قبل مسیح سے تقریباً اسی(80) برس پہلے روم ایک قدیم طرز کی جمہوریت کی شکل اختیار کر چکا تھا۔ روم کو "ریپبلک" کہا جاتا تھا۔ انسانی حقوق، برابری، مساوات، خواتین کے حقوق اور حد درجہ اعلیٰ معاملات پر بحث ہوتی تھی۔ تمام اختیارات کا منبع "سینٹ" تھی۔ جس میں سلطنت کے سب سے بااختیار سیاست دان ہر معاملہ کی چھان بین کرتے تھے۔
عام آدمی کے متعلق ہر انداز سے بات کی جاتی تھی۔ حکمران سینیٹ کی مرضی کے بغیر کوئی اہم فیصلہ نہیں کر سکتے تھے۔ دیکھا جائے تو رومن سلطنت کی بیشتر باتیں اور اقدامات آج تک پوری دنیا پر اثر انداز ہورہے ہیں۔ جولیو سیزر پہلا اہم انسان تھا جس نے برملا کہا کہ سینیٹ میں روم کی اشرافیہ عرصہ دراز سے بیٹھی ہوئی ہے۔ عوامی مفاد کی آڑ میں صرف اپنے ذاتی مالی مفاد کی حفاظت کرتی ہے۔
سینیٹ میں اس وقت روم کے طاقتور ترین گھرانوں کے افراد موجود تھے۔ دیکھا جائے تو یہ امیر ترین، موثر ترین اور بے پناہ اثر و رسوخ رکھنے والے افراد تھے۔ سیزر ریپبلک کا محیرالعقول خصوصیات رکھنے والا انسان تھا۔ اس نے یورپ کے سب سے مشکل ترین قبائلی علاقوں پر فتح حاصل کی جنھیں "کالک وارز" کہا جاتا ہے۔ اس میں حد درجہ سخت کوش لوگ رہتے تھے۔ مگر سیزر اب اتنا طاقتور تھا کہ سینیٹ کی اشرافیہ، حکمران بننے میں اس کا راستہ نہ روک سکی۔ وہ 53 قبل مسیح میں روم کا حکمران بن گیا۔
اس کی طلسماتی شخصیت سے ملک کو حد درجہ فائدہ ہوا۔ تاریخ میں سب سے پہلی انتظامی اصلاحات سیزرجیسے لائق حکمران کی طفیل تھیں۔ سیزر نے زمینی اصلاحات کا ڈول ڈالا۔ بیورو کریسی میں حد درجہ انقلابی تبدیلیاں کیں۔ ہر علاقے میں مجسٹریٹ مقرر کیے جو لوگوں کو بروقت انصاف مہیا کرتے تھے۔ غلہ کے ذخائر کو اتنا بڑھا دیا کہ کسی قسم کے قحط کے امکانات ختم ہو گئے۔
اس طرح کے عوامی اقدامات سے سیزر کی مقبولیت عوام میں حد درجہ بڑھ گئی۔ مگر اشرافیہ اس سے سخت ناراض ہو گئی۔ سینیٹ کے ساٹھ ارکان نے سیزر کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ پندرہ مارچ41 بی سی کو سیزر، اسمبلی میں آیا تو روم کے امیر ترین سینیٹر کیسکو نے چھرا نکالا اور سیزر کا گلا کاٹنے کی کوشش کی۔ سیزر طاقت ور انسان تھا۔ اس نے مڑکرکیسکو کا ہاتھ پکڑ لیا۔ کیسکو نے گھبرا کر دیگر سینیٹرز کو کہا "بھائیوں ! میری مدد کرو"۔ یہ سن کر سیزر پر مختلف سیاست دانوں نے چاقوؤں سے تئیس وار کیے۔
سیزر موقع پر مارا گیا۔ جب قاتل سیاست دانوں نے روم میں اعلان کیا کہ آج روم کا عام آدمی آزاد ہو گیا۔ آج جمہوریت جیت گئی۔ ظلم کا دور ختم ہو گیا۔ تو پورے شہر میں ہو کا عالم تھا۔ عام آدمی گھروں میں مقید سیزر کے لیے رو رہے تھے۔ اس کے بعد حیرت انگیز بات یہ ہے کہ روم میں جمہوریت ختم ہو گئی۔ اشرافیہ نے انسانی حقوق کا سہارا لے کر سیزر کو قتل کیا تھا۔ مگر پھر سلطنت ختم ہونے تک روم میں بادشاہت کا دور دورہ رہا۔ اشرافیہ نے جو سیزر سے خائف تھی۔ قتل کے بعد حد درجہ مضبوط ہو گئی۔ دنیا کی سب سے عظیم سلطنت اندر سے کھوکھلی ہو کر اشرافیہ کے لالچ کی وجہ سے برباد ہو گئی۔ اب رومن سلطنت کا ذکر صرف کتابوں میں ملتا ہے۔
جب ملکی حالات کو دلیل کی بنیاد پر پرکھتا ہوں تو رومن سلطنت کی اشرافیہ ا ور مقامی اشرافیہ میں حد درجہ مماثلت دکھائی دیتی ہے۔ تنقیدی نگاہ سے دیکھا جائے تو 1857کی جنگ آزادی کے بعد، انگریزوں نے ہماری اصل اشرافیہ کو خاک اور خون میں رول دیا تھا۔ اس کے بعد انتہائی عیاری سے ایک نقلی اشرافیہ کو ترتیب دیا گیا۔
جس میں ٹوڈی، گوروں کے وفادار اور ان کے جانور نہلانے والے لوگ شامل تھے۔ یہ بھرپور طریقے سے جعلی اشرافیہ تھی۔ انھی کومراعات، زمینیں، جائیدادیں اور خطابات سے نوازا گیا۔ 1947کے بعد مسلمانوں میں موجود یہ نقال کافی تعداد میں پاکستان منتقل ہو گئے۔ آہستہ آہستہ ان لوگوں نے عوام کے حقوق مختلف حربوں سے سلب کرنے شروع کر دیے۔ 1947 سے آگے چلیے تو آپ کو دس نمبر اشرافیہ کا کافی حد تک پتہ چلتا ہے۔ ان تمام معاملات میں 1977 سے آگے ضیاء الحق نے ایک مختلف طرح کی دوغلے پن کی داغ بیل ڈالی۔ ذات، برادری، نودولتیے اور بونے اشخاص پر عنایات کی بارش کر دی گئی۔ بار بار لکھتا ہوں کہ ہم قائداعظم کے پاکستان میں نہیں بلکہ جناب ضیاء الحق امیر المومنین کے تیار کردہ نظام میں سانس لے رہے ہیں۔ بہر حال جس طرح دولت کو سیاست میں فتح کا معیار بنایا گیا۔
وہ 1977سے پہلے ہرگز ہرگز موجود نہیں تھا۔ موجودہ اور سابقہ حکمران اسی فیکٹری کے تیار کردہ انسانی طرز کے روبوٹ ہیں۔ ایسے روبوٹ جو بجلی سے چارج نہیں ہوتے، بلکہ ڈالر اور پاؤنڈ کی طاقت سے چلتے پھرتے ہیں۔ ہر طرح کا بہترین نظر آنے والا خوشنما نعرہ لگا کر لوگوں کو آج بھی بے وقوف بنانے کا فن جانتے ہیں۔
ہمارے ملک کا اصل مسئلہ یہ دس نمبر جعلی اشرافیہ ہے جو ملکی نظام اور وسائل پر مستقل قابض ہو چکی ہے۔ ہر سیاسی جماعت ان لوگوں کی خوشنودی کی مرہون منت اقتدار میں آتی ہے۔ یہ قلیل سے لوگ جانتے ہیں کہ اصل طاقت وہ خود ہیں اور ہر حکمران کو بادشاہ بننے کے لیے ان کے مکمل تعاون کی ضرورت ہے۔ اصل مسئلہ یہی لوگ ہیں۔ فی الحال ان کے منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے ہمارے پاس کوئی قد کاٹھ والا انسان نہیں ہے۔
ماضی کو رہنے دیجیے۔ گزشتہ تین سال پر ٹھنڈے دل سے غور کریں۔ ہر معاملہ سمجھ میں آ جائے گا۔ چینی کے کارخانوں کے مالکان کو دیکھیے۔ پنجاب میں چند خاندانوں نے شوگر ملیں لگا کر نئی ملوں پر پابندی عائد کر دی۔ کوئی شوگر مل مالک، اپنا اصل منافع حکومت کو نہیں بتاتا۔ سیمنٹ کے کارخانوں کے مالکان کا بھی یہی وطیرہ ہے۔ انھوں نے وادی سون سکیسر کو برباد کر ڈالا۔ پہاڑ کے پہاڑ کھا گئے۔ مگر جب کوئی بھی ادارہ ان سے معمولی سی باز پرس کرتا ہے تو کمال درجہ کی اداکاری کی جاتی ہے۔ لگتا ہے کہ یہ تو عوام کے سب سے بڑے خیر خواہ ہیں۔
اور تمام ملکی ادارے شیطان صفت ہیں۔ خان صاحب کی ابتر حکومت تو خیر ان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتی۔ آٹا، تیل اور دیگر اشیاء ضرورت کے کارخانے اب ایک مافیہ کی صورت میں کام نہیں کر رہے بلکہ یہ بذات خود حکومت ہیں۔ کسی بھی شعبے کو دیکھ لیجیے۔ تمام اپنی اپنی جگہ پر مکمل سلطنت بنا کر بیٹھے ہیں۔ کووڈ میں لاہور کے نجی اسپتالوں نے کس طرح لوگوں کو لوٹا ہے۔ صرف اس سے اندازہ ہو جائے گا کہ ہم لوگ کس سطح کے انسان ہیں۔ دوائیوں کے کارخانے بھی لالچ کی انتہا والے ماڈل پر کام کر رہے ہیں۔
دین کے مبلغ اور سادگی کا ہردم پرچار کرنے والے حضرت صاحب بھی ساڑھے تین کروڑ روپے کی لیکسس گاڑی میں سفر کرتے ہیں۔ ہمارا کوئی اہم سیاست دان نجی طیاروں کے علاوہ کسی اور طرح سفر نہیں کرتا۔ رواں حکومت کے چند لوگ تو پیسہ کمانے میں پچھلے تمام حکمرانوں کو بہت پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔ یہ روم کی سینیٹ کے وہ لوگ ہیں جو پورا ملک بھرپور طور پر کھا چکے ہیں۔ ہاں، اگر ان کو کوئی بھی ادارہ یا حکومت تھوڑا سا مشکل وقت دے تو یہ کیسکو کی طرح اپنے قرابت داروں کو کہتے ہیں کہ "بھائیو! میری مدد کرو"۔ اور پھر واقعی مدد ہوتی ہے۔ اور ہر دور کا سیزر قتل کر دیا جاتا ہے۔