Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Aik Yahoodi Se Mukalama

Aik Yahoodi Se Mukalama

چندبرس پہلے پیرس جانے کااتفاق ہوا۔ شہر کے اندرونی دریامیں چلنے والی ایک درمیانے سائز کی کشتی میں سوارہوگیا۔ مقصد تھا کہ پیرس کی مشہور ترین تاریخی عمارتوں کوکم ازکم وقت میں دیکھا جاسکے۔

کشتی کے باہرریلنگ کے ساتھ کھڑا تھاکہ ایک بوڑھا آدمی میرے پاس آیا۔ پوچھا، کس ملک سے آئے ہو۔ جواب دیاکہ پاکستان سے۔ بزرگ شخص نے مسکراکرکہاکہ مجھے یقین تھا کہ تم پاکستان سے آئے ہو۔ اس کانام ایلجا (Elijah) تھا اورپچھتربرس کا تھا۔ دیکھنے میں ساٹھ سال کامعلوم ہوتاتھا۔ پوچھاکہ" آپکوکیسے معلوم ہواکہ پاکستان سے آیا ہوں۔" جواب بہت دلچسپ تھا۔"کپڑوں کے رنگ اور جوتوں سے۔ پاکستانی اورہندوستانیوں کی شکلیں ملتی جلتی ہیں۔ مگرکچھ چیزیں مختلف ہیں۔

ایک توپاکستانی جو کپڑے پہنتے ہیں ان کے رنگ بہت بہترہوتے ہیں۔ وہ کوشش کرتے ہیں کہ اگرنیلی ٹی شرٹ پہن رکھی ہے، تو پینٹ بھی اس سے ملتے جلتے رنگ کی ہو۔ کبھی نیلی شرٹ کے ساتھ سرخ پتلون نہیں پہنیں گے۔ اسی طرح، ان کے جوتے بہت بہتر ہوتے ہیں۔ یہ دوفرق ایسے ہیں، جسکی بدولت ہندوستان سے تعلق رکھنے والے انسان اورآپ لوگ فوراًپہچانے جاتے ہیں۔ ہندوستان کے لوگوں کے کپڑوں میں رنگ کا توازن کافی کم ہوتا ہے اوروہ جوتوں کے معیارپرکبھی غورنہیں کرتے"۔

ایلجاکی باتیں بہت دلچسپ تھیں۔ کشتی کا سفر چالیس منٹ میں ختم ہوگیا۔ ایلجا کوکہاکہ چلیے کافی اکٹھے پیتے ہیں۔ ایک چھوٹی سی کافی شاپ میں بیٹھ گئے۔ ایلجا پرائمری اسکول کاٹیچرتھا، ریٹائر ہوئے طویل عرصہ ہوچکا تھا۔ امریکی ریاست، نیوہمشائر میں رہتاتھا۔ پوری عمر نیویارک میں رہا، مگر پھر یکسر مختلف جگہ پرمنتقل ہوگیا۔ میرے چہرے پرسوالیہ نشان دیکھ کرکہنے لگا کہ نیوہمشائر اس لیے چلاگیاکہ یہاں چوراسی فیصد درخت ہیں۔ مجھے جنگلات اورقدرتی زندگی سے عشق ہے۔ وہاں میں ایک جنگل میں جانوروں کے لیے فری چارہ اُگاتاہوں۔

ہرن اور اس طرح کے بہت سے جانور اس چارے کو کھاتے ہیں، میں ہر سال، تقریباً دوسے تین بار ٹریکٹرکرائے پرلیتا ہوں۔ دوچار دیہاڑی دارمزدورلیتاہوں۔ کسی بھی خالی جگہ پرقدرتی جانوروں کے لیے چارہ کاشت کرتا ہوں۔ ایلجا کہنے لگاکہ تقریباً پچاس کے قریب ملکوں میں سیاحت کرچکا ہوں۔ پاکستان بھی آیاہوں۔ وہ کراچی، لاہوراوراسلام آباد میں دوتین ماہ کے لگ بھگ رہ چکاتھا۔ سوال کیاکہ آپکومیرا ملک کیسا لگا۔ ایلجا مکمل خاموش ہوگیا۔ کہنے لگاکہ اس نے اپنے ہوٹل واپس پہنچناہے۔ لہٰذا پھرکبھی بات ہوگی۔

ایلجا اورمیں، فیس بُک پردوست بن گئے۔ چند ماہ پہلے، اس نے فون پرکہا، کہ پیرس کی کافی شاپ میں تم نے ایک سوال کیاتھااورمیں بہانہ بناکرنکل گیا تھا۔ اس کا جواب ای میل اورٹیلیفون پر دونگا۔ تین دن بعد، ایلجا کا ایک طویل ای میل آئی اورتقریباًپورے ایک ہفتہ، دس بارہ ای میل آئیں۔ اسے پاکستان کی زندگی کا بھرپور ادراک تھا۔ ای میلزاورفون کالبِ لباب عرض کرنا چاہونگا۔ پاکستان ایک بہترین ملک ہے۔ اس کے لوگ حددرجہ ملنسار اورخوشگوارطبیعت کے مالک ہیں۔ مگر چند ایسی باتیں گھڑی گئی ہیں، جن سے تمہاری قوم کا چھٹکارا پانا ناممکن ہے۔

یہ اجتماعی جھوٹ ہیں، جنھیں سچ بنا کر لوگوں کے سامنے پیش کیاگیاہے۔ تمام دنیاحقیقت کو جانتی ہے اس لیے دنیامیں تمہارے ملک کاوقار کم ہے۔ میں، من وعن تووہ باتیں نہیں لکھ سکتا جو ایلجا نے ای میل میں لکھی تھیں۔ مگرچندنکات بہرحال درج کیے جا سکتے ہیں۔ ایلجا کہتاہے کہ یہ ملک حددرجہ محنتی غریب لوگوں نے امیرلوگوں کے لیے بنایا تھا۔ کہنے لگاکہ آپ کے ملک کا غریب شخص محنت مزدوری کرتاہے۔ بچوں کا پیٹ پالتا ہے۔ مگر اس کی کوئی بھی ضرورت آپ کانظام پوری نہیں کرتا۔ بیمارہوکر سرکاری اسپتال جاتاہے تواسے اچھے طریقے سے دیکھا نہیں جاتا۔

جعلی دوائی اس کا مقدر ہوتی ہیں۔ ڈاکٹروں اورڈسپنسروں کی ڈانٹ اس لیے برداشت کرتا ہے کہ پرائیویٹ علاج کروانے کی مالی استطاعت نہیں رکھتا۔ طویل انتظارکے بعد سرکاری ڈاکٹرکے پاس پہنچ بھی جائے، تواسے درست طریقے سے دیکھا نہیں جاتا۔ مگر یہ بات تو میرے علم میں تھی۔ یہ تومیں بذاتِ خودکئی بارلکھ چکا ہوں۔

ایلجا نے ہنستے ہوئے کہاکہ تمہارا امیر آدمی سرکاری اسپتال میں جانااپنی بے عزتی سمجھتاہے۔ کافی پیسے دیکر اپنامہنگاترین علاج کرواتاہے۔ بہت سے لوگ علاج کے لیے یورپ اورامریکا بھی آتے ہیں۔ مگر اپنے مقامی سرکاری اسپتالوں سے دور رہتے ہیں۔ تمہارے ملک کاغریب آدمی کبھی سڑک پرنہیں نکلتاکہ اس کے بچوں اوراہل خانہ کو بھی معیاری طبی سہولتیں مہیاکی جائیں۔

احتجاج کرنے کی جرات ہی نہیں رکھ سکتاکیونکہ تمہاراملکی نظام صرف اورصرف امیراورطاقتورانسان کے لیے تشکیل دیا گیا۔ کیا کسی بھی شہرمیں غریب لوگوں نے جلوس نکالے ہیں کہ انھیں معیاری تعلیم کی سہولت دی جائے۔ کیاتمہارے ملک میں کوئی اہم شخص، وہ پانی پیتاہے جوغریب لوگ لائنوں میں لگ کر سرکاری نلکوں سے حاصل کرتے ہیں۔ یہ ملک صرف چندلاکھ لوگوں کے لیے مختص ہے۔ باقی تمام غلام کی حیثیت رکھتے ہیں۔

ایلجا کی چندباتیں بہت پُرتاثیرتھیں۔ بتانے لگا کہ لاہورآیا، توبتایاگیاکہ بادشاہی مسجد ضرور دیکھنا۔ وہاں گیا، تو کہا گیاکہ جوتے اُتارکر حفاظت کے لیے وہاں بیٹھے ہوئے ایک شخص کے حوالے کردو۔ وہ ایک ٹوکن دیگا۔ واپسی پر کچھ پیسے دیکرجوتے واپس لینے ہونگے۔ بادشاہی مسجدواقعی حددرجہ خوبصورت اور شاندار تھی۔ واپسی پرصرف یہ سوچ رہاتھاکہ جوتوں کی حفاظت اتنی کیوں کی جاتی ہے۔

ٹیکسی ڈرائیورنے بتایا کہ مساجد سے بعض اوقات چپلیں اورجوتے چوری ہوجاتے ہیں۔ لہٰذاانکی حفاظت کاایک طریقہ ترتیب دیاگیاہے۔ سمجھ نہیں آیاکہ ایک مقدس جگہ پرجاتے ہوئے کون بدبخت ایساہوگا، جودوسروں کی ذاتی چیزیں چوری کر لے۔ ہوٹل آکرکئی لوگوں سے پوچھاتوانھوں نے اس بات کی تصدیق کی۔ یہ سب سنکربہت دکھ ہوا۔ کہ یہ سب کچھ کیا ہے۔

ایلجا کہنے لگا کہ کراچی میں رکشہ میں سوارہوکرسمندرکی طرف جارہاتھا۔ راستے میں دو جگہ پولیس والوں نے روکا۔ پوچھاکہ میں کون ہوں۔ کہاں سے آیاہوں۔ پھر رکشہ ڈرائیور کوایک طرف لیجاکرکہنے لگے کہ اس گورے سے کچھ پیسے تولے دو۔ ڈرائیورنے مجھے کہا، کہ یہ پولیس والے پیسہ مانگ رہے ہیں۔ مجھے بہت غصہ آیا کہ کس چیزکے پیسے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بھی دیکھاکہ پولیس والے ہرٹیکسی اوررکشے والے کو ایک طرف لیجا کر اس سے پیسے وصول کر رہے ہیں۔

پہلے گمان ہواکہ یہ کوئی مقامی ٹیکس ہے۔ مگر ڈرائیورنے بتایاکہ یہ تو رشوت ہے۔ پوری دنیاگھوم چکاہوں۔ مگر اتنی ڈھٹائی سے پیسے مانگتے ہوئے کسی جگہ پرنہیں دیکھ پایا۔ پولیس والوں نے امریکی جان کربخش دیا۔ مگر رکشہ ڈرائیور سے چندروپے ضرور ہتھیالیے۔ کراچی میں ہرطرف کوڑاکرکٹ کے ڈھیرنظرآئے۔ کوئی شخص ٹریفک کے قوانین کی پرواہ نہیں کر رہا تھا۔ یہی حالت لاہوراور اسلام آبادمیں تھی۔ حددرجہ غم ہواکہ اس قدر قانون شکنی، خداکی پناہ۔ ہاں، بڑی گاڑی کوپاکستان میں کوئی نہیں روکتا، کیونکہ اس میں کوئی طاقتورآدمی موجود ہوسکتا ہے۔

ایلجا نے ایک بات بڑے دکھ سے بتائی۔ اسلام آبادمیں کسی پاکستانی واقف نے اس کی دعوت کی۔ دس بارہ مقامی لوگ مدعو تھے۔ وہاں مشروب صحت کی فراوانی تھی۔ سب پی پلا رہے تھے۔ ایلجا نے میزبان سے پوچھا، مسلمانوں کے لیے شراب ممنوع ہے۔ ایلجا کا ہاتھ پکڑ کر کہا، برادر، یہ ہم لوگوں کا پاکستان ہے۔ امریکا اور یورپ کے متعلق کہنے لگا کہ وہاں اس طرح کی دو عملی بہت کم ہے۔

دودن پہلے بات ہوئی تو ایلجا، فلسطین اور اسرائیل کی جنگ کے متعلق بہت فکرمندتھا۔ اس کی ہمدردیاں فلسطینی عوام کے لیے تھیں، کہہ رہاتھاکہ اسرائیل کوکوئی حق نہیں پہنچتاکہ نہتے شہریوں کوقتل کرے۔ عمارتوں کوزمین بوس کردے۔ اسپتالوں کوبرباد کرے۔ اس کی آوازمیں بہت تلخی تھی۔ کہہ رہاتھاکہ امریکا میں اس کے شہرمیں مہم چلائی جارہی ہے کہ اسرائیلی مظالم کو بند کیا جائے۔ وہ خودایک چھوٹی سی ریلی میں شریک ہوکر آیا تھا۔ اس ریلی میں تمام مذاہب کے لوگ شامل تھے۔

ایلجا اس بات پربھی غصہ میں تھاکہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو مارنے کاکیاجواز ہے۔ کہتاتھاکہ طاقتور مسلمان ممالک تواس ظلم پر خاموش ہیں یا پھر صرف سیاست کر رہے ہیں۔ مگر اس کا آخری جملہ حد درجہ اہم تھا۔ ایلجا نے فون بندکرنے سے پہلے کہا، کہ وہ یہودی ہے اورتمام یہودی ظالم نہیں ہوتے۔ اس وقت سے اب تک سوچ رہاہوں کہ کیالکھوں؟