سمجھ نہیں آرہی کہ میں اسے "سانحہ" پکاروں یا "لطیفہ"۔ سچ مگر یہ ہے کہ ہندو انتہا پسندی کے جنونی پرچارک نریندر مودی اور "خلافتِ عثمانیہ" کی عظمت بحال کرنے کو بے چین ترکی کے "سلطان اردوان" نے تقریباََ ایک جیسے الفاظ استعمال کرتے ہوئے 6جنوری کے روز واشنگٹن میں ہوئے واقعات کے بارے میں "تشویش"کا اظہار کیا ہے۔ وہاں جو مظاہرے ہوئے وہ ان دونوں کو "جمہوری روایات" کے لئے خطرہ نظر آئے۔ دونوں نے امریکی عوام کو "آئین اور قانون" کے احترام کا مشورہ دیا۔
ایسے بیانات کا اجراء دوسری جنگ عظیم کے بعد سے دُنیا کی سپرطاقت شمار ہوتے امریکہ کا حق اور اجارہ تصور ہوتا تھا۔ دُنیا کے کسی بھی خطے میں واشنگٹن میں بیٹھے پالیسی سازوں کو "جمہوریت خطرے میں "نظر آتی تو امریکی وزارتِ خارجہ کی جانب سے تحمل، برداشت اور آئین ا ور قانون کے احترام وغیرہ کے مشورے دئیے جاتے۔
6جنوری 2021کے روز واشنگٹن میں جو مظاہرے پھوٹ پڑے انہوں نے کئی مہربان قاریوں کو میرے لکھے وہ کالم یاد دلادئیے جن کے ذریعے یوٹیوب پر چھائے چند نجومیوں کی ستارہ شناسی کا ذکر ہوا تھا۔ نئے سال کا آغاز ہوتے ہی انہوں نے دہائی مچانا شروع کردی کہ مریخ نامی "جنگ پرست" سیارہ برج ثور میں داخل ہوکر برج دلو میں 800برس بعد یکجا ہوئے زحل اور مشتری کو "بری نظر" سے دیکھنا شروع ہوجائے گا۔ 6جنوری سے 20جنوری کے دوران ابلاغ کا حاکم عطارد بھی "وحشی" ہوجائے گا۔ 13جنوری کو چاندنے بھی کسی "برے گھر" جانا ہے۔ ان تمام چالوں کے حوالے سے خبردار کیا جارہا تھا کہ 6جنوری سے جاری ہوا "خلفشار" 20جنوری 2021تک انتہائی شدت اختیار کرلے گا۔ اس تاریخ سے چند روز قبل یا فوری بعد نائن الیون جیسا کوئی واقعہ بھی رونما ہوسکتا ہے جو تمام عالم کو ہلاکررکھ دے گا۔
کئی بار اعتراف کرچکا ہوں کہ ذاتی طورپر ستاروں کی چال کی بابت میرا رویہ اقبالؔ جیسا ہے جو "گردش افلاک میں گم" ستاروں اور سیاروں کو کسی خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ نجومیوں کی گفتگو سن کر البتہ حیران ہوا کیونکہ ان میں سے کم از کم ایک -Steve Judd-نے بڑے اعتماد سے 2018میں اعلان کردیا تھا کہ 2020کا برس دُنیا میں عجب نوعیت کی تباہی لائے گا جس کے نتیجے میں گزشتہ کئی دہائیوں سے روزمرہّ تصور ہوتے انسانی رویے اور طرز معاشرت حیران کن حد تک معدوم ہوجائیں گے۔
ایمان داری کی بات مگر یہ بھی ہے کہ امریکی سیاست کے ادنیٰ طالب علم کی حیثیت میں ستاروں کی چال سے غافل ہوتے ہوئے بھی 6جنوری 2021کے دن واشنگٹن میں ہنگاموں کا منتظر تھا۔ امریکہ کا تحریری آئین انتخابات اوران کے نتیجے کے حوالے سے جو تاریخیں اور طریقہ کار طے کرچکا ہے گزشتہ 220برسوں سے ان کا انحراف شاذ ہی دیکھنے کو ملا۔ 2016کے صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کے لئے تاہم ڈونلڈٹرمپ جیسا شخص نمودار ہوگیا۔ امریکی سفید فام لوگوں کی بے پناہ تعداد نے نہایت سنجیدگی سے یہ محسوس کیا کہ کاروباری حوالوں سے بہت "کامیاب" نظر آتا یہ شخص روایتی سیاست دانوں کی طرح "منافق" نہیں ہے۔ واشنگٹن گزشتہ کئی دہائیوں سے روایتی سیاستدانوں کے نرغے میں آکر "جوہڑ" میں تبدیل ہوچکا ہے۔ سیاسی نظام کا Outsiderہوتے ہوئے پُرخلوص مگر کھری بات کرنے کی بنا پر "بدتمیز" سنائی دیتا ٹرمپ اقتدار کے اجارہ داروں سے امریکہ کو نجات دلادے گا۔"سیاسی گند" اور "مافیاز"کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے ٹرمپ کئی حوالوں سے ہمارے عمران خان صاحب جیسا لگا۔
2020کا صدارتی انتخاب وہ جیت نہیں پایا۔ تلخ حقیقت مگر یہ بھی رہی کہ 2016کے مقابلے میں اسے اقتدار میں چار برس گزارنے کے بعد کہیں زیادہ تعداد میں پاپولر ووٹ ملے ہیں۔ پاپولر ووٹ کی حیران کن تعداد نے اسے انتخاب میں "دھاندلی" کی دہائی مچانے کو مجبور کیا۔"دھاندلی" کا ذکر 2000میں بھی ہوا تھا۔ چند روز گزرجانے کے بعد مگر جارج بش کی جیت کو باقاعدہ تسلیم کرلیا گیا۔ اس نے وائٹ ہائوس میں آٹھ برس گزارے۔
ٹرمپ مگر درگزر کو ہرگز تیار نہیں ہوا۔ جوبائیڈن کو چند روز کے رونے دھونے کے بعد اس نے مباک باد کا فون کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اپنے مصاحبین کو سختی سے حکم صادر کیا کہ بائیڈن کی نامزد کردہ Transition Teamکو ریاستی حقائق اور معاملات کی بابت روایتی بریفنگ نہ دی جائے۔ امریکی تاریخ کے تناظر میں مذکورہ رویہ پریشان کن "انہونی" تھی۔
نومبر میں صدارتی انتخاب ہوجائے تو اس کے بعد آئے نئے سال کی 6جنوری کے دن امریکی کانگریس یعنی پارلیمان رسمی ا نداز میں Electoral Votesکی "تصدیق" کردیتی ہے۔ اس کے بعد شکست خوردہ صدر نومنتخب صدر کے 20جنوری کے روزحلف اٹھانے کی تقریب کی تیاری شروع کردیتا ہے۔ 6جنوری نمودار ہونے سے کئی روز قبل ٹرمپ اپنے حمایتوں کے ساتھ طویل ملاقاتوں میں مصروف رہا۔ اس کی تمام تر توجہ چند ریاستوں میں قائم ری پبلکن حکومتوں کو قائل کرنے پر مرکوز رہی کہ وہ اپنے ہاں جوبائیڈن کی حمایت میں ڈالے ووٹوں کو "جعلی" قرار دیتے ہوئے مسترد کردیں۔ اس ضمن میں ریاستِ جارجیا کے ایک اعلیٰ افسر کے ساتھ اس کی ٹیلی فون پر ہوئی گفتگو بھی منظرِ عام پر آچکی ہے۔ ریاستوں کو اپنی حمایت کے لئے آمادہ کرنے میں ناکام ہوجانے کے بعد ٹرمپ نے اپنی Baseیعنی کٹرحامیوں کو زہر بھرے ٹویٹس لکھ کر بھڑکانا شروع کردیا۔ جو آتش اس نے بھڑکائی اس کی وجہ سے امریکی کانگریس میں بیٹھے کئی ری پبلکن اراکین گھبراگئے۔ ان میں سے چند ایک ہی ٹرمپ کو "ٹھنڈا" کرنے کی جرأت دکھاپائے۔
کوئی پسند کرے یا نہیں ٹرمپ نے 2016سے امریکی سفید فام اکثریت کے دلوں میں صدیوں سے موجود نسلی، مذہبی اور گروہی تعصبات کو بھڑکاتے ہوئے اپنے حامیوں کی ایک جنونی Baseتیار کی ہے۔ 6جنوری کے روز وہ و اشنگٹن جمع ہوگئے۔ کانگریس کے محاصرے کے بعد اس کے ایوانوں میں در آئے۔ پولیس انہیں روکنے میں قطعاََ ناکام رہی۔ امریکی دارالحکومت اب "نیشنل گارڈز" کے سپرد کردیا گیا ہے۔ کرفیو کے نفاذ سے حالات کو معمول پر لانے کی کوشش ہورہی ہے۔
یہ کالم لکھنے تک ٹرمپ اس امر کو ہرگزمائل نظر نہیں آرہا تھا کہ قوم سے "ہنگامی" خطاب کرتے ہوئے امن وامان کی بحالی کا تقاضہ کرے۔ آئینی اور قانونی اعتبار سے وہ 20جنوری 2021تک امریکی مسلح افواج کا "سپریم کمانڈر" بھی ہے۔ سادہ الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ اسے حالات پر قابو پانے کے بہانے امریکہ میں مارشل لاء لگانے کا اختیار حاصل ہے۔ امریکی افواج میں "سپریم کمانڈر" کی حکم عدولی کا تصور ہی موجود نہیں۔ ٹرمپ کے "آئینی" اختیارکو ذہن میں رکھتے ہوئے ان خدشات کا اظہار بھی ہورہا ے کہ 20جنوری سے قبل وہ ایران جیسے کسی "امریکہ دشمن" ملک کے خلاف فوجی کارروائی کا حکم بھی صادر کرسکتا ہے۔ ایک تحریری آئین کے تحت چلائی دُنیا کی "واحد سپرطاقت" شمار ہوتے امریکہ میں نمودار ہوا بحران تمام عالم کے لئے انتہائی پریشانی کا باعث ہے۔ میں اگرچہ پُراعتماد ہوں کہ تمام تر کاوشوں کے باوجود ٹرمپ کی متعصب اور جنونی Baseامریکی عوام کی اکثریت کی جانب سے ڈالے ووٹوں کے احترام کو بالآخر مجبور ہوجائے گی۔ حقائق تسلیم کرنے تک البتہ امریکی نظام اور روایتوں میں جو خوفناک اتھل پتھل اور خلفشار نمایاں ہوگا اس کے ازالے کے لئے کئی ماہ درکار ہوں گے۔ ساری دُنیا کے "مانیٹر" ہوئے امریکہ میں بحران فقط اس ملک تک ہی محدود نہیں رہے گا۔ اس کے منفی یا مثبت اثرات کا پاکستان جیسے ممالک میں نمودار ہونا بھی دیوار پر لکھا ہوا نظر آرہا ہے۔