سیول(Seville)جنوبی اسپین کاایک معروف قصبہ ہے۔ اس جگہ کی سب سے بڑی سوغات مالٹے کی حیران کن پیداوارہے۔ مقامی حکومت کے مطابق یہاں صرف مالٹے کے اڑتالیس ہزاردرخت ہیں۔ جوسالانہ چھ ہزارٹن پھل پیداکرتے ہیں۔
متعددکاروباری ادارے یہاں سے مالٹے اُٹھاتے ہیں۔ بین الاقوامی سطح کی پیکنگ کرتے ہیں۔ یوکے اوردیگرممالک میں بھیج دیتے ہیں۔ لیکن سردیوں کے آغازمیں پھل درختوں سے گرنا شروع کردیتے ہیں۔ فٹ پاتھ، سڑکیں اور گزرگاہوں کوحددرجہ خراب کردیتے ہیں۔ مقامی حکومت کوتین سوملازم رکھنے پڑتے ہیں جو شہر کوگلے سڑے مالٹوں سے محفوظ رکھیں۔ یہاں پانی کوصاف رکھنے والی کمپنی ایماسیسا(Emasesa)نے ایک محیرالعقول کارنامہ انجام دیا۔
گلے سڑے مالٹوں سے بجلی بنانے کا کامیاب تجربہ۔ یہ2021میں ہواہے۔ پھلوں سے بنی ہوئی بجلی ابتدائی طورپرپانی کوصاف رکھنے والے پلانٹس میں استعمال کی جارہی ہے۔ شروع شروع میں ایماسیسانے صرف پینتیس ٹن ضایع شدہ مالٹے استعمال کیے تھے۔ یہ بھی تیاری کی جارہی ہے کہ شہرکے تہترہزارگھروں کو انھی مالٹوں سے بجلی فراہم کی جائے۔ ٹیکنیکل پیچیدگیوں میں جائے بغیر، گلے سڑے پھلوں سے بجلی پیداکرنے کے اس کامیاب تجربہ نے مقامی شہریوں کی زندگی مزید آسان کردی ہے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ پوری دنیا سے انجینئراورسائنسدان اس شہرمیں آکر، بجلی پیدا کرنے کے اس اَچھوتے کارنامہ کودیکھنے آرہے ہیں۔ مقامی ہوٹلوں میں سائنسدانوں کے ٹھہرنے کے لیے کمرے کم پڑگئے ہیں۔ وہاں کی مقامی حکومت اوراسکے ذیلی ادارے، انتہائی کامیابی سے یہ کمال کام سرانجام دیتے جارہے ہیں۔ یہ تجربہ کوئی پرانا نہیں، بلکہ اسی سال کا ہے۔ حیرت انگیز کام۔ دیگر قوموں کے لیے اچھوتاسبق۔
آگے چلیے۔ کوروناکی تباہ کاریوں سے کوئی بھی محفوظ نہیں۔ ہرجگہ یہ وائرس موت پھیلارہا ہے۔ مگر ہانگ کانگ کی سائنس اورٹیکنالوجی یونیورسٹی نے ایک اسپرے ایجادکیاہے جس میں ایسے پولی مراستعمال کیے گئے ہیں جونوے دن کے لیے ایک حفاظتی تہہ بنادیتے ہیں۔ یعنی اس اسپرے کواستعمال کرنے کے تین ماہ تک کورونا وائرس کسی صورت میں اس جگہ پرپنپ نہیں سکتا اور انسان اسے چھونے سے کورونامیں مبتلا نہیں ہوتا۔ اسی سے ملتا جلتا کام، اسرائیل کی بن گورین یونیورسٹی میں بھی ہورہا ہے۔ جہاں انتہائی مہین نینومیٹل کوٹنگ (Nano Metal)سے تمام مقامات کووائرس سے محفوظ بنا دیا گیاہے۔
یہ اسپرے اورکوٹنگ، وائرس کی تباہ کاریوں سے بچنے میں حددرجہ معاون ہوئی ہیں۔ اب مدت تین ماہ سے بڑھ کرسال تک لے جائی جا رہی ہے۔ یعنی اسپرے، کسی بھی جگہ کو بارہ ماہ تک کورونافری بنا دیگا۔ اسرائیل وہ واحدملک ہے جس نے اپنی پوری قوم کوکوروناسے حددرجہ محفوظ کرلیا ہے۔ دوائی بنانے سے لے کرکووڈانجکشن تک، اسرائیل پوری دنیامیں سب سے آگے ہے۔ اب یہ نیا ایجاد شدہ اسپرے ان کے گھروں، کارخانوں، دفتروں اورہربازاروں کو ایک سال کے لیے مکمل محفوظ کردیگا۔ یہ سب کچھ 2021میں سرانجام ہواہے۔
پورے مغرب میں ڈپریشن، حددرجہ سنجیدہ بیماری ہے۔ ہرسال، تقریباًنو لاکھ لوگ، صرف اس بیماری کی وجہ سے خودکشی کرلیتے ہیں۔ امریکا میں سائنسدانوں نے اسکامنفردعلاج تلاش کیاہے۔ جواانسان کودوائیوں سے مبراکردیتا ہے۔ Psychobioticsجرثومہ کی ایک قسم ہے۔ جب اسے ذہنی دبائوکے مریضوں میں داخل کیاگیا، توصرف چنددنوں میں وہ تمام مریض ڈپریشن سے نکل آئے۔ جوہروقت مرنے کے متعلق سوچتے رہتے تھے۔ جن پرہرطرح کی دوائیاں اثر کرنا چھوڑچکی تھیں۔ اس جرثومے کی بدولت دوبارہ زندگی کے کارآمدسفرمیں شامل ہوگئے۔
دنیامیں ہرسال381ملین ٹن، استعمال شدہ پلاسٹک پیداہوتی ہے۔ اگلے دس برسوں میں یہ مقداردگنی ہوجائیگی۔ یعنی2034تک تقریباً سات سوٹن پلاسٹک ویسٹ کرہِ اَرض پرموجود ہوگی۔ اس میں ہرطرح کافضلہ شامل ہے۔ شاپر، بوتلیں، سرنجیں اور دیگراشیاء پوری دنیاکے ماحول کوبربادکررہی ہیں۔ یہ صرف زمین پرنہیں، بلکہ سمندروں کوبھی خراب کررہی ہیں۔
ایک پلاسٹک شاپرجن میں ہم دھڑلے سے چیزیں خریدکرلاتے ہیں، اسے پانچ سوسال تک کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ یعنی صرف ایک پلاسٹک بوتل، پانچ سو سال تک آلودگی میں اضافہ کرتی رہتی ہے۔ مگرآفرین ہے اس صدی کے سائنسدانوں پر۔ انھوں نے ایسے Bio Engineeredکیڑے بنائے ہیں جو پلاسٹک کے فضلہ کوکامیابی سے کھاتے ہیں۔ انھیں Polymer سےMonomers بنا دیتے ہیں۔ جسے بڑی آسانی سے Recycle کیا جاسکتا ہے۔ اس سے منسلک جدیدکمپنیوں کی تحقیق کے مطابق پلاسٹک کے فضلہ سے تیل بنایاجاسکتاہے۔ اس جدیدکامیاب تجربے میں چاربڑی کمپنیاں سرِفہرست ہیں۔
پاورہاؤس انرجی، ایگی لکس کارپوریشن، اینقسدربازانرجی اور پلاسٹک ٹوآئل شامل ہیں۔ یعنی اب تیل کے ذخائراپنی جگہ۔ مگرپلاسٹک سے آئل بنانے میں کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ بالکل اسی طرح دنیامیں سالانہ تقریباًایک بلین ٹن غذاضایع ہورہی ہے۔ اس میں زیادہ ترمغربی ممالک ہی شامل ہیں۔ کارنیل یونیورسٹی کے محققین نے اس ضایع شدہ غذاسے تیل بنانے کاکامیاب تجربہ کرلیا ہے۔ استعمال شدہ پلاسٹک سے لے کرضایع شدہ غذاتک کوئی بھی چیزاب بیکارنہیں رہے گی۔
ہالینڈکے ایک شہر، روٹرڈیم میں چندسائنسدان مل بیٹھے۔ انھیں اندازہ تھاکہ یہ شہر، سطح سمندرسے کافی نیچے ہے۔ سطح سمندرسے نیچے ہونے کی بدولت ہالینڈ کے اکثرشہربھی پانی سے تباہ ہونے سے مسئلہ کاشکار ہیں۔ ویسے بھی وہاں زمین اتنی کم ہے کہ پیداوارکو بڑھانابہت مشکل ہوچکاہے۔ ان سائنسدانوں نے سمندرکے پانی پرتیرنے والے فارم بنانے کااچھوتا تجربہ کیا۔
Beladonنام کی کمپنی نے سرمایہ فراہم کیا اورپھرسمندرکے پانی پرتیرتے ہوئے جدیدترین فارم وجودمیں آگئے۔ سب سے پہلے یہاں بھینسوں اورگائے کاایک گروہ رکھاگیا۔ پانچ ہزارمربع فٹ پرمشتمل یہ ڈیری فارم اتناکامیاب ہواکہ پوری دنیامیں اس کی نقل کی گئی۔ وہاں ایک گائے سے روزانہ پانچ لیٹردودھ لیاجاتا ہے۔ پورے فارم میں ہرچیزمکینیکل ہے۔ انسان کا کوئی کام ہی نہیں ہے۔ ربورٹس اورمشینیں جانوروں کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ بالکل اسی طرح فصل اُگانے کے لیے بھی انھی آبی فارمزکواستعمال کیاجارہاہے۔
اسپین کے ایک آرکیٹکٹ نے ایک ایساڈیزائن بنایاہے جس سے سطح سمندرپرموجودفارم انتہائی سستے طورپربن جائینگے۔ بلکہ ان سے بہت زیادہ فصلیں بھی حاصل کی جاسکیں گی۔ سمندروں کوٹھنڈاکرنے کی ٹیکنالوجی، فضاسے کاربن جذب کرنے کانظام، نئی انٹی بائیوٹکس، تھری ڈی غذائی پرنٹنگ، تھری ڈی باڈی پرنٹنگ، نمک سے بنی ہوئی بیٹریاں، میرے سامنے جدیدایجادات اورتحقیق کی طویل فہرست موجودہے۔
یہ تمام ایجادات مغربی ممالک میں ہوئی ہیں۔ یہ وہ تکلیف دہ نکتہ ہے جس پرہمارے نظام میں بات کرنی اَزحدمشکل ہے۔ صرف دس بارہ مہینے کی نایاب ایجادات کرنے والوں میں ایک بھی مسلمان ملک نہیں ہے۔ ایک بھی مسلمان محقق اورسائنسدان نہیں ہے۔ یعنی پچاس مسلم ممالک اوردوارب مسلمانوں کاان جدتوں سے کسی قسم کاکوئی واسطہ نہیں۔ کیامسئلہ مالی وسائل کی کمی کاہے۔ ہرگزنہیں۔ مشرقی وسطیٰ میں دنیاکی امیرترین مسلمان ریاستیں ہیں۔ مگر تمام پرتعیش چیزوں کے باوجود، یہ لوگ سائنس کے لیے ایک ٹکہ بھی خرچناغیراہم سمجھتے ہیں۔
ان لوگوں کوجدیدتحقیق سے کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے۔ یہی حال ہمارے ملک کاہے۔ جدیدتحقیق اور سائنس ہمارے لیے بیکارسی چیزیں ہیں۔ کمال یہ بھی ہے کہ ہمیں اپنی جہالت پرفخر ہے۔ دنیاسائنس کوگلے سے لگاکربرق رفتاری سے عام لوگوں کے لیے سہولتیں پیداکررہی ہے۔ اورہم خراٹے مارمارکراَذلی نیندسوئے ہیں۔ شایدجدیدتحقیق توکافروں کاکام ہے۔ ہمارے جیسے مسلمانوں کابھلااس موئے کام سے کیاتعلق!