طالبان اور امریکہ کے درمیان قطر کے دوحہ میں طویل عرصے تک جاری رہے مذاکرات کا عمل مکمل ہوگیا تو اس کے اختتام پر ایک معاہدے کا اعلان ہوا۔ اس کے متن کو غور سے پڑھنے کے بعد میں آپ کو یاد دلاتا رہا کہ مذکورہ معاہدہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور اسلامی امارات افغانستان کے مابین ہوا ہے۔ طالبان کو اس میں محض ایک فریق ہی گردانا نہیں گیا جسے افغانستان میں اب دائمی امن واستحکام کے قیام کے لئے دیگر افغان فریقین سے مذاکرات کے ذریعے کسی اور معاہدے کی ضرورت محسوس ہو۔ مذکورہ معاہدہ بلکہ افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں فاتحانہ واپسی کی نوید سنارہا ہے۔
مجھ جیسے کمزور ایمان والے کی جانب سے طالبان کی فتح مبین کے اعتراف نے بہت دوستوں کو شاد کردیا۔ رنگ میں بھنگ ڈالنا میرا مقصد نہیں تھا۔ یہ حقیقت بھی تاہم تواتر سے دہرانے کو مجبور ہوگیا کہ طالبان بالآخر افغان ہی ہیں اور افغان عوام کی اکثریت خواہ ان کا تعلق کسی بھی نسلی یا سیاسی گروہ سے ہو پاکستان کے بارے میں دل سے دوستانہ محسوس نہیں کرتی۔ اس حقیقت کو اجاگر کرنے کیلئے میں نے کئی واقعات بھی اس کالم میں بیان کئے جو افغانستان کے بارہا سفر کے دوران میرے مشاہدے میں آئے تھے۔ ذاتی طورپر مجھے کابل اور دیگر شہروں میں پاکستانی کے بجائے ہمیشہ پنجابی پکارا گیا۔ ہر قوم کی اجتماعی یادداشت ہوتی ہے۔ یہ دلوں میں موجود تعصبات کو نسلوں تک منتقل کرتی رہتی ہے اور افغانوں کی اجتماعی یاداشت پنجاب کے بارے میں مثبت جذبات کی حامل نہیں۔
انتہائی رعونت سے لیکن افغان امور کے ماہر تصور ہوتے کئی طاقت ور افراد مجھے یہ سمجھانا شروع ہوگئے کہ طالبان دیگر افغانوں سے مختلف ہیں۔ اسلام کو وہ پاکستان کے ساتھ اپنے رشتوں کی بنیاد تصور کرتے ہیں۔ وہ اشرف غنی جیسے "مغرب زدہ" نہیں۔ نہ ہی حامد کرزئی کی طرح پاکستان کو جھکانے کے لئے بھارت کی نازبرداری کرتے ہیں۔ کج بحثی کی مجھے عادت نہیں۔ ماہرینِ افغان امور کے لیکچر خاموشی سے سنتا رہا۔
گزشتہ ہفتے سے مگر ایسی ویڈیو کلپس تواتر سے وصول کررہا ہوں جن میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے علاوہ کابل کی پولیس کے سربراہ اور افغان ثقافت کے نگہبان بنائے ایک صاحب مختلف تقاریب اور افغان ٹی وی کے پروگراموں میں پاکستان کی اسلامی شناخت کا تمسخر اڑارہے ہیں۔ افغانوں کو یاد دلارہے ہیں کہ امریکہ کے دبائو تلے گھبراکر پاکستان کی مختلف حکومتوں نے طالبان کا جینادو بھرکردیا تھا۔ ان کے پاکستان میں موجود رہ نمائوں کو گرفتار کرکے امریکہ کے حوالے کردیا گیا۔ افغانستان پر قابض افواج کی رسد بھی پاکستان کے زمینی راستوں ہی سے جاتی رہی۔ اس کے علاوہ ڈرون حملوں کا تذکرہ بھی انتہائی تلخ زبان میں ہورہا ہے۔
طالبان حکومت کے چند سرکردہ رہ نمائوں اور اہلکاروں کے وڈیو پر ریکارڈ ہوئے کلمات مجھے فون پر فارورڈ کرتے ہوئے کئی افراد پریشانی سے جاننا چاہ رہے ہیں کہ "یہ کیا ہورہا ہے؟ "میں نے کسی ایک کو بھی جواب نہیں دیا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے علمی بحث ویسے بھی ممکن نہیں۔ سوچ رکھا تھا کہ موقعہ ملا تو اس کالم میں اپنی رائے بیان کردوں گا۔
مزید بڑھنے سے قبل دوبارہ یاد دلانا ہوگا کہ طالبان بھی بالآخر افغان ہی ہیں اور افغان قوم پرستی کا بیانیہ پاکستان کو وسیع تر پنجاب ہی تصور کرتا ہے۔ اس بیانیے کی بنیاد چند تاریخی وجوہات ہیں جو پنجاب کو دوستانہ بناکر نہیں دکھاتیں۔ طالبان کی اگست 2021ء میں اقتدار میں فاتحانہ واپسی کے بعد سوشل میڈیا پر متحرک ہوئے بے تحاشہ افغان انہیں پاکستان کا "ایجنٹ" بناکر پیش کررہے تھے۔ چند دن تک اس پراپیگنڈہ کو نظرانداز کرنے کے بعد طالبان کے لئے بالآخر لازم ہوگیا کہ وہ اپنی افغان شناخت کو بھی شدت سے اجاگر کریں۔ قوم پرستی پر مبنی تعصبات کا اظہار ایسی مشق کے لئے لازمی ہے۔
محض قوم پرستی ہی مگر طالبان کا کلیدی بیانیہ بن نہیں سکتی۔ اپنے بیانیے کو مزید طاقت ور بنانے کے لئے وہ پاکستان کا اب دینی معیارسے جائزہ لیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بناناشروع ہوگئے ہیں۔ اسلام کے نام پر قائم ہوا پاکستان ان کی دانست میں "خالص" اسلامی ملک نہیں ہے۔ ہمارے لئے بلکہ "کثیف" کا لفظ استعمال ہورہا ہے۔ ہماری ریاست کو امریکہ اور مغرب کے تھلے لگاہوا بھی بتایا جارہا ہے۔ ایمان داری کی بات یہ بھی ہے کہ اسلام کو معیا ر بناتے ہوئے ہماری ریاست، یہاں موجود سیاسی نظام اور ہماری ریاست کی خارجہ پالیسی پر جو سوالات طالبان کی جانب سے اٹھائے جارہے ہیں وہ بالکل ویسے ہی ہیں جو وطن عزیز میں مذہب کی بنیاد پر قائم ہوئی سیاسی جماعتیں 1950ء کی دہائی سے اٹھاتی چلی آرہی ہیں۔
حالیہ دنوں میں پاکستان کے خلاف بدکلامی کرنے والوں کی اکثریت اس گروہ سے ہے جو گزشتہ 20برسوں سے افغانستان ہی میں رہتے ہوئے غیر ملکی افواج کی مزاحمت میں مصروف رہا۔ ملاغنی برادر جیسے رہ نمائوں کی طرح وہ دنیا کے مشہور پنج ستاری ہوٹلوں میں قیام پذیر ہوکر امریکہ اور دیگر یورپی ممالک کے طاقت ور افراد سے مذاکرات نہیں کرتے رہے۔ اپنی جوانی کے طویل برس انہوں نے افغانستان کے مختلف دیہات اور قصبوں میں امریکی جاسوسوں اور ڈرون طیاروں سے محفوظ رہنے کی اذیت میں گزارے ہیں۔ اپنی اذیتوں کو انہوں نے دین کی خاطر رونما ہوئی تکالیف شمار کیا۔
میں اور آپ پسند کریں یا نہیں میدان جنگ میں دو دہائیوں تک متحرک رہے طالبان کے بے تحاشہ فیلڈ کمانڈر ٹھوس بنیادوں پر یہ محسوس کرتے ہیں کہ دین اسلام کے جہادی اصولوں پر ثابت قدمی سے قائم رہتے ہوئے انہوں نے دنیا کی واحد سپرطاقت کہلاتے ملک کو بالآخر ذلت آمیز انداز میں افغانستان سے بھاگنے کو مجبور کردیا۔ طویل جدوجہد کے بعد اقتدار میں کامرانی سے لوٹے طالبان کی اکثریت اب دیگر اسلامی ممالک کا بھی اپنے نظریات کے معیار کے مطابق جائزہ لے گی۔ پاکستان کو اس ضمن میں استثناء میسر ہونے کی امید رکھنا خام خیالی ہے۔