Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. 2021 Ka Tipu Sultan

2021 Ka Tipu Sultan

"طاؤس" کے پیر میں گولی لگ چکی تھی۔ ٹیپو سلطان اپنے گھوڑے سے نیچے اترے اور بے جگری سے انگریز فوج سے لڑنے لگ گئے۔ نواب کا آخری محافظ شجاعت خان، فرنگی گولیوں سے چھلنی ہونے کے باوجود لڑ رہا تھا۔ مگر اتنے زیادہ زخموں کی تاب نہ لا سکا۔ وفادار کے آخری الفاظ تھے۔"الوداع میرے شہزادے، آپ پر اللہ کی سلامتی ہو"۔ سلطان کی فوج کے بارہ ہزار سپاہی شہید ہو چکے تھے۔ گولیوں کی بارش میں نواب بے خوفی سے انگریزی فوج کا مقابلہ کر رہے تھے۔ اچانک انھیں چار گولیاں لگیں۔

دو بازوں میں، ایک سینے میں اور ایک کان کے نزدیک۔ سلطان زمین پر گر پڑے۔ نواب صرف اپنوں کی غداری سے ہارے تھے۔ جب روح جسم سے نکلی تو ٹیپو سلطان کی زبان پر کلمہ شہادت جاری تھا۔ دشمنوں میں سے کسی کو یقین نہیں تھا کہ نواب شہید ہو چکے ہیں۔ کسی کی ہمت نہیں تھی کہ لاش کے قریب آ سکے۔ شہادت کے بعد بھی سلطان کا دبدبہ بدستور موجود تھا۔ جنرل بیرڈ اور کرنل دلزلی تک نواب کی لاش کے نزدیک جانے کے لیے تیار نہیں تھے۔ سلطان کی دونوں آنکھیں کھلی تھیں اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ ڈرتے ڈرتے جنرل دلزلی نے نواب کی لاش کو چھوا اور سمٹ کر دور کھڑا ہو گیا۔

سلطان کے شہید ہونے کے باوجود اس کی جرأت نہیں ہو رہی تھی کہ نواب کو چھو سکے۔ یہ کشمکش کئی گھنٹے جاری رہی۔ رات گئے جب انھیں یقین ہو گیا کہ ٹیپو سلطان شہید ہو چکے ہیں تو یہ خبر ان کے کمانڈر جنرل ہارس کو دی گئی۔ وہ بھی سکتے میں چلا گیا۔ اس میں بھی ڈر اور خوف کی کیفیت تھی۔

بھاگتا ہوا اس جگہ پہنچا۔ جہاں سلطان شہید کی لاش موجود تھی۔ وہ بھی ٹیپو کے رعب سے خائف تھا۔ بہر حال جب انگریزی فوج کو یقین ہو گیا کہ سلطان شہید ہو چکے ہیں۔ تو جنرل ہارس نے نعرہ لگایا " آج سے ہندوستان ہمارا ہے"۔ یہ سرنگا پٹم کی چوتھی اور آخری جنگ تھی۔ 1799 کی اس جنگ کے بعد انگریزوں کے خلاف مزاحمت کرنے کے لیے کوئی مقامی حکمران موجود نہیں تھا۔ اورنگ زیب عالمگیر کے بعد، ٹیپو سلطان ہماری ترکش کا آخری تیر تھا۔

میسورمیں سلطان کی حقیقت ایک طرف۔ اور آج کا برصغیر دوسری طرف۔ کشمیر کے ٹیپو سلطان، جناب سید علی گیلانی دو دن قبل لقمہ اجل ہوئے۔ بانوے برس کا یہ مجاہد، مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی وہ طاقت ور ترین آواز تھی جسے ہندوستان کی حکومت کسی بھی صورت میں خاموش نہیں کروا سکی۔

ہر ظلم، ہر ستم، ہر غیر انسانی رویہ، اس مجاہد کے فولادی عزم کو کمزور نہ کر پایا۔ جناب سید صاحب کی زندگی پر نظر ڈالیے تو صرف مصائب ہی مصائب نظر آتے ہیں۔ اور وہ بھی کس لیے۔ صرف، واحد نکتہ، کہ مقبوضہ کشمیر کبھی بھی ہندوستان کا حصہ نہیں رہنا چاہتا۔ آزادی، اس مرد مجاہد کی زندگی کا نایاب مقصد تھا۔ پوری بھارتی فوج اور حکومت اس نحیف نظر آنے والی شخصیت سے کانپتی تھی۔ سید صاحب ایم اے او کالج لاہور کے فارغ التحصیل تھے۔ یہ پاکستان بننے سے پہلے کی بات ہے۔ تدریس کے مقدس شعبے سے بھی منسلک رہے۔

پھر بہت قلیل عرصے کے بعد مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی آہنی آواز بن گئے۔ اب ان کی زندگی کا صرف ایک مقصد تھا، مقبوضہ کشمیر کی آزادی۔ بھارتی حکومت نے ان کے ساتھ ہر وہ ظلم روا رکھا جو ان کے اختیار میں تھا۔ مگر سروقد گیلانی چٹان کی طرح اپنے نظریہ پر قائم رہے۔ حریت کانفرنس کی سب سے مقبول شاخ کے چار بار چیئرمین منتخب ہوئے۔ واشگاف الفااظ میں بات کرتے تھے۔ 1981میں علی گیلانی کا پاسپورٹ بھارتی حکومت نے ضبط کر لیا۔ الزام تھا کہ ہندوستان کے خلاف بات کرتے ہیں۔ 1981 سے لے کے2021 تک علی گیلانی کو ملک سے باہر جانے کی صرف ایک مرتبہ اجازت ملی۔

حکومت کا اس شخص سے خوف زدہ ہونے کا اندازہ لگائیے کہ انھیں کینسر کے علاج کے لیے برطانیہ اور امریکا جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ 2006 میں صرف ایک بار، صرف ایک بار یہ جابرانہ پابندی ہٹائی گئی اور وہ بھی فریضہ حج سرانجام دینے کے لیے۔ اس مرد مجاہد نے 2005 میں اپنی بیٹی کے پاس سعودی عرب جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ پاسپورٹ نیا بننا تھا۔ مگر وہ بن نہ سکا۔ اس لیے کہ اس عظیم شخص نے قومیت کے خانے میں کچھ نہیں لکھا تھا۔ دراصل وہ اپنے آپ کو صرف اور صرف ایک آزاد ریاست یعنی کشمیر کا شہری سمجھتے تھے۔ مقبوضہ کشمیر جو بھارتی افواج کے زیر تسلط تھا، اسے کسی بھی طرح کی اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔ سید صاحب بڑھتے ہوئے کینسر کے علاج کے لیے صرف بمبئی جا سکے۔

ان گنت مقدمات، جیل، قید و بند کی صعوبتیں گیلانی صاحب کے نظریہ کے سامنے ہیچ رہیں۔ اکیس اکتوبر2010کو سید صاحب اور ارون دتا رائے نے دہلی میں کشمیر کی آزادی پر ایک زبردست سیمینار کیا۔ جس میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔ ہندوستان کے فہمیدہ طبقے نے بھی سید صاحب کے اصولی موقف کو تسلیم کیا۔ مگر اس کی سزا انھیں سنگین ترین مقامات کے درج ہونے کی صورت میں ملی۔ جب بھارتی حکومت کا خوف ازحد بڑھ گیا۔ تو 2010 سے 2021تک سید صاحب کو گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔ مگر اب سید صاحب کا قلم تھا جو پوری دنیا میں سر چڑھ کر بول رہا تھا۔

روداد ِقفس، نوائے حریت، دید وشنید، بھارت کے استعماری حربے، صدائے درد اور ان گنت کتابوں اور تحریروں نے گیلانی صاحب کو ہر طور پر زندہ رکھا۔ گھر کی نظر بندی بھی کچھ نہ کر پائی۔ آج سے ٹھیک دو دن پہلے سید علی گیلانی صاحب خالق حقیقی سے جا ملے۔ حیدر پورہ میں واقع ان کے گھر پر جس وقت عزیز و اقارب، کفن دفن کا انتظام کر رہے تھے۔ تو اچانک بھارتی فوج نے گھر پر حملہ کر دیا۔ زبردستی لاش کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ لواحقین نے بتایا کہ سید صاحب کی وصیت تھی کہ جسد خاکی کو" شہدا کے قبرستان" میں دفن کیا جائے۔

مگر بھارتی فوج کے اندر، بے جان انسان کا خوف دیکھیں کہ انھوں نے بزور بربریت لاش کو اپنے قبضے میں کر لیا۔ علی گیلانی کی وصیت پر بھی عمل کرنے سے انکار کر دیا۔ خاندان کو آخری رسومات کرنے سے بھی منع کر دیا گیا۔ علی گیلانی کے لیے عوامی جنازہ کرنے کو بھی ممنوع قرار دیا گیا۔ مودی سرکار کو علم تھا کہ اگر سید صاحب کا جنازہ منعقد کیا گیا۔ تو ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں فرزندان توحید، آزادی کی اس شمع کی آخری رسومات میں شرکت کریں گے۔ شاید یہ تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ بن جائے۔ اس تعصب کو سامنے رکھتے ہوئے مودی سرکار نے ہر وہ قدم اٹھایا جن کی کوئی قانون یا مذہب اجازت نہیں دیتا۔ لاش پر قبضے کے بعد، سید صاحب کو کڑے فوجی پہرے میں حیدر پورہ کے قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔ خاندان کے صرف چنداحباب کو نماز جنازہ میں شرکت کی اجازت دی گئی۔

یہ ظلم بھی رات کے اندھیرے میں کیا گیا۔ سید صاحب پاکستانی جھنڈے میں مدفون ہوئے۔ ان کا چہرہ دیکھنے کی اجازت تمام قریبی عزیزوں تک کو نہیں دی گئی۔ پوری وادی کو اس موت کے بعد فوجی چھاؤنی میں تبدیل کر دیا گیا۔ ہر چوک پر بھاری اسلحے سے مزین فوجی تعینات کر دیے گئے۔ بھارتی فوج اور انتظامیہ سید صاحب کے جسد خاکی سے اس قدر خوف زدہ تھی کہ انھوں نے شہریوں کو کسی بھی قیمت پر باہر نہیں نکلنے دیا۔

سید علی گیلانی کا عزم، اس درجہ مضبوط تھا کہ پوری بھارتی سرکار اور فوج، مرنے کے بعد بھی سہمی ہوئی تھی۔ رات کے اندھیرے میں سید صاحب کو دفن کرنے کے بعد، شاید مودی سرکار سمجھتی ہے کہ آزادی کا یہ سفر ختم ہو گیا۔ نہیں صاحبان، ہرگز نہیں، یہ سفر تو اب مزید قوت سے آگے بڑھے گا۔ اس کو کوئی بھی طاقت روک نہیں پائے گی۔

کشمیر کی آزادی اب صرف تھوڑی دیر کی بات ہے۔ یہ جنگ اب سید صاحب کی قبر سے لڑی جائے گی۔ عجیب سی حقیقت یہ بھی ہے کہ جس طرح ٹیپو سلطان شہید کی لاش سے فرنگی خوف کھا رہے تھے۔ بالکل اسی طرح مودی کی بزدل فوج، جناب سید گیلانی کے جسد خاکی سے کانپ رہی تھی۔ یہ ہیبت دونوں شہدا کی نعشوں سے یکساں تھی۔ بھارت کو یہ بزدلی بہت مہنگی پڑے گی۔ دراصل سید علی گیلانی، 2021کے ٹیپو سلطان تھے! عزم و ہمت کے ایستادہ پہاڑ! جسے مسخر کرنا ناممکن ہے!