لندن میں اس ہفتے متعدد افراد سے بات ہوئی۔ ہر ایک سے مہنگائی اور اس کے اثرات کے متعلق پوچھتا رہا۔ ایک ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ یہاں قیامت خیز مہنگائی ہو چکی ہے۔ ان کے پاس قیمتی ترین گاڑی رولز رائس ہے۔ پٹرول پمپ گئے تو پٹرول عدم دستیاب تھا۔ لمبی لائنیں لگی ہوئی تھیں۔ گھبرا کر دوسرے پٹرول پمپ پر گئے تو یہی حالات تھے۔
بڑی مشکل سے گاڑی کے لیے پٹرول ملا۔ لندن کی بات کر رہا ہوں۔ کئی دوسرے احباب نے فرمایا کہ گزشتہ ایک ڈیڑھ برس میں اشیاء خورونوش اور ضروریات زندگی بے حد مہنگی ہو چکی ہیں۔ عام طبقہ کے لیے زندگی گزارنا مشکل سے مشکل تر ہو چکا ہے۔ توجہ سے ان لوگوں کی باتیں سنتا رہا۔ شروع شروع میں خیال تھا کہ ہو سکتا ہے کہ چند لوگ مبالغہ آرائی سے کام لے رہے ہوں۔ مگر ان گنت لوگوں نے تقریباً ایک جیسا معاملہ ہی بتایا۔ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ یو کے ایک فلاحی ریاست ہے۔ اور وہاں حکومت انتہائی تدبیر اور قانونی سختی سے روزمرہ کی اشیاء کو کنٹرول میں رکھتی ہے۔
تعجب بھی ہوا کہ لندن میں تو ہماری طرح کی نحیف بلکہ لاغر حکومتیں تو نہیں ہوتیں۔ پھر یہ سب کچھ کس طرح ہوا۔ لہٰذا خود تحقیق کرنی شروع کر دی۔ معلوم ہوا کہ گزشتہ بارہ ماہ میں یوکے میں مہنگائی تین فیصد سے زیادہ بڑھی۔ متعدد وجوہات لکھی ہوئی تھیں۔ سب سے مدلل وجہ کووڈ تھی جس کے درمیان سپلائی کے بروقت معاملات پر کافی ضرب پڑی۔ بی بی سی کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پورے یوکے میں اوسط آدمی کی قوت خرید میں کافی کمی واقع ہوئی ہے۔
مہنگائی کے اوسط تناسب کو ہندوستان میں دیکھیئے تو یہ تقریباً چھ فیصد بڑھی ہے۔ وہاں بھی عام اور متوسط طبقے کے لیے مشکلات حد درجہ بڑھ گئی ہیں۔ مگر جب اسی پیمانے پر پاکستان کی طرف دیکھتا ہوں تو مہنگائی کے معاملات حد درجہ مختلف نظر آتے ہیں۔ 2020 میں مہنگائی بڑھنے کا تناسب گیارہ فیصد تھا۔ اور 2021 میں یہی تناسب تقریباً نو فیصد ہے۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ مہنگائی تو ہر ملک میں ہوئی ہے۔ مگر پاکستان میں اس کا تناسب اتنا زیادہ کیوں ہے۔ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب عمومی طور پر حکومتی سیاسی ترجمان دینے سے اجتناب کرتے ہیں۔ اس امر سے تو کوئی گریز نہیں کہ مہنگائی پوری دنیا میں خوفناک طریقے سے بڑھی ہے۔ مگر پاکستان میں دنیا کے ہر ملک سے زیادہ بڑھنے کی کوئی نہ کوئی وجہ تو سمجھ میں آنی چاہیے۔ کووڈ تو پوری دنیا کی معیشت کو کھا چکا ہے۔ مگر ہم اس میں زیادہ بری طرح کیوں متاثر ہوئے ہیں۔
دلیل کی بنیاد پر چند نکات پیش کرتا ہوں۔ سب سے پہلی بات کہ مہنگائی کو ایک خاص حد تک رکھنے کا حکومتی نظام موثر طریقے سے موجود نہیں ہے۔ 1947 سے لے کر 1993 تک ضلعی انتظامیہ کے پاس مجسٹریسی کا ایک پورا نظام موجود تھا۔ ہر مجسٹریٹ کو مختلف پولیس تھانے کی حدود مختص کی جاتی تھیں۔ جہاں افسر کم ہوتے تھے، وہاں مجسٹریٹ کی ذمے داری بھی بڑھا دی جاتی تھی۔ مجسٹریٹ کی سرکاری ذمے داری ہوتی تھی کہ وہ اپنی معین کردہ حدود میں اشیاء خورونوش کی قیمتوں، ان کی ترسیل اور ضلعی انتظامیہ کے مقرر کردہ نرخوں پر چیزوں کی فروخت کو لازم بنائے۔
جو دکاندار معمولی سی بھی غلطی کرتے تھے۔ انھیں جرمانہ کیا جاتا تھا۔ اور کئی بار پرچہ دے کر پابند سلاسل کر دیا جاتا تھا۔ گران فروشی تو ایک طرف۔ اگر ذخیرہ اندوزی کی شکایت ملتی تو فوراً انتظامی طریقہ سے ذخیرہ اندوز کے خلاف قانون حرکت میں آتا ہے۔ جعلی اور ملاوٹ زدہ اشیاء بیچنے پر بھی حد درجہ سختی کی جاتی تھی۔ پھر ایسے ہوا کہ محترمہ بے نظیر صاحبہ کے دور میں ایک حکم نامہ جاری ہوا۔ انتظامیہ کے تمام اختیارات چھین کر عدلیہ کو دے دیے گئے۔
اصول یہ طے کیا گیا کہ جوڈیشل اختیارات کسی بھی صورت میں ضلعی انتظامیہ کے پاس نہیں ہونے چاہیں۔ دیکھنے اور سننے میں تو یہ بہت بہتر لگتا ہے۔ مگر اس سے نچلی سطح پر انتظامی معاملات کج روی کا شکار ہو گئے۔ عدلیہ کے جج صاحبان ہر گز ہرگز اپنے دفتروں سے نکل کر اشیاء خورونوش کو چیک کرنے میں راضی نہیں تھے۔ اس کے بعد پرویز مشرف نے جنرل (ر) نقوی کے کہنے پر ضلعی انتظامیہ کا صدیوں پرانا ڈھانچہ ہی برباد کر دیا۔ ڈی سی کی انتظامی پوسٹ ہی ختم کر دی۔ اس کے پاس صرف ضلع کی ڈویلپمنٹ دی گئی۔
یعنی بازار میں قیمتوں کو خاص حد تک رکھنے کا نظام مکمل طورپر ختم کر دیا گیا۔ پرویز مشرف کے بعد آنے والی حکومتوں نے کچھ ہاتھ پیر مارے۔ مگر اب یہ معاملہ حکومت کے ہاتھ سے نکل کر عدلیہ کی دہلیز پر آن بیٹھا تھا۔ قیمتوں کو حکومتی طاقت سے کنٹرول کرنے کا موثر نظام نہ کوئی ماضی کی سیاسی حکومت بنا پائی اور نہ ہی موجودہ حکومت کو اس کی فکر ہے۔ خود فیصلہ کیجیے کہ طاقتور حکومتی نظام کے بغیر قیمتوں کو کیسے کنٹرول میں رکھا جا سکتا ہے۔
ہندوستان اور بنگلہ دیش کے پاس بھی وہی نظام تھا جو ہمارے پاس موجود تھا۔ مگر انھوں نے ضلعی انتظامیہ کو مفلوج کرنے کے لیے کسی قسم کی کوئی حرکت نہیں کی۔ وہاں اتنی انتظامی فراست موجود تھی کہ سیاست دانوں نے انتظامی امور میں چھیڑ خانی نہیں کی۔ یعنی ہماری حرکتوں سے بالکل برعکس ہندوستان نے انتظامیہ کو فعال اور مضبوط کیا۔ نتائج آپ کے سامنے ہیں۔ وہاں انتہائی موثر طریقے سے مہنگائی پر قابو پا لیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے یہ سکے کا ایک رخ ہے۔ دوسرا رخ ہماری حد تک حد درجہ تکلیف دہ ہے۔ ہمارا تجارتی طبقہ مادر پدر آزاد ہے۔ منافع کی کوئی شرح مقرر ہی نہیں ہے۔
لالچ کو حکومت نے کو سپلائی اینڈ ڈیمانڈکا شاخسانہ بنا دیا گیا ہے۔ نتیجہ یہ کہ تاجر طبقہ حکومت کی کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں۔ ایک ہی شہرمیں مختلف مقامات پرایک جیسی اشیاء ضرورت کی قیمتیں حد درجہ مختلف ہیں۔ منڈی اور ریٹیل کی قیمتوں میں بھی زمین آسمان کا فرق ہے۔
کوئی ایسی حکومتی طاقت نہیں جوکہ اس غیر مناسب تناسب کو درست کرنے کی کوشش کرے۔ اگر منڈی میں ایک چیز سو روپے کی ہے تو ریٹیل پر وہی چیز سات سو یا ہزار کی بک رہی ہے۔ یقین نہیں آتا تو آپ خود فروٹ، سبزی یا دیگر غذائی منڈیوں میں چیک فرما لیجیے۔ موجودہ حکومت میں یہ معاملہ اور بھی گھمبیر ہو چکا ہے۔ پنجاب جیسے بڑے صوبے کو مرکز سے چلانے کی ناکام کوشش ہو رہی ہے۔ ہر اہم ٹرانسفر پوسٹنگ کا منبع وزیراعظم آفس یا ان کے حواری ہیں۔ ہر افسر کی یہ کوشش ہے کہ وہ اسلام آباد میں اہم لوگوں کو خوش رکھے۔ مہنگائی، لوٹ مار، لا اینڈ آرڈر کو محنت سے کنٹرول کرنے کا چلن بس اب واجبی سا رہ گیا ہے۔
ہاں ایک اور چیز بھی اہم ہے۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ مختلف مافیاز، حکومتی شخصیات سے مل کر اپنا الو سیدھا کرتی تھیں۔ اب معاملہ بدقسمتی بلکہ بدنصیبی سے الٹا ہو چکا ہے۔ اب مافیاز بذات خود حکومت ہیں۔ مثال سامنے پیش کرتا ہوں۔ یوریا کھاد کی ایک بوری2018 میں تین ہزار روپے میں ہر جگہ دستیاب تھی۔ آج یہی بوری چھ سے سات ہزار کی فروخت ہو رہی ہے۔ یہ کھاد کے کارخانے کس کے ہیں۔ یقیناً کسی بڑے آدمی کے۔ کیا وزیراعظم اتنی جرأت رکھتے ہیں کہ اس کو بلا کر حکم دیں کہ آپ کا کارخانہ اتنی مہنگی کھاد کیوں بنا رہا ہے۔
گمان ہے کہ خان صاحب کو اس نازک معاملے کا ادراک ہی نہیں ہے۔ اور نہ ہی کوئی دلچسپی ہے۔ چینی بنانے والے کارخانے بھی جید سیاست دانوں کے ہیں۔ کیا حکومت نے لوگوں کو سستی چینی دینے کے لیے ان مل مالکان کے ساتھ دیرپا سخت رویہ رکھا۔ کچھ دن کی جعلی ڈانٹ اور اس کے بعد معاملہ جوں کا توں۔ بالکل اسی طرح آٹا، گھی اور دیگر اشیاء کے کارخانے اب بذات خود حکومت کے ہیں۔
ان پر کسی قسم کا سرکاری عملی کنٹرول نہیں۔ رہی سہی کسر، مصر سے درآمد کیے گئے، اسٹیٹ بینک کے گورنر نے پوری کر دی ہے۔ انھوں نے نقصانات کو زیر غور رکھے بغیر کرنسی کو اتنا ادنیٰ کر دیا ہے کہ خدا کی پناہ۔ اور پھر برآمدات، ہرگز ہرگز، کرنسی ویلیو کم کرنے کے حساب سے نہیں بڑھیں۔ یعنی پاکستانی روپیہ اگر ساٹھ فیصد گرا ہے۔ تو برآمدات میں قطعاً اتنا اضافہ نہیں ہوا۔ معاشی ماہرین اپنی ناکارہ حکمت عملی سے پاکستان کا وہی حشر کر رہے ہیں جو انھوں نے مصر کا کیا تھا۔
خان صاحب کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ مہنگائی پر کنٹرول کرنے کے لیے ہر وقت کام کرتے رہتے ہیں۔ مگر مہنگائی کی بنیاد تک جا کر اسے کم کرنا، ان کی ٹیم کی استطاعت سے باہر نظر آتا ہے۔ اور اب ان کے پاس وقت ہی کتنا رہ گیا ہے۔ چوبیس ماہ، اس میں تو کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل کرنا ناممکن نظر آ رہا ہے۔ اگلا الیکشن صرف اور صرف مہنگائی کی بنیاد پر ہو گا۔
باورچی خانہ میں کام کرنے والی ہماری مائیں، بہنیں، بیٹیاں آنے والے چناؤ میں کلیدی کردار ادا کریں گی۔ مہنگائی کو جتنا خواتین سمجھ سکتی ہیں۔ وہ وزیراعظم اور ان کی ٹیم بالکل نہیں جان سکتی۔ قیامت یہ بھی ہے کہ وزیرخزانہ صرف آدھا سچ بتاتے ہیں کہ پوری دنیا میں مہنگائی ہے۔ مگر دوسرا حصہ نہیں بتاتے کہ ہمارے ملک کے پاس مہنگائی کنٹرول کرنے کا موثر نظام موجود نہیں ہے۔ یہ ادھورا سچ آنے والے الیکشن میں تحریک انصاف کے لیے کوہ ہمالیہ سے قدآورمشکلات کھڑی کر دے گا۔