ہمارے تحریری آئین میں کسی وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اس کے منصب سے ہٹانے کا جو طریقہ کار طے کردیا گیا ہے اس پر ہوبہو عمل ہوا ہوتا تو عمران خان صاحب کے مقدر کے بارے میں ہمارے ذہن اب تک صاف ہوچکے ہوتے۔ سپیکر اسد قیصر نے تاہم کامل ڈھٹائی سے قومی اسمبلی کا اجلاس 21مارچ کے دن طلب کرنے کے بجائے اسے جمعہ 25مارچ کی صبح بلایا ہے۔ پارلیمانی روایات کے مطابق اگر کوئی رکن قومی اسمبلی ایوان کے اجلاسوں کے دوران آئے وقفوں میں فوت ہوجائے تو اس کی وفات کے بعد بلائے سیشن کے پہلے دن کوئی دفتری کارروائی نہیں ہوتی۔ پہلے دن کا اجلاس مرحوم کو ایصال ثواب پہنچانے کے بعد مؤخر کردیا جاتا ہے۔
جمعہ کی صبح اسد قیصر مذکورہ روایت پر ہر صورت کاربند رہنے کو ڈٹے رہیں گے۔ اپوزیشن جماعتیں اگرچہ بضد رہیں گی کہ اجلاس مؤخر کرنے سے قبل ایوان میں وزیر اعظم کے خلاف جمع ہوئی تحریک عدم اعتماد کو کم از کم باقاعدہ پیش کرنے کی اجازت فراہم کی جائے۔ اسد قیصر کا انکار بھرپور احتجاج کو اُکسائے گا۔ وہ ہنگامے سے بے نیاز بیٹھے اجلاس مؤخر کرنے کے اعلان کے بعد اپنی نشست چھوڑ کر چلے جائیں گے۔
جمعہ کی صبح ہوئے اجلاس کو عموماََ پیر کی شام تک مؤخر کیا جاتا ہے۔ اسد قیصر مگر یہ بھی طے کرسکتے ہیں کہ وزیر اعظم کے خلاف قومی اسمبلی کے دفتر میں جمع ہوئی تحریک عدم اعتماد پر گنتی سے قبل سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرلیا جائے۔ آپ کو علم ہے کہ صدارتی ریفرنس کے ذریعے عمران حکومت عدالت عظمیٰ سے یہ معلوم کرنا چاہ رہی ہے کہ وزیر اعظم کے خلاف ووٹ ڈالنے والے حکومتی اراکین فلور کراسنگ کے خلاف تیار ہوئی آئین کی شق 63-Aکے مطابق محض موجودہ اسمبلی کی نشست سے محروم ہوجائیں گے یا وہ کسی بھی اسمبلی کا انتخاب لڑنے کے لئے تاحیات نااہل ہوں گے۔
مذکورہ استدعا کا واضح جواب آنا ضروری ہے۔ تحریک انصاف سے ناراض ہوئے اراکین قومی اسمبلی موجودہ ایوان میں اپنی نشست سے محروم ہونے کو دل وجان سے آمادہ ہیں۔ تاحیات نااہلی کا خوف مگر انہیں کوئی اور راستہ اختیار کرنے کو مجبور کرے گا۔ نظر بظاہر سب سے آسان اور فطری راہ محض یہ نظر آتی ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر ہوئی گنتی میں حصہ لینے کے بجائے وہ قومی اسمبلی سے مستعفی ہوجائیں۔
تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے اراکین میں سے 10سے 15افراد اگر قومی اسمبلی سے مستعفی ہوگئے تو اپوزیشن تحریک عدم اعتماد کی حمایت میں 172افراد دکھانہیں پائے گی۔ "ناکام" ہوئی تحریک عدم اعتماد کے باوجود مگر تحریک انصاف قطعی اکثریت سے محروم ہوجائے گی۔ عمران حکومت کو اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے "اتحادی" جماعتوں پر کامل انحصار کرنا پڑے گا۔
اپوزیشن جماعتیں پُراعتماد تھیں کہ گجرات کے چودھریوں سے منسوب مسلم لیگ (ق) 24مارچ کی شام تک عمران حکومت سے علیحدہ ہونے کا اعلان کردے گی۔ یہ کالم لکھنے سے چند لمحے قبل مگر انتہائی بااعتماد ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ چودھریوں نے بدھ کی شام آصف علی زرداری سے رابطہ کیا۔ اپنے خاندان کے کسی جوان فرد کی بیماری کا تذکرہ کیا جو ہنگامی آپریشن کی متقاضی ہے۔ ہنگامی صورت حال سے نبردآزما ہونے کے لئے دو دن کی مہلت مانگی گئی ہے۔ جو اعلان متوقع تھا غالباََ 26مارچ کی شام تک ملتوی کردیا گیا ہے۔
تحریک عدم اعتماد پر حتمی گنتی ٹالنے کے لئے عمران حکومت نے حیران کن ڈھٹائی سے مناسب وقت حاصل کرلیا ہے۔ اس وقت کو جنونی لگن کے ساتھ عمران خان صاحب اپنے دیرینہ حامیوں کو یہ پیغام دینے میں صرف کررہے ہیں کہ اقتدار میں "باریاں لینے والے چور اور لٹیرے" ان کی حکومت گرانے کے لئے یکسواور یکجا ہوگئے ہیں۔ تحریک انصاف کی صفوں میں سے انہوں نے "غدار" بھی "خرید" لئے ہیں۔ "غداروں " کے خلاف نفرت اُکسانے کے علاوہ وہ 27مارچ کے دن اسلام آباد میں "دس لاکھ" حامیوں کا ہجوم بھی جمع کرنا چاہ رہے ہیں۔
ٹی وی سٹوڈیوز میں سرخی پائوڈر لگاکر ہماری ذہن سازی میں مصروف اینکر خواتین وحضرات اس امر کی جانب توجہ ہی نہیں دے رہے کہ اسلام آباد میں "دس لاکھ" افراد جمع کرنے کے لئے کس نوعیت کی تگ ودو ہورہی ہے۔ عملی صحافت سے ریٹائر ہونے کے باوجود میں اگرچہ مختلف شہروں میں موجود ذرائع سے ٹیلی فون پر ہوئی گفتگو کے بعد یہ محسوس کررہا ہوں کہ اسلام آباد کے اجتماع کو "تاریخ ساز" بنانے کے لئے ویسے ہی حربے اختیار کئے جارہے ہیں جو اکتوبر2011ء میں لاہور کے مینارِ پاکستان تلے عمران خان صاحب کو بھرپور انداز میں لانچ کرنے کے لئے استعمال ہوئے تھے۔ اس برس تحریک انصاف کو ریاستی وسائل میسر نہیں تھے۔ ان دنوں مگر وہ وفاق ہی نہیں پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں بھی برسراقتدار ہے۔ جماعتی اور ریاستی وسائل باہم مل کر اسلام آباد کے 27مارچ والے اجتماع کو یقینا بہت پرجوش اور پررونق بنادیں گے۔
اپوزیشن جماعتوں کا ارادہ تھا کہ مذکورہ اجتماع سے دو دن قبل ہی اسلام آباد کو اپنے حامیوں سے "بھر"دیا جائے۔ مولانا فضل الرحمن اس ضمن میں بہت بے تاب تھے۔ نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ (نون) مگر اس ضمن میں لیت و لعل سے کام لیتی نظر آتی رہی۔ غالباََ اسے امید تھی کہ شہباز شریف صاحب کی "فراست" اور "رابطے" 25مارچ سے قبل ہی عمران خان صاحب کی فراغت کا بندوبست کردیں گے۔ ایسا ہوتا مگر اب نظر نہیں آرہا۔ مسلم لیگ (نون) کو بھی اپنے حامی سڑکوں پر لانا ہی پڑیں گے۔
لاہور سے اسلام آباد تک "مہنگائی مارچ"کی تیاری مگر نیم دلی سے ہوتی نظر آرہی ہے۔ توقع محض یہ باندھی جارہی ہے کہ نواز شریف کی دُختر محترمہ مریم نواز صاحبہ جب جاتی امراء سے اسلام آباد کے لئے روانہ ہوں گی تو "لگ پتہ جائے گا"۔ مریم نواز صاحبہ اپنی ذات سے مختص انگریزی والی Crowd Pullingقوت عرصہ ہوا ثابت کرچکی ہیں۔
تحریک انصاف کے 27مارچ والے اجتماع کا اثرزائل کرنے کے لئے مگر صرف ان کی ذاتی کشش پر جنونی لگن سے ہوئی تیاری کے بغیر تکیہ کرنا سیاسی اعتبار سے قطعاََ خوش گمانی اور خام خیالی ہے۔ مریم نواز صاحبہ اپنے ساتھ چلتے جلوس کو تعداد اور جذبے کے حوالے سے تحریک انصاف کے اسلام آباد میں 27مارچ کے روز منعقد ہوئے اجتماع سے زیادہ بڑا اور گرم جوش ثابت نہ کرپائیں تو ان کی Crowd Pullingوالی ساکھ کو بھی شدید دھچکہ لگے گا۔ اپوزیشن اسلام آباد میں جو "میلہ" لگائے گی بالآخر مولانا فضل الرحمن ہی اپنے منظم حامیوں کی وجہ سے "لوٹ" لیں گے۔
دریں اثناء آنے والے کئی دنوں تک ہماری توجہ سپریم کورٹ پر بھی مرکوزرہے گی۔ فریقین کی جانب سے وہاں پیش ہوئے دلائل اور عزت مآب ججوں کے استفسارات پر مبنی ریمارکس ٹی وی سکرینوں پر رونق لگاتے رہیں گے۔ عمران خان صاحب کو اس دوران "ترپ" کے ایک نہیں بلکہ کئی پتے کھیلنے کی سہولت میسر رہے گی۔ جو تحریک عدم اعتماد وزیر اعظم کے خلاف پیش ہوچکی ہے اس سے مفر تاہم ممکن ہی نہیں۔ اس نے جو"آتش" بھڑکائی ہے وہ حکومت ہی نہیں اپوزیشن جماعتوں کے لئے بھی پریشانی کا باعث ہوگی۔ ہمارے کئی ادارے بھی اس کی "تپش" سے محفوظ نہیں رہ پائیں گے۔