تحریک انصاف کے وزراء سمیت کئی سرکردہ رہ نما کھلے دل سے اعتراف کررہے ہیں کہ خیبرپختونخواہ کے بلدیاتی انتخاب میں ان کی جماعت کو مہنگائی کی وجہ سے شکست کا سامنا کرناپڑا۔ عمران خان صاحب مگر ان کے تجزیے سے اتفاق نہیں کررہے۔ ان کی دانست میں تحریک انصاف کی شکست کا بنیادی سبب غلط امیدواروں کا چنائو تھا۔ اس تناظر میں مزید تحقیق کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔ وہ بھی بالآخر اپنے لیڈر کی ہاں میں ہاں ملانے کو مجبور ہوگی۔ غلط امیدواروں کے علاوہ مقامی قیادت میں دھڑے بندیوں کو بھی اس ہفتے کے آغاز میں رونما ہوئی شکست کا ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہے۔
عمران حکومت مہنگائی کی حقیقت تسلیم کرلے تو اسے بدھ کے روز سے شروع ہونے والے قومی اسمبلی کے جلاس میں منی بجٹ پیش کرنے سے اجتناب برتنا ہوگا۔ اس بجٹ کے ذر یعے ساڑھے تین سو ارب کے اضافی ٹیکس لاگو کرنا ہیں۔ بازار میں میسر ضروریاتِ زندگی کی بنیادی اشیاء کے سیلز ٹیکس میں بھی اضافہ کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ بجلی اور گیس کے نرخ بھی ہیں جنہیں آئی ایم ایف کی ہدایت کے مطابق "معقول" بنانا ہے۔
سرکار کی چاکری کرتے ماہرین معیشت جب "معقول"نرخوں کی بات کرتے ہیں تو سب سے پہلے یہ طے کیا جاتا ہے کہ بجلی کا فی یونٹ پیدا کرنے اور اسے میرے اور آپ کے گھروں تک پہنچنے کے لئے کتنی رقم خرچ ہوتی ہے۔ اس کے بعد کاروبار کا یہ بنیادی اصول یاد دلایا جاتا ہے کہ صارفین کے استعمال کی جو شے تیار ہو اسے بیچتے ہوئے منافع نہ سہی کم ازکم لاگت تو وصول ہو۔ بجلی کے ضمن میں گزشتہ کئی برسوں سے ہمارے ہاں ایسا نہیں ہورہا۔
حکومت شہری آبادی کو مطمئن رکھنے کے لئے بازار سے مہنگے داموں بجلی خرید کر اسے صارفین کو نسبتاََ سستے داموں فراہم کرتی ہے۔ لاگت اور قیمت میں جو فرق ہے وہ حکومت کو پلے سے پورا کرنا ہوتا ہے اور ہمارا قومی خزانہ بقول حکومت اب خالی ہوچکا ہے۔ سرکار کے پاس لوگوں کو سستی بجلی فراہم کرنے کی سکت ہی باقی نہیں رہی۔ بجلی پیدا کرنیوالوں کو بروقت ادائیگیاں نہیں ہوپارہیں۔ گردشی قرضے پہاڑ کی صورت اختیار کررہے ہیں۔
مہنگائی سے لہٰذا مفر ممکن نہیں۔ حکومت مگر اس کے وجود ہی کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ وزیر اعظم صاحب بارہا اصرار کرتے ہیں کہ پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک ہے۔ ان کے وزراء دیہاتوں میں پھیلی خوش حالی کو موٹرسائیکلوں کی ریکارڈ سیل کا ڈھول بجاتے ہوئے اجاگر کرتے رہتے ہیں۔ ریستورانوں میں جگہ نہ ملنے کا ذکربھی مسلسل ہورہا ہے۔ خوش حالی ثابت کرتے اعدادوشمار ہی حکومت کو یہ حوصلہ دیتے ہیں کہ وہ ساڑھے تین سو ارب روپے کے اضافی ٹیکس متعارف کروادے۔
حکومتی پالیسیوں کو مہنگائی کا ذمہ دار تسلیم کیا جاتا تو انہیں تیار کرنے والے شوکت ترین صاحب کو مردان کا رہائشی بتاتے ہوئے خیبرپختونخواہ اسمبلی سے سینٹ کا رکن بنوانے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔ ترین صاحب کو سینیٹر منتخب کروانے کے بعد اب ان کے پیش کردہ منی بجٹ پر بھی حکومتی اراکین بلاچوں چراں انگوٹھے لگادیں گے۔ متوقع بجٹ کی منظوری کے عمل سے دانستہ غیر حاضری بھی ان کی رکنیت خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ ایوان میں کھڑے ہوکر اس کے خلاف ووٹ دینا جرأت کا تقاضہ کرتا ہے جو ہمارے سیاستدانوں کو ہرگز میسر نہیں ہے۔ ان کی بے پناہ اکثریت ہمارے خوش حال ترین طبقات سے تعلق رکھتی ہے۔ مہنگائی ان کی روزمرہّ زندگی کا مسئلہ ہرگز نہیں۔ دِقت فقط یہ ہوتی ہے کہ جن افراد کے ووٹوں کی بدولت وہ منتخب ایوانوں میں بیٹھے ہیں ان کی کثیر ترین تعداد مہنگائی کی دہائی مچارہی ہے۔ ان کی تسلی کے لئے ہمارے نام نہاد نمائندے مہنگائی کے خلاف فقط تقاریر کرنے کو مجبور ہوجاتے ہیں۔
بہت تگ ودو سے غلاموں جیسی رعایا بنائے ہمارے عوام کے پاس اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے فقط ووٹ کی پرچی ہے۔ خیبرپختونخواہ کے بلدیاتی انتخاب کے دوران عوام کی اکثریت نے اپنے غصے کے اظہار کیلئے اس کا بھرپور استعمال کیا۔ تحریک انصاف کے نامزد کردہ امیدواروں کی حمایت سے انکار کردیا۔ مولانا فضل الرحمن کی جمعیت العلمائے اسلام ان کی مقبول ترین ترجیح نظر آئی۔ اس مقبولیت کی بابت ہمیں حیران نہیں ہونا چاہیے۔ کوئی پسند کرے یا نہیں جولائی 2018کے انتخاب ختم ہونے کے پہلے دن سے مولانا انتہائی ثابت قدمی سے عمران خان صاحب کی قیادت میں بنائے بندوبست کو تسلیم کرنے سے انکار کررہے ہیں۔
اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں نے نیک نیتی سے کبھی ان کا ساتھ نہیں دیا۔ پیپلز پارٹی کو ان سے رشتہ بناتے ہوئے اپنا لبرل تشخص یاد آجاتا ہے۔ مسلم لیگ (نون) پر حاوی سنجیدہ اور تجربہ کار سیاست دانوں کا گروہ مولانا کے جوش خطابت سے گھبرا جاتاہے۔ مولانا مگر بددل نہیں ہوئے۔ گزشتہ تین برسوں سے مسلسل پاکستان کے تقریباََ ہر شہر اور قصبے میں جاکر کسی نہ کسی نوع کے سیاسی عمل کو متحرک رکھتے ہیں۔ خیبرپختونخواہ کے بلدیاتی انتخاب کے دوران ووٹ کی پرچی استعمال کرتے ہوئے عوام کی اکثریت نے ان کی ثابت قدمی اور استقلال کو سراہا ہے۔
اب یہ فرض کرلینا بھی مگر خام خیالی ہوگی کہ خیبرپختونخواہ کے بلدیاتی انتخاب عمران خان صاحب کی قیادت میں بنائے بندوبست کے خالقوں کو اپنا رویہ تبدیل کرنے کو مائل کریں گے۔ بارہا اس کالم میں عرض کیا ہے کہ اگست 2018سے متعارف ہوا بندوبست ہماری ہر نوع کی اشرافیہ نے طویل سوچ بچار اور منظم منصوبہ بندی سے تیار کیا ہے۔ اس بندوبست کے اہم ترین شراکت داروں کا مہنگائی مسئلہ نہیں۔ وہ آئی ایم ایف کی ہدایات کو ہر صورت عمل پیرا ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ منی بجٹ کی منظوری کے دوران اگر کسی حکومتی رکن یا اتحادی جماعت نے اڑی دکھانے کی کوشش کی تو فون کھڑکیں گے اور سب ٹھیک ہوجائے گا۔
نئے سال کا آغاز ہوتے ہی مہنگائی کی ایک اور شدید ترین لہر آئے گی۔ یہ فقط میرے اور آپ جیسے عام پاکستانی کو جس کی آمدنی محدود سے محدود تر ہوتی جارہی ہے بلبلانے کو مجبور کرے گی۔ ہماری ہر نوع کی اشرافیہ کے بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ عوامی جذبات کو ٹھنڈا رکھنے کے لئے بلکہ کہانیاں چلوائی جائیں گی کہ عمران خان صاحب کو اِن ہائوس تبدیلی کے ذریعے ہٹانے کا منصوبہ خفیہ ملاقاتوں میں تیار ہونا شروع ہوگیا ہے۔ میڈیا میں خود کو باخبر ترین بتانے والے بھانڈ نما ذہن ساز نہایت سنجیدگی سے مبینہ منصوبے کی تفصیلات اور اس ضمن میں ہوئی آنیوں جانیوں کا ذکر شروع کردیں گے۔ بالآخر ہم سب کو مگر اسی تنخواہ پر گزارہ کرنا ہوگا۔