اَسّی کی دہائی میں نوازشریف وزیر اعلیٰ تھے۔ اسی دورانیہ میں ایک واقف کارجوکہ فوج سے سول سروس میں آیاتھا، مختلف وجوہات کی بدولت ان کے خاص نزدیک ہوچکاتھا۔ عہدہ توپی ایس اوکاتھا۔ مگر میاں صاحب اس کی بات کافی دھیان سے سنتے تھے۔ وزیراعلیٰ سے ملاقات کروانا، ان کے احکامات کومختلف حکومتی اداروں تک پہنچانا، سب اس کی دسترس میں تھا۔
سیاستدان نواز شریف تک پہنچنے کی سیڑھی سمجھ کرہردم اس کی منت سماجت کرتے رہتے تھے۔ کئی بارایسے بھی ہوتاتھاکہ وہ اہم ترین سیاستدانوں کے فون نہیں سنتا تھا۔ موبائل کا ابتدائی دورتھا۔ اس کی فون کی گھنٹی کبھی بھی خاموش نہیں رہتی تھی۔ میری اس سے کافی بے تکلفی تھی کیونکہ مختلف مقامات پرٹریننگ اکٹھے کی ہوئی تھی۔
آہستہ آہستہ مجھے ایسے لگاکہ اس کی طبیعت میں کچھ لوگوں کے خلاف ناجائز غصہ آچکاہے۔ وہ سیاستدان یا سرکاری ملازم جب بھی اسے کسی سرکاری کام کے لیے فون کرتے، تو جونیئر ہونے کے باوجودبہت سرد رویہ رکھتا تھا۔ اگراسکاکوئی ناپسندیدہ شخص وزیراعلیٰ سے ملنے کا وقت مانگتاتھا، تواس کی بطورپی ایس اومکمل کوشش ہوتی تھی کہ ملاقات نہ ہوپائے۔ اس حریف سے اسکاکوئی ذاتی فائدہ یانقصان نہیں تھا، مگر پسنداورناپسندضرورشامل تھی۔
اہم لوگوں کی مجبوری تھی کہ نمایاں پوزیشن کی وجہ سے اس سے ہر قیمت پرتعلق رکھناہے۔ چنانچہ تمام حرکات کے باوجودوہ حددرجہ اہم ہی تھا۔ میں نے آہستہ آہستہ محسوس کیاکہ لوگ آپس میں چہ میگوئیاں کررہے ہیں کہ وزیراعلیٰ اب عوامی نمایندوں سے دورہوچکے ہیں۔ ملنا تک پسند نہیں کرتے۔ یہ تاثرآہستہ آہستہ بڑھناشروع ہوگیا۔
اخبارات میں اس طرح کی خبریں آنے لگیں کہ نواز شریف حقائق سے دورہوتے جارہے ہیں۔ مگر وزیراعلیٰ کواس طرح کی خبروں پرکوئی یقین نہیں تھا۔ چنانچہ وہ اب اپنے ذاتی اسٹاف کی باتوں پرمزیدیقین کرنے لگے۔ اسی دورانیہ میں الیکشن ہوا اور نوازشریف وزیراعظم بن گئے۔ وزارت اعلیٰ، غلام حیدروائیں کے لیے مختص کی گئی۔ اُصول طے ہواکہ میاں صاحب کاسابقہ اسٹاف اگرنئے وزیراعلیٰ کے ساتھ رہناچاہے گا، تواس میں کوئی حرج نہیں۔ غلام حیدروائیں ایک صاف ستھرے اور سفیدپوش انسان تھے۔ سیاست کاسفرصرف اورصرف اپنی محنت بلکہ ریاضت کے بل بوتے پرطے کیا تھا۔
مگر ان کے ہاتھ کئی معاملات میں بندھے ہوئے تھے۔ میرا واقف کاریعنی پی ایس او، اب وائیں صاحب کی ناک کابال تھا۔ وہ جتناموثربڑے میاں صاحب کے ساتھ تھا، اتنا یا شایداس سے بھی زیادہ، وائیں صاحب کے ساتھ تھا۔ وقت گزرتاگیااوروہ افسرعوامی نمایندوں اور سرکاری ملازمین کی مسلسل بے عزتی کرتا رہا۔ پھراچانک حالات نے پلٹاکھایا۔ پیپلزپارٹی اور چند ایم پی اے حضرات نے پنجاب میں وائیں صاحب کے خلاف عدم اعتمادکرنے کی ٹھان لی۔ اس سیاسی تبدیلی کی قیادت منظور وٹوکررہے تھے۔
ابھی عدم اعتمادکی تحریک جمع ہوئی تھی۔ مگرووٹنگ میں کچھ دن باقی تھے۔ وائیں صاحب نے فیصلہ کیاکہ ہردوپہرکواپنی جماعت کے ممبران کے ساتھ کھاناکھائیں گے۔ حکم کی تعمیل ہوئی۔ یہ ویسے معمول کی بات تھی۔ یہ ڈیوٹی بھی اسی پی ایس او کی لگی کہ ممبران کوفون کرکے روزانہ کھانے پرمدعو کرے۔ ہوا یہ، کہ جس ایم پی اے کوبھی فون کرتاتھا، وہ یاتوکسی مصروفیت کابہانہ بنا ڈالتا تھا۔ یا کہتا تھا کہ وہ صاحب فراش ہے، یاکسی خانگی معاملے کوسلجھا رہا ہے۔ جب حسبِ حکم اگلے دن وائیں صاحب نے پوچھا کہ کیا کھانے کے لیے ممبران آگئے ہیں تواس افسر کا جواب تھا کہ سرمیں نے اطلاع کردی تھی۔
کیاآپ یقین فرمائیں گے کہ پہلے دن ڈیڑھ سوممبران میں سے صرف پچیس لوگ کھانے پرآئے۔ یہ سب کچھ دیکھ کروزیراعلیٰ سرپکڑکربیٹھ گئے۔ انھیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ کیسے ہوسکتاہے کہ انھی کی سیاسی جماعت کے لوگ، ان کی دعوت کواس نازک وقت پرٹھکرادیں۔ وہ تصوربھی نہیں کرسکتے تھے کہ گزشتہ دوچاربرس میں ان کے پسندیدہ افسرنے ان ممبران کی اتنی ہتک کی ہے کہ اب سارے ناراض ہوچکے ہیں اوراب بدلہ لے رہے ہیں۔
آپ اس افسرکی ذہنی پھرتی دیکھیے کہ اس نے فوراًپانساپلٹ لیا۔ اب وہ باقاعدہ، وائیں صاحب کے متعلق خبریں ان کے سیاسی مخالفین کو دینے لگا۔ ہواپھریہ کہ وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کامیاب ہوگیا۔ وہ افسر بدستورنئے وزیراعلیٰ کی اردل میں شامل ہوگیا۔ وٹو صاحب مگر تیز آدمی تھے، معاملات کوباریکی سے سمجھتے تھے۔ لہٰذا، تھوڑے عرصے کے بعداس افسر کوتبدیل کردیا۔
یہ کہناتومبالغہ آرائی ہوگی کہ اس افسرنے وائیں صاحب کوخراب کرنے میں کلیدی کرداراداکیا۔ مگریہ درست ہے کہ اس نے وزیراعلیٰ اورممبران کے درمیان حددرجہ دوریاں پیداکردیں۔ جس سے وائیں صاحب کوحددرجہ نقصان ہوا۔ پنجاب کی سیاست یکدم تبدیل ہوگئی۔ سیاسی بساط مکمل طورپرپلٹ گئی۔ جب بھی کوئی افسروزیراعلیٰ یا وزیراعظم کے نزدیک ہوجاتاہے۔ تو اپنے سیاسی باس کو یقین دلادیتاہے کہ اس کا سچا اور واحد ہمدردہے۔ عین اسی وقت اس افسرکی ذاتی گیم شروع ہوجاتی ہے۔
اب وہ اپنی پسنداور ناپسندکے حساب سے سیاستدانوں اورسرکاری افسروں کاانتخاب شروع کر دیتاہے۔ کس کی ملاقات روکنی ہے۔ کس کی پگڑی بازارمیں اُچھالنی ہے۔ یہ سب کچھ بلکہ بہت کچھ، ایسے کام شروع ہوجاتے ہیں، جنکامسندِشاہی پربیٹھے ہوئے شخص کوہرگزہرگزاحساس نہیں ہوتا۔ روزانہ کی بنیادپر کتناسیاسی نقصان پہنچایا جا رہاہے، اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتا۔
سیاستدان تصویروں میں وزیراعظم یاوزیراعلیٰ ضرور ہوتا ہے، مگر اصل اختیاراورطاقت ان اہلکاروں کے ہاتھوں میں چلی جاتی ہے۔ جنکی سیاسی نقصان کی کوئی ذمے داری نہیں ہوتی۔ آپ حیران ہونگے کہ پنجاب کے ایک سابقہ انتہائی تیزطرار وزیراعلیٰ کوجس طرح چارپانچ افسروں نے بے دست وپاکردیا، اس پرحیرت ہوتی ہے۔ ان کا طریقہ واردات بہت سادہ ساتھا۔ جب وزیراعلیٰ کسی افسرکے متعلق پوچھتے تھے کہ یہ کیساافسرہے۔
اس کی منفی اورمثبت عادات کیاہیں۔ ایماندارہے یابے ایمان۔ تو اس کے بعدایک ترتیب سے شیطانی کھیل کھیلاجاتا تھا۔ وزیراعلیٰ کو بااعتماد اسٹاف افسرلجاجت سے بتاتاتھاکہ سر، دل تو نہیں چاہتاکہ کسی کی برائی کروں، مگرکیونکہ آپ سے وفاداری ہے لہٰذاسچ بات ضرورکہونگا۔ دراصل یہ افسر جسکے متعلق آپ نے پوچھاہے، حددرجہ کرپٹ بلکہ بدکردارشخص ہے۔
اب کیاعرض کروں، مجھے توشرم آتی ہے چندحقائق بتاتے ہوئے۔ پھروزیراعلیٰ کواس بے چارے افسریاسیاستدان کی وہ منفی تصویربتائی جاتی تھی کہ خداکی پناہ۔ آخری جملے یہی ہوتے تھے کہ سر، یہ سب کچھ آپکی وفاداری کی بدولت عرض کررہا ہوں، ورنہ میں ہرگزہرگزایسی بات نہ کرتا۔ اب وزیراعلیٰ کے ذہن میں انتہائی عیاری سے ایک اچھے افسریاسیاستدان کے متعلق شک پیداکردیاجاتاتھا جسکے فرشتوں کوبھی خبر نہیں ہوتی تھی کہ اس کی کردارکشی ہورہی ہے اوراس کے کیریئر کو برباد کیا جارہاہے۔ آگے غورسے سنیے۔ اب یہ سب جھوٹ اور مغلظات بتانے والے افسر، وزیراعلیٰ کے کمرے سے نکل کراپنے دوسرے اس ساتھی کے پاس جاتا تھا، جسکی بات وزیراعلیٰ سنتاتھا۔ اسے کہتا تھا کہ تم سے جب بھی وزیراعلیٰ اس افسرکے بارے میں کچھ پوچھے توتم نے حددرجہ منفی باتیں کرنی ہیں۔
بالکل ایسا ہی ہوتا تھا۔ دوچاردن بعدجب سابقہ وزیراعلیٰ اپنے اسٹاف کے اس افسرسے پوچھتے تھے کہ ذرابتاؤکہ فلاں افسریاسیاستدان کیساہے۔ تووہ بھی ایک طے شدہ منصوبے کے تحت، اس شخص کی حددرجہ برائی بیان کرتا تھا۔ آخری فقرہ ہمیشہ یہی ہوتاتھا۔ کہ سردل تونہیں چاہتا کہ کسی کی بدخوئی کروں، مگرآپ سے حددرجہ عقیدت اوروفاداری ہے، لہٰذامجبورہوں کہ سچی بات بتاؤں۔ یہ کھیل دوتین افسرمل کراس مہارت سے کھیلتے تھے کہ وزیراعلیٰ اس شخص کوشیطان سمجھناشروع کر دیتا تھا۔
اسے لگتاتھاکہ اس شخص کواچھی پوسٹنگ دینا تو دور کی بات، اسے توصوبے ہی سے نکال دینا چاہیے۔ اکثر اوقات نہیں، بلکہ ہمیشہ یہ سازش کامیاب ہوتی تھی۔ اہم ترین سیاستدانوں کے اردگردکے لوگ ان کے کان اورآنکھیں بننے کا جعلی رول اداکرتے تھے۔ اوراس طرح اچھے، ایمانداراورکام کرنے والے افسروں کے سرکاری کیریئرکوتباہ کردیتے تھے۔ بلکہ سابقہ وزیراعلیٰ کو تو انھوں نے ایک لیپ ٹاپ میں ہرافسرکے متعلق، اپنی پسنداورناپسندکے اعتبارسے معلومات مستقل طور پر فراہم کررکھی تھیں تاکہ وزیراعلیٰ کبھی بھی، کسی بھی حالت میں اپنامنفی فیصلہ تبدیل نہ کرپائیں۔
صاحبان، اس اندوہناک کھیل کوحددرجہ قریب سے دیکھ چکاہوں۔ عام لوگ، سیاستدان، میڈیاکے لوگ اوردیگرعناصریہی سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم یا وزیر اعلیٰ تووہی شخص ہے، جوقوم سے خطاب کررہا ہے۔ پریس کانفرنس کررہاہے۔ مگر نہیں۔ حکومت صرف اور صرف ان افسروں کی ہوتی ہے جومسند پربیٹھے ہوئے شخص کے قریب ہوتے ہیں۔
جودروغ گوئی، سازش بلکہ ہرحربہ استعمال کرکے ووٹ سے آئے ہوئے سیاستدان کواپاہج بنادیتے ہیں۔ اس کوتوپتہ ہی نہیں ہوتاکہ وہ بازارِمصرمیں اَن گنت باربک چکاہے۔ ویسے معلوم توحکومت کے جانے کے بعدبھی نہیں ہوتا۔ کیونکہ یہی کھیل، نئے دربارمیں بڑی کامیابی سے شروع ہوچکا ہوتا ہے۔ دراصل پاکستان میں مصرکے بازارکی منفی طاقت ہمیشہ قائم ودائم رہیگی۔