Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Char Anasir

Char Anasir

کسی بھی انسان کی زندگی میں چارعناصر حددرجہ فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ یہ کسی کی بھی زندگی کو کوئلے یاہیرے میں تبدیل کردیتے ہیں۔ عمومی گزارش کررہاہوں۔ استثناء بہرحال ہردورمیں موجود تھے اور رہیں گے۔

آپ کس خاندان میں پیدا ہوئے، کس دور میں ولادت ہوئی، پھراہم نکتہ کہ کس ملک میں جنم ہوا اورایک انتہائی نازک بات، کہ زندگی میں آپ نے مخصوص حالات میں کیسافیصلہ کیا۔ وہ فیصلہ، جس نے آپکی زندگی کوآسمان بنادیایاغلط فیصلہ کی صورت میں پاتال میں غرق ہوگئے۔ زندگی پراثراندازہونے والے اہم ترین نکات کی ایک فہرست بنالیجیے۔ عین ممکن ہے کہ آپکی اورمیری فہرست میں بہت کم فرق ہو۔

سٹینلے ان دنہم(Stanley Ann Dunham)، 1942میں امریکی ریاست کینسس میں پیداہوئی۔ سماجی تحقیق کرنے کاشوق تھا۔ ساتھ ساتھ سماجی بندھنوں سے کافی چڑتھی۔ 1959میں ہوائی کاعلاقہ امریکا میں شامل ہوگیا۔ ابتدائی عرصے میں وہاں کاروباری مراعات، دیگرعلاقوں کے مقابلے میں بہت زیادہ تھیں۔ چنانچہ دنہم کے والدین ہونالولو منتقل ہوگئے۔

اس ریاست میں دنہم نے ہوائی یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ وہیں اس کی ملاقات اوباما حسین سے ہوئی۔ عجیب اتفاق تھاکہ دونوں روسی زبان سیکھنے کی کلاس میں اکٹھے پڑھ رہے تھے۔ اوباما کاتعلق کینیاسے تھااوروہ پہلے سے ہی شادی شدہ تھا۔ دونوں خاندانوں کی شدیدمخالفت کے باوجوددنہم نے اوباما سے شادی کرلی۔ اس کی عمرصرف اٹھارہ برس کی تھی۔

چندماہ بعد اسی شادی سے بارک اوباما پیداہوا۔ دنہم کوپڑھنے کا شوق واشنگٹن لے آیااوراوباما حسین ہونالولومیں ہی اپنی تعلیم مکمل کرتارہا۔ یہ شادی بری طرح ناکام ہوئی اور صرف تین برس چل پائی۔ اس شادی سے بارک اوباما واحداولادتھی۔

یہی بارک اوباما، جوبعدمیں امریکا کاچوتالیسواں صدربنا۔ یہ سچاواقعہ بالکل عام ساہے۔ امریکا میں ہی کیاپوری دنیامیں روزہزاروں شادیاں ہوتی ہیں۔ مغربی ممالک میں تواکثرناکام ہی رہتی ہیں۔ مگریہاں سوال یہ اُٹھتاہے کہ کینیاسے تعلق رکھنے والے اوباما حسین کی شادی اگرکینیاہی میں دوسری عورت سے ہوتی۔

ایک اولادہوتی اورپھر شادی ختم، توکیاہوتا۔ کیاانکابیٹا، کبھی ہارورڈیونیورسٹی میں پڑھ پاتا۔ کیاپورے کینیامیں کوئی ایک ایسابینک موجودتھاجومہنگی تعلیم کے لیے قرضہ دیتا۔ کیابارک اوباما کبھی پڑھنے کے لیے کینیاسے امریکا آنے کی تکلیف کرتا۔ یہ بھی چھوڑدیجیے۔ کیا والدکاآبائی ملک اسے ہارورڈیونیورسٹی جیساایک بھی تعلیمی ادارہ مہیاکر سکتا۔ اندازہ ہے کہ اس پوری کہانی سے صرف امریکا نکال دیں توباقی کچھ نہیں بچتا۔ نہ تعلیم، نہ معیارِزندگی، نہ اقتدارمیں آنے کاکوئی سیدھاراستہ اورنہ ہی کوئی مستقبل۔

صرف جائے پیدائش نے وہ مواقع فراہم کیے، جس نے دنہم اوراس کے بیٹے بارک اوباما کووہ تمام مواقع اورسہولیات مہیاکیں جس سے اس بچے کی زندگی مکمل طورپرتبدیل ہوگئی۔ وہ دنیاکے طاقتورترین ملک کاصدربن گیا۔ ظاہرہے کہ جہاں آپ پیداہوئے ہیں۔ وہ تومحض ایک قدرتی اتفاق ہے۔ اس میں انسان کی اپنی مرضی کاتوکوئی عمل دخل نہیں۔ وہی ملک انسان کے مقدرکوسنوارسکتاہے یادوسری صورت میں تباہ بھی کرسکتاہے۔

خاندان پربھی نظرڈالیے۔ پرنس آف ریلز، یعنی شہزادہ چارلس14نومبر1948کو ملکہ الزبتھ دوم کے ہاں پیداہوا۔ 14نومبرکوایک اندازہ کے مطابق تین لاکھ پچاسی ہزاربچہ پیداہواتھا۔ پوری دنیاکی بات کر رہا ہوں۔ ویسے آج تک یہ بھرپوراندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ چوبیس گھنٹے میں دراصل کتنے بچے پیدا ہوتے ہیں۔ تین لاکھ پچاسی ہزاراقوام متحدہ کی طرف سے دیا گیاایک اندازہ ہے۔ 14 نومبر 1948 کو اگر چارلس مشرق وسطیٰ کے کسی عرب گھر میں پیداہوجاتا تو کیا واقعی اپنی باقی زندگی بطور شہزادے کے گزارنے کا خواب تک دیکھنے کی جرات کرسکتا تھا۔

1948 کا مشرقِ وسطیٰ صرف اورصرف صحراتھا۔ ملکوں کا جدید جغرافیہ وجودمیں آرہاتھا۔ غربت عروج پرتھی۔ تیل کی دولت کانام ونشان تک نہ تھا۔ چلیے سعودی عرب کواسی عرصے میں پرکھ لیجیے۔ 1932میں وجودمیں آنے والایہ ملک، ہمسایہ ملک یمن سے حالتِ جنگ میں تھا۔ جوآج بھی جاری ہے۔ سعودی عرب میں غربت اس قدرتھی کہ برصغیرکی مسلمان ریاستیں حج کے انتظامات کے لیے بھی چندہ یازکوۃ بھیجتی تھیں۔ نظام آف حیدر آباداورنواب آف بہاولپورسعودی عرب کی حکومتی سطح پرمددکیاکرتے تھے۔ 14 نومبرکواگرمحتاط اندازہ لگایا جائے توسعودی عرب میں ہی سیکڑوں بچے پیداہوئے تھے۔

اگرپرنس چارلس، کسی عام سعودی خاندان میں پیداہوجاتا، توسوچیے کہ کیاوہ مواقع جوصرف اس کی خاندانی پیدائش کی وجہ سے اسے فراہم ہوئے ہیں کبھی اسے مل پاتے۔ ہرگزنہیں۔ بالکل نہیں۔ شائد تیل کی دولت سے مالامال ہونے کی بدولت امیرتو ہو جاتا، مگر کیادنیامیں اس قدراہمیت اختیارکرپاتا۔ طالبعلم کا خیال ہے کہ ایساممکن نہیں تھا۔ چارلس کے شہزادہ بننے کی واحدبلکہ اکلوتی وجہ اس کا14نومبر 1948 کو برطانوی شاہی خاندان میں پیداہوناتھا۔ جس خاندان میں آپ قدرتی یاحادثاتی طورپرپیداہوئے ہیں اور جس پر آپکاکوئی بس نہیں ہے، اکثراوقات یہی قدرتی اتفاق انسان کی زندگی بنا کررکھ دیتاہے۔ چلیے مسلمان معاشروں میں سے بھی مثال نکال لیتاہوں۔ محمدبن سلمان اکتیس اگست 1985 میں سلمان بن عبدالعزیز کے گھرپیداہوئے۔

عمر صرف پنتیس برس ہے اورعملی طورپرسعودی عرب کے حکمران ہیں۔ پوری ریاست میں انکاطوطی بولتا ہے۔ انھوں نے سعودی عرب کے بنیادی سماجی ڈھانچے کو تبدیل کردیا ہے۔ زبان سے نکلاہواایک ایک لفظ، شاہی فرمان کادرجہ رکھتا ہے۔ حکم دیتے ہیں توسعودی ریاست، قطرسے اپنے تعلقات کو محدودکرلیتی ہے۔ انگلی گھماتے ہیں توسعودی فوج، یمن پرحملہ کردیتی ہے۔

اشارہ کرتے ہیں توہمارے جیسے ممالک کے حکمران ان کے پاس حاضرہوجاتے ہیں۔ ان کی ذاتی دولت کا تخمینہ نہیں لگایاجاسکتا۔ کچھ عرصہ پہلے انھوں نے پانچ سوملین ڈالرکی ایک پُرتعیش کشتی خریدی۔ فرانس میں تین سوملین کاایک گھر خریدا اور چار سوپچاس ملین ڈالرکی ایک نایاب پتنگ خریدی جو مشہور آرٹسٹ لیونورڈرڈی ونچی کی بنی ہوئی تھی۔ مگراکیس اگست 1985کودنیامیں لاکھوں بچے پیداہوئے تھے۔

شاہی خاندان میں پیداہونے والااس دن صرف ایک محمد بن سلمان تھے۔ سوچیے اگروہ اس دن، روس کے کسی شہر میں پیدا ہوجاتے، توزیادہ سے زیادہ ایک یادوکمروں کے مکان میں زندگی گزاررہے ہوتے۔ اس کوبھی جانے دیجیے۔ بلاول اور مریم بھی اہم صرف پیدا ہونے والے خاندان کی بدولت ہیں۔ بھٹو خاندان اور شریف خاندان کی بدولت آج ان کے پاس ہروہ چیز ہے جواس ملک کے نناوے فیصدلوگوں کے پاس نہیں ہیں۔

اب آپکی توجہ، ہرانسان کی زندگی میں مخصوص حالات میں کوئی ایک فیصلہ کرنے کی استطاعت پر ہے۔ وہی ایک فیصلہ جوصرف اس کی نہیں بلکہ آنے والی سات پشتوں کی تقدیربدل سکتا ہے۔ عجیب بات یہ بھی ہے کہ اس عنصرکاتعلق خاندان، حالات اوردورسے بہت کم ہے۔

اپنے ملک میں کسی شہرکی مثال لے لیجیے۔ چندکاروباری شخصیات ضرور ایسی ملیں گی جوتیس چالیس برس میں غربت سے نکل کر امارات کی بلندی تک پہنچ گئی ہیں۔ اس پوری کہانی میں ایک ایسابنیادی کردار نظر آئیگا جس نے مشکل ترین حالات میں ایک خواب دیکھا، محنت کی اور دوسروں سے آگے نکل گیا۔ سائیکل پرکپڑابیچنے والے آج دس سے بارہ ٹیکسٹائل ملوں کے مالک ہیں۔ اس تمام کامحرک وہ بنیادی فیصلہ ہے جوان لوگوں میں سے کسی ایک نے ہر چیز داؤ پر لگا کر کیا تھا۔

آپ کس خاندان، کس دورانیہ میں، اورکس وقت پیداہوئے ہیں۔ یہ محض اورمحض اتفاق ہے۔ صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ قدرت کافیصلہ ہے۔ بہرحال ترقی کرنے کا فیصلہ آپکے اپنے ہاتھ میں ہے۔ ویسے اس میں بھی تائیدِایزدی کابھی عمل دخل ہے۔ یہ فیصلہ اگر دنیاکوبل گیٹس دے سکتاہے، ایپل کمپنی کاسٹیوجوبز دے سکتا ہے، ہمارے ملک کوستارایدھی دے سکتا ہے توآپکوبھی اسطرح کا ذاتی فیصلہ کرنے کاحق اور اختیارہے۔ کوشش کیجیے۔ کہیں نہ کہیں کامیابی آپکاانتظارکررہی ہے۔