Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Apne Halaat Badliye

Apne Halaat Badliye

لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی سے ایم بی اے کیے ہوئے دو دوستوں نے ایک سیٹھ کے پاس نوکری شروع کی۔ تنخواہ کوئی تیس ہزار کے قریب تھی۔ سیٹھ ملک کے امیر ترین کاروباری لوگوں میں سے ایک تھا۔

کوئی تیس برس پہلے کی بات ہے۔ یہ پڑھے لکھے نوجوان بڑی محنت سے سیٹھ کی ملوں میں بنائی گئی مصنوعات کی مارکیٹنگ کرتے تھے۔ چار سال کام کرنے کے بعد دونوں نے فیصلہ کیا کہ کسی کے ہاتھوں اپنا ہنرسستے دام فروخت نہیں کرنا۔ بلکہ ذاتی کاروبار کرنا ہے۔ سرمایہ قلیل نہیں بلکہ تھا ہی نہیں۔ لاہور میں، مین بلوارڈ پر اوریگا سینٹر نام کا ایک تجارتی مرکز ہے۔ دونوں دوستوں نے یہاں صرف ایک کمرے کا دفتر لیا اور انتہائی چھوٹے پیمانے سے ٹیکسٹائل مشینری کی انڈینڈنگ شروع کر دی۔

کاروبار بالکل نہیں چلا۔ مگر اتنا ضرور ہوتا تھا کہ ماہوار انھیں معمولی سا منافع مل جاتا تھا۔ کمرے کا کرایہ اور بجلی کا بل بھی جیسے تیسے ادا کرنے کی گنجائش نکل آتی تھی۔ دو سال اسی کسمپرسی میں گزر گئے۔ کئی بار آپس میں جھگڑا ہوا کہ خوامخواہ سیٹھ کی نوکری چھوڑ دی۔ کم از کم تنخواہ تو ملتی تھی۔ مگر ہر بار حتمی فیصلہ یہی کیا کہ کسی کی نوکری نہیں کرنی۔ تیسرے سال انھیں بڑے آرڈر ملنے شروع ہو گئے۔ دس بارہ سال مزید محنت کرنے کے بعد یہ دونوں افراد اپنے پیروں پر کھڑے ہو گئے۔

اسی اثنا میں لاہور میں ایک ٹیکسٹائل مل دیوالیہ ہو کر نیلام ہو رہی تھی۔ بوسیدہ مشینری کی قیمت تیس لاکھ تھی۔ انھوں نے بولی میں مشینیں خرید لیں۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ خریدنے کے لیے چارپانچ لاکھ تو ان کے پاس تھے مگرباقی سرمایہ بالکل نہیں تھا۔ رشتے داروں، دوستوں کی منت سماجت کر کے جیسے تیسے پیسے پورے کیے۔ مشینری خرید لی۔ ٹھیک کیا اور کرائے کے گودام میں کپڑا بنانے کی لومیں لگا لیں۔ محنتی تھے۔ کام کے علاوہ کوئی شوق نہیں تھا۔

تھوڑے عرصے میں دھندا چل پڑا۔ چار پانچ برس میں دونوں لکھ پتی، پھر کروڑ پتی بن گئے۔ انھوں نے پیسہ ضایع نہیں کیا۔ جدید ترین ٹیکسٹائل کی مشینری خرید کر ایک نئی فیکٹری کھڑی کر دی۔ ایک سے دو اور پھر پانچ ملوں کے مالک بن گئے۔ حالیہ دنوں میں تولیے بنانے کی ایک مل لگائی اور سارا مال بیرون ملک ایکسپورٹ کرنا شروع کر دیا۔ میرے ایک قریبی دوست کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا۔ اب یہ لوگ حد درجہ خوشحال بلکہ رئیس ہیں۔ کاروبار ہر طریقے پھل پھول رہا ہے۔

یہ سچا واقعہ لاہور کا ہے۔ ان دونوں اشخاص کو بخوبی جانتا ہوں اور اکثر ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ میری آنکھوں کے سامنے انھوں نے مفلسی کے سفر سے کاروباری زندگی کا آغاز کیا۔ ہمت نہ ہاری، محنت بلکہ ریاضت کرتے رہے۔ اور آج یہ کاروباری دنیا کے نمایاں لوگ ہیں۔ آپ اپنے شہر، قصبے، ٹاؤن، یونین کونسل، گاؤں یا گلی میں چاروں اطراف نظر ڈالیے۔ کامیابی کی حیرت انگیز درخشاں مثالیں عام مل جائیں گی۔

لوگ بتائیں گے کہ آج سے بیس سال یا دس برس پہلے فلاں شخص معمولی سا کام کرتا تھا۔ مگر آج حد درجہ کامیاب اور امیر انسان ہے۔ آپ جہاں بھی رہتے ہیں۔ جس بھی قومیت سے تعلق رکھتے ہیں۔ اپنی طرز سے اردگرد کے چار کامیاب لوگوں کی فہرست بنائیے۔ اسے غور سے پڑھیے۔ ان کے نام حد درجہ مختلف ہوں گے۔ آپ کو ان میں بادی النظر میں کوئی بھی یکساں خصوصیت نظر نہیں آئے گی۔ پیشے بھی مختلف ہوں گے۔

کوئی پڑھا لکھا تو کوئی ان پڑھ۔ کوئی بس کے ہاکر سے ٹرانسپورٹ کا بادشاہ بنا ہو گا، توکوئی سائیکل پر کپڑا بیچتے بیچتے ٹیکسٹائل ملوں کا مالک بن گیا ہو گا۔ کوئی فروٹ کی ریڑھی لگاتے لگاتے پھلوں کا سب سے بڑا تاجر بن چکا ہو گا اور کوئی اسی طرح دھکے کھا کھا کر اپنے شعبے میں آگے نکلا ہو گا۔ مگر ایک عنصر ان تمام کامیاب لوگوں میں حیرت انگیز طور پریکساں ہو گا۔ یہ حد درجہ محنتی افراد ہوں گے۔ زمانے کی ٹھوکریں بھی آگے بڑھنے کے خواب کرچی کرچی کرنے میں ناکام رہی ہوں گی۔

انھیں دو چار سال یا پانچ دس برس بعدایک ایسا موقع ضرور ملا ہو گا۔ جس کو درست طریقے سے استعمال کر کے یہ کامیابی کی شاہراہ پر سرپٹ دوڑنے لگے ہونگے۔ ان کی محنت کا پسینہ، اب دولت میں بدلتا نظر آئے گا۔ پھر یہی لوگ دوسروں کے لیے مثال بن جاتے ہیں۔ یہ تمام افراد ہمارے اپنے ملک کے ہی شہری ہیں۔ اور ان کے لیے خراب حالات اتنے ہی تھے جتنے تمام لوگوں کے لیے۔ مگر ایک فرق ہے۔ ہمت، جدوجہد، محنت اور راستے نکالنے کا فن ان تمام میں برابر موجود ہو گا۔

سب کچھ لکھنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ اس لیے کہ پنتالیس برس پہلے کے ایک اخبار کا فرنٹ پیج پڑھنے کا موقع ملا۔ سرورق پر اس وقت کے صدر اور وزیراعظم کی تصاویر تھیں۔ مگر خبریں حیرت انگیز طور پر آج جیسی ہی تھیں۔ جیسے چینی، پٹرول، کھاد کی قیمتوں میں ناقابل برداشت اضافہ کی خبریں۔ ہڑتالیں، دنگا فساد، علاقائی بدامنی کی دلخراش داستانیں۔ قتل و غارت کے ان گنت واقعات۔ حکومت کے مکمل ناکام ہونے کی خبریں اور اپوزیشن کا واویلا۔ یقین فرمائیے۔

صرف تاریخ اور سال تبدیل کر دیں۔ پہچان نہیں سکتے۔ ایسے لگتا ہے کہ یہ تو آج کا اخبار ہے۔ مگر نہیں یہ دہائیوں پہلے کا خبرنامہ ہو گا۔ اس سے کیا مطلب نکلتا ہے۔ یا آپ اس سے کیا نتیجہ نکالتے ہیں۔ صرف یہ کہ جب سے ملک قائم ہوا ہے مسائل در مسائل بدستور برہنہ رقص کرتے رہے ہیں۔ کبھی جمہوریت ناکام ہوتی ہے تو کبھی غیر جمہوری حکومتوں کو خاک چاٹنی پڑتی ہے۔ مگر مسائل نام بدل بدل کر جوں کے توں ہی رہتے ہیں۔

اب عام نوجوان یا خاتون کیا کرے۔ ایک راستہ تو یہ ہے کہ سارا دن حالات کو کوستے رہیں۔ مگرچند فیصد لوگ ان دگر گوں حالات میں، اپنا منفرد راستہ بنانے میں خاموشی سے مصروف کار ہوں گے۔ اگر آج کوئی ایک چھوٹا سا کریانہ اسٹور چلا رہا ہے۔ تو ایک ڈیڑھ دہائی میں اس کا سپر اسٹور ضرور ہو گا۔ ضروری نہیں کہ یہ تمام خواب سنہری ہو جائیں۔ ان میں سے کچھ ناکام بھی ہوں گے۔ مگر کچھ عرصے بعد اکثریت کامیاب بزنس مین ہوں گے۔ وجہ صرف ایک۔ اپنے اپنے شعبے میں کامیاب ہونے کی انتھک دھن۔

ملک کی ستر برس کی سیاسی تاریخ کو غور سے پرکھیے۔ سیاست دان اور سربراہان، صرف ایک کام کرتے نظر آئیں گے۔ تمام قائدین آپ کو خواب بیچتے نظر آئیں گے۔ کوئی امن ہو جانے پر آپ کو ذاتی ترقی کی نوید سناتا محسوس ہو گا۔ تو کوئی ایک کروڑ نوکریوں کا سنہری خواب فروخت کرتا نظر آئے گا۔ یہ تمام سیاستدان اور طالع آزما بخوبی جانتے ہیں کہ یہ کسی نوجوان کو اچھا مستقبل نہیں دے سکتے۔ ہاں۔ ان کے اپنے بچے قلیل عرصے میں کھرب پتی ہو جاتے ہیں۔ مگرعوام کے لیے ان کے نعرے اور دلاسے، صرف اور صرف الفاظ اور نقش برآب ہی ثابت ہوتے ہیں۔ اس صورت حال میں آپ کو کیا کرنا چاہیے۔

صرف ایک فیصلہ۔ اور یقین مانیے یہ سب کچھ تبدیل کر دے گا۔ صرف یہ کہ آپ کوئی چھوٹے سے چھوٹا ذاتی کام شروع کر دیں۔ کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ پڑھے لکھے ہیں یا بالکل انگوٹھا چھاپ۔ تعلیم کا رزق سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر ہوتا تو پی ایچ ڈی کیے ہوئے قابل ترین لوگ، ان پڑھ سیٹھوں کی ملازمت نہ کر رہے ہوتے۔ کوئی شرم محسوس نہ کریں۔ ہمت کریں اور معمولی سا کام شروع کر دیں۔ کوئی بھی کام اور پھر پیچھے پلٹ کر نہ دیکھیں۔ محنت کریں، محنت کا پھل دیکھ کر آپ ششدر رہ جائیں گے۔

جہاں تک ملکی حالات کا تعلق ہے یہ دگر گوں تھے اور اسی طرح رہیں گے۔ ان کو بہتر بنانا آپ کے بس میں نہیں ہے۔ ہاں۔ اپنا ذاتی مستقبل بنانے کا حق آپ کو ہر طریقہ سے حاصل ہے۔ سو دیر نہ کیجیے۔ ہاں، جہاں تک حالات کی خرابی کا درد ہے۔ تو اس کے لیے تمام ٹی وی چینلز، اکثریت لکھاری، دانشور، محقق گریہ کرتے نظر آئیں گے۔ انھیں ماتم کرنے دیجیے۔ آپ اپنے حالات ٹھیک کرنے کی کوشش کریں۔ ملک کے حالات تو ایسے ہی رہیں گے۔