اکبر انتہائی کمسنی کی عمر میں حادثاتی طور پر بادشاہ بن گیا تھا۔ اکبر کو تخت دینے اور حفاظت سے آگے بڑھنے کا کارنامہ صرف اور صرف ایک آدمی کا تھا۔ بیرم خان۔ اگر بیرم خان نہ ہوتا تو مغل سلطنت ہمایوں کے بعد خاک چاٹ رہی ہوتی۔ یہ فقط بیرم خان جیسا وفادار انسان ہی تھا جس نے اکبر کے ازلی دشمن ہیمو بقال کو پانی پت کے میدان میں فیصلہ کن شکست دی۔
انتہائی وفاداری سے بیرم خان نے اکبر کی بادشاہت کو مضبوط سے مضبوط تر کیا۔ پانچ برس تک اکبر کے ہر فیصلے میں بیرم خان کی مشاورت شامل تھی۔ اب اکبر اٹھارہ برس کا ہو چکا تھا۔ بیرم خان کو خان بابا کہتا تھا۔ مہام انگا، اکبر کی آیا تھی۔ اکبر اس کی ازحد عزت کرتا تھا۔ مہام انگا کو بیرم خان سے چڑ تھی۔
اس نے آہستہ آہستہ اکبر کے کان بھرنے شروع کر دیے۔ مہام انگا نے ضد میں اکبر بادشاہ کی شادی مرزا کامران کی بیٹی سے کروا دی جو کہ اندر سے اکبر کی حکومت کے مخالف تھا۔ بیرم خان نے بادشاہ کو سمجھایا کہ مرزا کامران اس کا چچا ضرور ہے مگر تخت پر اپنا حق صائب سمجھتا ہے۔ لہٰذا دشمن کے گھر شادی کرنا ریاستی اعتبار سے نامناسب ہے۔ مگر مہام نے اس ذاتی معاملے میں خان بابا کی پیش نہ چلنے دی۔ شادی ہو گئی اور اکبر اب ان عزیزوں کے نرغے میں آ گیا جو بیرم خان کے بڑھتے ہوئے اثر سے خائف تھے۔ ایک دو واقعات بھی ایسے ہوئے جس نے اکبر کا ذہن خان بابا کے خلاف کر دیا۔
یہ تیز بہدف نسخہ کامیاب ٹھہرا۔ اکبر اس شخص کے خلاف ہو چکا تھا۔ جس نے اسے حکومت لے کر دی تھی۔ مگر دربار، ریاست کا مزاج کچھ اور ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس شخص نے وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے، دوسرے انسان کو حکومت لینے میں بھرپور مدد کی۔ تھوڑے ہی عرصے بعد اس کی وفاداری کا انعام دربدر ہونے میں نکلا۔ بیرم خان کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ بادشاہ نے ایک شاہی فرمان کے ذریعے خان بابا کو معزول کر دیا۔ بیرم خان کو لاہور سے گرفتار کیا گیا۔ وہ شخص جس نے اکبر کو تخت پر بٹھایا۔ اس کی ہرطریقے سے حفاظت کی۔
پابہ زنجیر ملزم بنا کر بادشاہ کے سامنے پیش ہوا۔ اکبر اندر سے بیرم خان سے بہت متنفر ہو چکا تھا۔ ظاہری طور پر خان بابا کی بہت عزت کی اور حکم دیا کہ بیرم خان کو حج پر بھیج دیا جائے۔ اس زمانے میں حج کا مطلب تقریباً ایسا تھا کہ زندہ واپس آنا مشکل ہوا کرتا تھا۔ سفر کی طوالت، مہینوں کی بے آرامی اور قدم قدم پر ڈاکوؤں کی یلغار سے حاجی مشکل ہی سے زندہ بچ پاتے تھے۔ بیرم خان کے ساتھ بھی یہی ہوا۔
عرض کرنے کا مقصد سادہ سا ہے۔ حکمرانی کا اصول یہ ہے کہ جس کے سہارے سے انسان اقتدار حاصل کرتا ہے۔ وقت آنے پر سب سے پہلے اسے دربار سے نکالا جاتا ہے۔ اس اصول میں آج تک کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ غور کیجیے۔ 1985 کی حکومت سے لے کر 2018 تک اگر خاندان سے باہر نواز شریف کا کوئی وفادار ساتھی تھا تو وہ چوہدری نثار تھا۔ طاقتور ریاستی حلقوں سے نواز شریف کے لیے آسانیاں نثار علی خان پیدا کرتا تھا۔ شہباز شریف بھی ساتھ ہوتے تھے۔ مگر شہباز شریف کا ریاستی حلقوں سے بالواسطہ کوئی تعلق نہیں تھا۔ عسکری حلقے، خاندانی نسبت کی وجہ سے نثار کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ نواز شریف کو وزیراعظم بنوانے کے لیے جتنی محنت اور عسکری حلقوں سے فیصلہ کن مذاکرات ہوئے تھے وہ صرف اور صرف چوہدری نثار کا کام تھا۔
جب نواز شریف تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے تو دونوں کے تعلقات میں فرق آنے لگا۔ نواز شریف کے نزدیک چند سیاسی افراد اور خاندان کے اہم لوگوں کو چوہدری نثار کے وزیراعظم پر حد درجہ اثر سے خوف تھا۔ انھیں اندازہ تھا کہ اگر معاملات اسی طرح چلتے رہے تو وفاق کی حد تک ان کی کوئی سیاسی اہمیت نہیں رہے گی۔
چنانچہ آہستہ آہستہ گھریلو چینل سے بھی نواز شریف کے ذہن میں چوہدری نثار کے خلاف منفی باتیں ڈالی جانے لگیں۔ نواز شریف کو ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ رٹانے والے اصولی طور پر تو شائد درست بات کر رہے ہوں۔ مگر اندر سے سب کو معلوم تھا کہ میاں صاحب ریاستی اداروں کے گملے میں پیدا ہوئے ہیں اور ان میں اتنی فکری قوت نہیں ہے کہ وہ ملک کے سب سے طاقتور ادارے کو شکست دے سکیں۔ نثار اور شائد چند دیگر محدود لوگ میاں صاحب کو بار بار سمجھا رہے تھے کہ ریاستی اداروں سے اچھے تعلقات دوبارہ استوار کریں۔ مگر دربار میں طاقت کا کھیل حد درجہ سفاک تھا۔ نواز شریف کو اس راستے پر ڈال دیا گیا۔ جس میں ان کا سیاسی رول کم سے کم ہوتا تھا۔ حکومت چلی گئی۔ پابند زنداں ہوئے اور اب جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کا بیرم خان اکیلا اور خاموش ہے۔
وقت کے دھارے میں موجودہ حالات پر نظر ڈالیے۔ پوری تحریک انصاف میں جہانگیر ترین جیسا شاہ خرچ اور حکومت سازی کے فن کا ماہر کوئی بھی نہیں ہے۔ یہ عمران خان کو سیاسی سانپ اور سیڑھی کے کھیل سے کامیاب کروا کر وزارت اعظمیٰ تک لے گیا۔ خان صاحب کے اولین ساتھی، کتابی سیاست کی طرف مائل تھے۔
ان کے پاس تحریک انصاف کو حکومت دلانے کا کوئی ٹوٹکا نہیں تھا۔ یہ صرف اور صرف جہانگیر ترین تھا جس نے عمران خان کے درست حلقوں سے رابطے کروائے۔ اسے عملی سیاست میں فعال کیا۔ اپنی دولت پانی کی طرح لٹائی۔ اگر جہانگیر ترین کی ہمہ وقتی مدد نہ ہوتی تو عمران خان پارلیمنٹ میں تو ضرور ہوتے مگر حکومت میں اگلے سو سال بھی نہیں آسکتے تھے۔ جہانگیر ترین عمران کے لیے اس صدی کے بیرم خان ثابت ہوئے۔ جب خان صاحب وزیراعظم بنے۔ تو دیکھا گیا کہ ان کی دربار اور حکومتی امور پر گرفت حد درجہ مضبوط ہے۔ پھر مہام انگا، شہزادہ کامران کے خاندان، اور اکبر بادشاہ والا کھیل دوبارہ کھیلا گیا۔
جہانگیر ترین کے خلاف وزیراعظم کے کان بھرنے شروع کر دیے گئے۔ اس بار ایک ایسے فارمولے کا استعمال کیا گیا جس پر عمران خان مکمل یقین کامل رکھتا تھا۔ ایمانداری اور صرف ایمانداری کا ورد۔ عمران خان کو یقین دلایا کہ جہانگیر ترین نے شوگر مافیا کے ساتھ مل کر بہت زیادہ بے ایمانیاں اور بداعتدالیاں کی ہیں۔ چند مخصوص لوگوں کے ٹولے نے عمران خان کے ذہن میں جہانگیر ترین کو ایک چور اور ڈاکو ثابت کر دیا۔ قصہ کوتاہ یہ کہ جہانگیر ترین کو عمران خان سے کوسوں دور کر دیا گیا۔ یعنی وہ شخص جو خان کو حکومت میں لے کر آیا۔ آج مکمل طور پر در بدر ہے۔
گزارش ہے کہ یہاں فرشتہ کوئی بھی نہیں ہے۔ نہ آل شریف، نا چوہدری نثار، نہ عمران خان اور نہ جہانگیر ترین۔ اقتدار کے کھیل کو چوہدری نثار اور جہانگیر ترین سے بہتر کوئی نہیں سمجھتا۔ دونوں میں پرانے بیرم خان کی وفاداری کی صفت بھی ایک جیسی ہے۔ آج کی تاریخ تک دونوں اکابرین اپنے اپنے سیاسی رہنما سے وفادار ہیں۔ ان کے خلاف بغاوت نہیں کرتے۔ دیکھا جائے تو برصغیر کی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ سازش کامیاب رہتی ہے۔ وفاداری کی جزا نہیں۔ سزا خوب ملتی ہے۔ ہر زمانے کا بیرم خان خسارے میں رہتا ہے۔ مہام انگا، شاہی خاندان کی خواتین، ازحد ادنی درجے کے درباری ہمیشہ فتح یاب ہوتے ہیں۔ آج بھی یہ صدیوں پرانا کھیل جاری ہے۔ آگے دیکھیے، آج کا اکبر بادشاہ کب دربدر ہوتا ہے۔ لگتا ہے کہ وقت کافی قریب ہے!