Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Hamsaya Mumalik Se Paidar Aman Qaim Kijiye

Hamsaya Mumalik Se Paidar Aman Qaim Kijiye

افغانستان دنیا کے پرسکون ترین ممالک میں آتا تھا۔ کابل ایک جیتا جاگتا، ہنستا ہوا شہر تھا۔ جہاں پوری دنیا سے سیاح آتے تھے۔ خواتین اپنی مرضی سے تعلیم حاصل کرتی تھیں۔ مغربی لباس پہنیں یا مشرقی، کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں تھی۔ جرائم نہ ہونے کے برابر تھے۔

افغانستان دنیا کے شانہ بشانہ بڑے سلیقہ سے چلنے کی استطاعت رکھتا تھا۔ ویسے پاکستان بھی بالکل ایسا ہی تھا۔ دنیا کے لیے ایک حیرت کدہ۔ علم، ترقی اور جدیدیت سے بھرپور ملک۔ ہماری یونیورسٹیوں میں بیرونی طالب علم گنے نہیں جا سکتے تھے۔ ان گنت طالب علم اور طالبات پاکستان کی درسگاہوں میں تعلیم حاصل کرنا اعزاز سمجھتے تھے۔ پھر ہوا کیا۔ افغانستان مکمل قبرستان بن گیا۔

ایک ایسا ملک جس میں آج بیواؤں، یتیموں اور اپاہج لوگوں کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ جہاں کوئی ایسی یونیورسٹی، اسکول، کالج یا اسپتال نہیں ہے جو بین الاقوامی معیار کا ہو۔ بین الاقوامی معیار کو رہنے دیجیے۔ خطے کے ملکوں کے معیار کا ہی ہو۔ افغانستان آج کے دور میں بھی پتھر کے زمانے میں جی رہا ہے یا جینے پر مجبور ہے۔ 2021میں اگر افغانستان کو تجزیاتی نظر سے دیکھیں تو جنگ اور بربادی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آئے گا۔

لوگ کہتے ہیں کہ افغانستان بین الاقوامی طاقتوں کا قبرستان ہے۔ مگر طالب علم کی نظر میں یہ صرف ایک بہت بڑا قبرستان ہے جس میں انسانی زندگی صرف سانس لینے تک محدود ہے۔ عام لوگ، ہوائی جہازوں کے ٹائروں سے لپٹ کر اس عقوبت خانے سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہوئے مر رہے ہیں۔ ہزاروں لوگ بلکہ لاکھوں مرد اور خواتین، بچے اور بوڑھے، اس ملک سے فرار ہونے کے لیے ہرقیمت دینے کے لیے تیار ہیں۔ ویسے امیر افغانی تو بڑی آسانی سے پہلے ہی اپنے ملک سے دورجا کر مغربی دنیا میں بس چکے ہیں۔

سوچئے، آخر اس خطے کی بدقسمتی کی اصل وجہ کیا ہے۔ طالب علم کی نظر میں، اس کی واحد وجہ مسلسل جنگ ہے۔ پائیدار امن کے لیے بڑے فیصلے نہ کرنا ہے۔ کسی بھی دور کی افغانی قیادت کا ملک کی سلامتی کے لیے ہمسایہ ممالک کے لیے کینہ اورنفرت کا کم نہ کرنا ہے۔ ہمسایہ ممالک سے امن قائم نہ کرنا، وہ مہیب غلطی ہے جس کی بدولت آج افغانستان پوری دنیا کے لیے نشان عبرت ہے۔

طالبان تو ابھی صرف ملک پر قابض ہوئے ہیں۔ وہ آج بھی ایک بامقصد، فعال اور پرامن حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہو پائے۔ خون، قتل و غارت کا یہ سلسلہ اب ہمیں بھی لپیٹ میں لے چکاہے۔ یہ جن پاکستان کے کس کس علاقے پر خون برساتا ہے، ابھی یہ سلسلہ ناتمام ہے۔

جب افغانستان کے امن نہ قائم رکھنے کی حماقتوں کو پرکھتا ہوں، تو فطری بات ہے کہ اپنے ملک کی طرف بھی دیکھنا پڑتا ہے۔ اس لیے کہ پاکستان میں بھی غیر متعصب بات کرنے کو ہولناک حد تک کفر بنا دیا گیا ہے۔ گزارش صرف اتنی ہے کہ تعصب کی عینک کوچہرے سے ہٹا کر دیکھیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری ہر حکومت صرف اور صرف جنگ کی تیاری میں مصروف ہے۔ امن کے لیے ٹھوس قدم اٹھانے سے مکمل طور پر گریزاں ہے۔

مکمل تباہی یعنی 1980 سے پہلے افغانی حکومتوں کا بھی یہی حال تھا۔ ان کے حکمران آنے والے خونی طوفان کو دیکھنے میں ناکام رہے تھے۔ اور اب یہی حالت پاکستانی قیادت کی ہے۔ کوئی ایک اہم آدمی یہ کہنے کو تیار نہیں ہے کہ ہندوستان سے ہماری غیر مناسب دشمنی ختم ہونی چاہیے۔ کم کالفظ استعمال نہیں کر رہا۔ اس لیے کہ اس سے لکھنے میں کمی رہ جاتی ہے۔ ہمسایہ ممالک پر نظر دوڑائیے۔ ہمارے بالکل ساتھ ہندوستان ہے۔ ہم اپنے اس ہمسایہ کو تبدیل کر سکتے ہیں؟ بالکل نہیں قطعاً نہیں۔ پھر حل کیا ہے۔

اس کا واحد حل ہندوستان سے دیر پا، ٹھوس اور دور رس امن قائم کرنے میں ہے۔ مگر اس میں اب دو ایسے فریق ہیں، جو امن کی چادر کو قرینہ سے بچھانے سے پہلے ہی تار تار کر دیں گے۔ سب سے پہلے، کیا ہمارے پاس ایسی سیاسی قیادت موجود ہے، جو دراصل "دیوار کے دوسری طرف" دیکھنے کی استطاعت رکھتی ہو۔ کیا ہمارے پاس ایسے سیاسی رہنما ہیں جنھیں ہم حقیقی معنوں میں Statesmanکہہ سکیں؟

دلیل کی بنیاد پرعرض کر رہا ہوں کہ ایسی سنجیدہ قیادت موجود نہیں ہے۔ بعینہ یہی معاملہ ہندوستان میں ہے۔ وہاں کی سیاسی قیادت حد درجہ مضبوط ہے۔ مگر وہ پاکستان کے متعلق کینہ پروری اور غیر متوازن سوچ رکھتے ہیں۔ نریندر مودی کسی طور پر ہمارے ملک کے خلاف کسی بھی منفی کارروائی سے باز نہیں آتا۔ اب حل کیا ہے۔ لازم ہے کہ ملکی قیادت کو اپنی مرضی سے تبدیل تو نہیں کیا جا سکتا۔ نہ یہاں اور نہ ہی وہاں۔ دوسرے لفظوں میں یہ عرض کرنا مناسب ہو گا کہ امن کی پیہم خواہش دونوں ملکوں کی اعلیٰ ترین قیادت کی ذہنی اور فکری استطاعت سے باہر ہے۔

اس کا حل کسی کے پاس نہیں ہے۔ مگر یہ سب کچھ کسی بھی بڑے حادثے کو جنم دے سکتا ہے۔ وہ حادثہ دونوں ملکوں کے لیے اتنا خوفناک ہو سکتا ہے کہ ان کی قیادتوں کو مجبوراً ایک دوسرے کے ساتھ بامعنی مذاکرات کے لیے بیٹھنا پڑے گا۔ یہ حادثہ، اتفاقیہ ایٹمی جنگ، دونوں ممالک میں موجود دہشت گردوں کی کوئی المناک کارروائی، کسی تیسرے فریق کی انگشت زنی اور اس طرح کا کوئی بھی حادثہ یہ سب کچھ عین ممکنات ہیں۔ اس سے دونوں ممالک مفر حاصل نہیں کر سکتے۔

اس سنجیدہ معاملہ کا ایک اور رخ بھی موجود ہے۔ پاکستان میں مسلمان شدت پسند اور ہندوستان میں ان کے غیر سنجیدہ عناصر، امن کے قیام میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ دونوں طرف عوام کے ذہن کو اس عیاری سے ترتیب دیا گیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو تباہ کرنے کے علاوہ کوئی اور بات سوچنے اور سمجھنے سے قاصر ہیں۔ درحقیقت مسلمان اور ہندو شدت پسندی میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ ہمارا مسئلہ اور بھی گھمبیر ہے۔ ہماری معاشی کمزوری کی وجہ سے پوری دنیا ہمارے کسی بھی بیانیے پر بہت کم غور کرتی ہے۔

مغربی ممالک اور متعدد اسلامی ممالک ہمیں دہشت گردی میں ملوث ملک تسلیم کرتے ہیں۔ اکثر مسلمان ممالک ہماری کسی بھی بات کو من و عن تسلیم نہیں کرتے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری، اس نااہلی کا ذاتی فائدہ بعض ممالک اٹھا رہے ہیں مثلاً چین اس لیے کہ اسے ہندوستان کے خلاف ہماری زمین کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے یہی کچھ اب ہندوستان میں ہو رہا ہے۔ امریکا اسے چین کے خلاف کامیابی سے استعمال کر رہاہے۔ تمام مغربی ممالک اب انڈیا کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔ تجارتی مقاصد ایک طرف، مگر معاملہ چین کو سبق سکھانا ہے۔ اس کا کیا مطلب ہوا۔

دونوں ممالک ہندوستان اور پاکستان، دوسری طاقتوں اور اندرونی شدت پسندی کی بدولت امن قائم کرنے سے گریزاں ہیں۔ ذراتاریخ کا صفحہ پلٹ کر تو دیکھیے۔ دوسروں کی لڑائی، ہم دونوں ہمسایوں کو تباہ کر رہی ہے۔ امریکا نے کمال دانائی سے کوئی بھی جنگ اپنے ملک میں داخل نہیں ہونے دی۔ یہی حالت چین کی ہے۔ مگر یہ دونوں ممالک بڑی سفاکی سے ہمارے خطے کو قتل و خون کی ندیوں میں ڈبونے کے لیے تیار ہیں۔ مشکل بات یہ بھی ہے، کہ دونوں ممالک کی قیادت اس خونریزی پر اندر سے مطمئن ہیں۔

ہندوستان میں لوگ مریں، تو ہم لوگ اسے نقصان نہیں سمجھتے۔ پاکستان میں ہزاروں لوگ دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے جائیں تو ہندوستان میں شادیانے بجائے جاتے ہیں۔ کوئی یہ کہنے کی جرات نہیں رکھتا کہ یہ دونوں طرف انسان قتل ہو رہا ہے۔ ایک جیسے لہو کا مالک۔ مگر یہ سچ بولنے والا، اپنے اپنے ملک میں غدار، وطن دشمن کہلائے گا۔ شاید اس کا گھیراؤ جلاؤ بھی شروع ہو جائے۔

سچ بات یہی ہے کہ اگر ہندوستان سے ایک باوقار امن قائم کر لیتے ہیں تو ہمارے اکثرمسئلے حل ہو جائیں گے۔ افغانستان بھی پرامن ہو جائے گا۔ مگر یہ امن والا معاملہ کوئی ہونے نہیں دے گا۔ اس لیے کہ جنگ دنیا کا سب سے منافع بخش کاروبار ہے۔ مگر سوچیے تو سہی، کہ یہ پیسہ کس کی جیب میں جا رہا ہے!