Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Asal Qabristan To Dil Hota Hai

Asal Qabristan To Dil Hota Hai

ٹھیک دس برس پہلے، اپریل کے آخری دن یعنی تیس تاریخ کوگھرکے لاؤنج میں ٹی وی دیکھ رہاتھا۔ اس ہال کمرے کے چاردروازے تھے۔ ایک دروازہ گھرکے دوسرے حصے کی طرف کھلتاتھا۔ جس میں والدہ کاکمرہ تھا۔ دائیں جانب کے فالج کی وجہ سے والدہ صاحبِ فراش تھیں۔ تقریباًسات برس سے۔

پیرانہ سالی کے باوجودروزہ نہیں چھوڑتی تھیں۔ ڈاکٹروں نے بارہاکہاکہ آپ بیمارہیں۔ روزہ نہ رکھیے۔ مگرکوئی جواب نہیں دیتی تھیں۔ اگلے دن پھرروزہ رکھ لیتی تھیں۔ اب بحث کرنا چھوڑچکاتھا۔ ماں جی اپنے کمرے سے باہرصرف شام کو نکلتی تھیں۔ وہیل چیئرپرآرام سے بیٹھ کرباہرلان میں درختوں اور پرندوں کوغورسے دیکھاکرتی تھیں۔ درختوں کے یونانی یعنی اصل نام انھیں اَزبر تھے۔ 1953-54 میں علی گڑھ یونیورسٹی سے بوٹنی میں ایم ایس سی کررکھی تھی۔ اس لیے پودوں اوردرختوں میں دلچسپی واضح تھی۔ ایک بات، گھرکے جس حصے میں میراکمرہ اورلاؤنج تھا، اس میں ان کاآنابہت کم ہوتاتھا۔

30اپریل کواچانک وہ وہیل چیئرپرٹی وی والے کمرے میں آئیں۔ میرے لیے یہ بہت حیرت کی بات تھی۔ مودب ہوکربیٹھ گیا۔ پوچھنے لگیں۔ کیسے ہو۔ کیاحال ہے۔ جواب دیاکہ بالکل ٹھیک۔ والدہ نے مجھے بہت غورسے دیکھا۔ لاؤنج کے درودیوارپرنظرڈالی۔ خاموشی سے اپنے کمرے میں واپس چلی گئیں۔ میرے ذہن میں بھی کوئی سوال نہیں آیاکہ ماں جی، لاؤنج میں توکبھی آتی نہیں تھیں۔ پھراچانک کیوں۔ یہ تجسس ساتھا۔ سوال نہیں تھا۔ تھوڑی دیربعدمیں گھرسے باہرکسی کام سے گیا۔ میری اہلیہ کافون آیاکہ امی کی طبیعت بہت خراب ہے۔ فوراً گھرواپس آجائیں۔

جب میں غریب خانہ پرپہنچا۔ تو والدہ کی طبیعت حددرجہ خراب لگ رہی تھی۔ فوراًان کو نزدیکی اسپتال میں لے گیا۔ ایمرجنسی میں داخل کروایا۔ یہ ایک نجی اسپتال تھا۔ ان کے بیڈکے سامنے کھڑا ہوگیا۔ یادہے کہ ایک ٹیکنیشن ایکسرے کرنے آیا۔ نرس نے ایک جستی چادرکمرکے نیچے بچھانے کی کوشش کی۔ ایسے لگاکہ والدہ کوتکلیف ہورہی ہے۔ میں نے خودانتہائی احتیاط سے والدہ کی کمرکے نیچے ایکسرے کے لیے آہنی چادررکھی۔ ایکسرے ہونے کے چند منٹوں بعداحساس ہواکہ والدہ سانس نہیں لے رہیں۔

زندگی کی ڈورمیرے سامنے ٹوٹ چکی تھی۔ واپسی پرجب ایمبولینس میں ڈیڈ باڈی کے ساتھ بیٹھا تھا، تو ذہن بالکل خالی تھا۔ کسی قسم کے جذبہ کے بغیر۔ پوری طرح یادہے۔ بے معنی طریقے سے گاڑی کے شیشے کے باہردیکھ رہاتھا۔ میراکتنابڑاذاتی نقصان ہوچکاہے۔ اس کا کوئی علم ہی نہیں تھا۔ تدفین کے عمل کے بعد، کئی دن تک، اپنے آپکوسنبھال نہیں پایا۔ شائدسنبھل توآج تک نہیں سکا۔ اس لیے کہ پختہ عمرمیں نزدیک کے رشتے، دنیا سے جانے کے بعد، آپ ہی کے ساتھ رہتے ہیں۔

مسلسل یادوں میں۔ ویسے، لوگ کہتے ہیں کہ والدین کو قبرمیں اُتاردیا۔ بتاناچاہتاہوں کہ ان کی قبریں مٹی میں نہیں، بلکہ دل پربنتی ہیں۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ ماں جی کے فوت ہونے کے چندہفتے بعد، لاؤنج میں خاموش بیٹھاہواتھا۔ احساس ہوا، کہ امی اس دن ٹی وی والے کمرے میں کیوں آئیں۔ وہ توکبھی گھرکے اس حصے میں نہیں آتی تھیں۔

پھراس دن لاؤنج میں آکرمیری خیریت کیونکردریافت کی۔ گھرکے درودیوارپراتنی گہری نظرکیوں ڈالی۔ اچانک دل میں اس سوال کاجواب آیاکہ شائدخداکے بندوں کو اس دنیاسے واپسی کاتھوڑاسا ادراک ہوجاتاہے۔ وہ اشارے کنائیوں میں اپنے اردگردکے لوگوں کو بتادیتے ہیں کہ اب رفاقت ختم ہونے والی ہے۔ شائدیہ خداحافظ کہنے کاایک ایساطورہے جسے دوسرے سمجھ نہیں سکتے۔ شائد ہرذی روح واپسی کے سفرکی بھنک پالیتاہے۔ کچھ بھی کہے بغیر۔

والدین، خدانے کیانرم دل انسان بنائے ہیں۔ اس کااحساس شائدجوانی میں کم ہی ہوتاہے۔ مگربڑھاپے میں اپنے بزرگوں کی ایک ایک بات ذہن میں گھرکرلیتی ہے۔ اللہ بخشے۔ والدصاحب کو۔ حددرجہ رعب دارانسان تھے۔ بہترین انگریزی سوٹ میں ملبوس رہتے تھے۔ لائل پورمیں وکیل تھے، توصفِ اول میں تھے۔ عمدہ ترین گاڑی رکھتے تھے۔

ان کی پہلی گاڑی توآج تک یاد ہے۔ سفید رنگ کی ویکس ہال۔ غفارڈرائیورتھا۔ اس وقت لائل پورمیں صرف چندگاڑیاں تھیں۔ ذہن پرنقش ہے کہ اس گاڑی کواسٹارٹ کرناکافی مشکل کام ہوتاتھا۔ ایک ہینڈل سے، غفارڈرائیور، انجن میں لگے ایک پیچ کو زورسے گھماتا تھا۔ یہ سلسلہ پہلی بارتومکمل ناکام ہوتا تھا۔ دوتین بار ہینڈل گھمانے سے زورسے انجن اسٹارٹ ہوجاتا تھا۔ ویسے جتنی خوشحالی، والد صاحب کی وکالت میں تھی۔ جج بننے کے بعدبالکل تبدیل ہوگئی۔ بلکہ ختم ہوگئی۔ ان کے کپڑے حددرجہ سادہ ہوگئے۔ یہ کہنے میں کوئی عارنہیں کہ جج بننے کے بعد ایک حددرجہ مختلف انسان تھے۔

پہلے، گھرمیں لوگوں کاتانتابندھارہتاتھا۔ مگرجج بننے کے بعد، حلقہِ احباب انتہائی محدودہوچکاتھا۔ وہی پانچ دوست۔ شیخ وحیدصاحب جوبعدمیں ہائیکورٹ کے جج بنے۔ ان کے بہترین دوستوں میں سے تھے۔ ویسے جسٹس وحید بھی کمال کے انسان تھے۔ سخت گیرجج۔ مگر حددرجہ نفیس آدمی۔ ان کابیٹابھی ہائیکورٹ کاجج ہے۔ اپنے والدکی طرح نیک نام۔ عرض کرناضروری ہے کہ بھلے زمانے میں جج صاحبان حددرجہ تنہاسی زندگی گزارتے تھے۔ میرے والدجنہوں نے اوائل سے ذاتی بیش قیمت گاڑی رکھی ہوئی تھی۔

جج بننے کے بعداکثراوقات بس میں سفر کرتے تھے۔ سیشن جج قصورکے طورپرتواکثردیکھاکہ بس ہی میں آتے جاتے تھے۔ اسی طرح جب جہلم گئے۔ تولاہورسے جہلم، ٹرین پرجاتے تھے۔ ویسے یہ لوگ حددرجہ منفرد تھے۔ اپنے کام سے کام اورسادہ اطوارکے مالک۔ سیشن ہاؤس، جھنگ میں کئی باردیکھاکہ ہفتوں ہفتوں کوئی مہمان نہیں آتاتھا۔ مگران کے چند دوست ضرور تھے۔ ان میں والدصاحب حددرجہ مختلف آدمی تھے۔ مشتاق دھامنا صاحب، انکل رشید، ناصرسونی انکے بہترین دوستوں میں تھے۔ دھامناصاحب اورانکل رشیدتواس دنیاسے رخصت ہوچکے ہیں۔ ناصرسونی کامجھے کوئی علم نہیں۔ صرف یہ پتہ ہے کہ امریکا منتقل ہوگئے تھے۔

ایک دن شام کو گھرگیا۔ 1988کی بات ہے۔ والدصاحب ٹوبہ ٹیک سنگھ آچکے تھے اوروالدہ وہاں گرلز کالج کی پرنسپل تھیں۔ میں اس وقت سول سروس میں آچکا تھا۔ ماں جی، جج صاحب سے پوچھ رہی تھیں کہ ریٹائرمنٹ میں بس دوڈھائی برس باقی ہیں۔ ابھی تک ذاتی گھرنہیں ہے۔ سرکاری گھر تو ریٹائرمنٹ کے بعداجنبی ہوجاتا ہے۔

توکیا کرینگے۔ میں ساتھ کھڑاہوا تھا۔ والدصاحب نے جواب دیا کہ گھرتوموجودہے۔ ہم سارے حیران ہوگئے۔ کیونکہ ہماراکوئی ذاتی گھرنہیں تھا۔ کہنے لگے کہ تاندلیانوالہ میں ہماراآبائی گھر موجود ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہاں منتقل ہوجاؤنگا۔ والدہ خاموش ہوگئیں۔ اس لیے کہ اس گھرمیں تمام بہن بھائی حصہ دار تھے۔ بہرحال جس طرح قرض اُٹھااُٹھاکر والدین نے گرین ویوجسے راجہ والابھی کہاجاتا ہے، میں گھر بنایا، ابھی تک ذہن نشین ہے۔ ویسے ریٹائر منٹ تک وہ گھرنامکمل تھا۔ مگروالدین وہاں منتقل ہوگئے۔ جج صاحب، ریٹائرمنٹ کے چندہفتوں بعدہی جہانِ فانی سے کوچ کرگئے۔

لائل پورمیں ہی تدفین ہوئی۔ والدہ علی گڑھ سے لائل پورآئیں۔ علی گڑھ کے نزدیک ایک گاؤں بیرپورتھا۔ والدہ کاتوتعلق اس جگہ سے تھا۔ والد، کلیر شریف کے نزدیک سے اُٹھ کرپاکستان آئے۔ میرے دادا، راؤاختر، سخت مزاج بزرگ تھے۔ بتاتے تھے کہ کلیر شریف کے ساتھ ایک چھاؤنی بھی تھی۔ کہاں بیرپور اور کہاں کلیر شریف اورپھرکہاں فیصل آبادکاوہ قبرستان جہاں دونوں اَبدی نیندسورہے ہیں۔ صاحبان یہی زندگی ہے اوراس کاپہیہ یونہی چلتارہیگا۔ ویسے میں ایک ایسے انمول رشتے کاذکر ضرور کرنا چاہونگا۔ والد کے چھوٹے بھائی۔ راؤ اسلم۔ پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے اورکامیاب وکالت کرتے تھے۔ بارکونسل کا الیکشن ہمیشہ لڑتے تھے اورجیتتے تھے۔ جب تک زندہ رہے، ممبرپنجاب بارکونسل رہے۔

اسلم چچاجوانی ہی میں انتقال کرگئے۔ میرے لیے حددرجہ شفیق تھے۔ جہاں نظرآتے ان سے بیس پچیس روپے ہتھیا لیتا تھا۔ ایک دن کنگ ایڈورڈمیڈیکل کالج کے ہاسٹل آئے۔ تومجھے سوروپے دے دیے۔ یہ 1979کی بات ہے۔ سوروپے کی کتنی وقعت ہوگی۔ اس کا اندازہ 2021میں لگاناناممکن ہے۔ انھوں نے ایک موٹرسائیکل خریدی۔ جسے انھوں نے کبھی بھی نہیں چلایا۔ سواس موٹر سائیکل کامالک فدوی بن چکاتھا۔ جب چچاکایکدم انتقال ہواتووالدصاحب صدمہ سے نڈھال ہوگئے۔

لائل پوریافیصل آبادجاتاہوں تو صرف اپنے پیاروں کی قبروں پرفاتحہ خوانی کے لیے۔ قبرستان میں جوتے پہن کربھی داخل نہیں ہوتا۔ دوبارہ عرض کرونگاکہ لوگ کہتے ہیں کہ ان کے پیارے قبرستان میں دفن ہیں۔ میری دانست میں تو عزیز ترین ہستیوں کی قبریں توانسان کے دلوں پربنی ہوتی ہیں۔ یہ گارے مٹی کی نہیں، بلکہ خون سے مزین ہوتی ہیں۔ ہمیشہ قائم۔ ہمیشہ آسودہ حال!اصل قبرستان تودل ہوتا ہے!