے کو جپھیاں ڈالنے کا حق ہمارے غلام معاشرے میں فقط شہباز شریف اور جہانگیر ترین جیسے دنیا کی ہر نعمت سے مالا مال سیاستدانوں ہی کو حاصل ہے۔ ہم کمی کمین صحافی مگر ان سے محض پیشہ وارانہ روابط استوار کرنے کے سبب "بکائو" اور ضمیر فروش ٹھہرائے جاسکتے ہیں۔ اشرافیہ کے جوتوں کی نوک تلے رکھے "منشی"۔