حضور احمد حضور بنیادی طور پر زراعت کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ ایگریکلچر یونیورسٹی، فیصل آباد سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد، زراعت ڈیپارٹمنٹ میں پوری زندگی گزار ڈالی۔ اس وقت کیا عمر ہو گی تقریباً پچھتر برس۔ آج بھی یہ شخص، پیرانہ سالی میں اپنے آپ کو کافی مصروف رکھتا ہے۔
ورلڈ بینک کے لیے رپورٹیں لکھنا، مختلف زرعی منصوبوں میں معاونت کرنا، سب کچھ زندگی کا حصہ ہے۔ حضور احمد حضور جب میرے ساتھ ایک ضلع میں کام کر رہے تھے تو میرا ان کا تعلق واجبی سا تھا۔ سرکاری اور بے جان سا۔ ریٹائر منٹ کے بعد بھی کبھی ملاقات نہ ہو پائی۔ چند ماہ پہلے سے رابطہ شروع ہوا اور وہ بھی عجیب طرح سے۔ ایک دن حضور احمد حضور میرے پاس گھر آئے تو انھوں نے حد درجہ محیر العقول باتیں کیں۔ حضور احمد کہنے لگا آپ یہ کالے رنگ کے مکوڑوں کے متعلق کیا جانتے ہیں۔
گزارش کی کہ کچھ بھی نہیں۔ صرف اتنا کرتا ہوں کہ اگر پیدل چل رہا ہوں اور کالے رنگ کے کیڑے زمین پر نظر آئیں، تو ان پر پیر بالکل نہیں رکھتا۔ حضور احمد نے میرے جواب کے بعد کہا۔ کہ یہ کالے مکوڑے حد درجہ ذہین ہوتے ہیں۔ ان کی اپنی زبان ہے۔ ان کے مخصوص رویے ہیں۔ یہ زندہ رہنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ ان میں مکمل نظم و ضبط موجود ہے۔
دوست دشمن کی پہچان بھی حد درجہ قائم ہے۔ یہ دوست بن جاتے ہیں۔ اور کبھی کسی کو تنگ نہیں کرتے۔ میرے لیے یہ تمام معلومات ہی معلومات تھیں۔ حضور احمد کہنے لگا کہ اس کے کمرے میں ایک بل ہے جس میں یہ مکوڑے رہتے ہیں۔ روزانہ بل کے باہر ان کے کھانے پینے کے لیے چند غذائی اشیاء ڈال دیتا ہے۔ شروع شروع میں بل سے باہر کوئی نہیں نکلتا۔ پھر ایک مکوڑا باہر آ کر ماحول کا پورا جائزہ لیتا ہے۔ جب اسے یقین ہو جاتا ہے کہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ تو بل میں دوبارہ گھس کر دیگر کیڑوں کو اطلاع کرتا ہے۔
اس کے بعد درجنوں مکوڑے باہر نکل کر لائن بناتے ہیں۔ اور کھانے پینے کی اشیاء کو محفوظ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ انتہائی احتیاط سے انھیں بل میں لے کر چلے جاتے ہیں۔ معاملہ یہاں تک نہیں رکتا۔ پھر انھیں مکوڑوں میں سے چند تحقیق کرتے ہیں کہ یہ غذا کون دے رہا ہے۔ یہاں سے حضور احمد کا ذاتی کردار شروع ہوتا ہے۔ مکوڑوں کو جب یقین ہوتا ہے کہ یہ غذا حضور احمد دے رہا ہے اور یہ انکا دشمن نہیں ہے۔ تو پھر اس کے دوست بن جاتے ہیں۔
اسے بالکل نہیں کاٹتے۔ حضوراحمد نے تو مجھے یہاں تک بتایا کہ مکوڑوں کی ایک ٹیم دن رات اسے غور سے دیکھتی رہتی ہے۔ اگر وہ کسی بھی وجہ سے بے چین ہو، یا بستر پر کروٹیں بدل رہا ہوں۔ تو یہ مکوڑے بھی بے چین ہو کر لائن میں گھومنا شروع کر دیتے ہیں۔ انھیں کیسے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا بزرگ دوست، بے سکونی میں ہے، اس کا جواب صرف یہ ہے کہ یہ مکوڑے اپنے دماغ کے حوالے سے سوچتے ہیں۔ معاملات کو سمجھتے ہیں اور پھر ان مسائل کو اپنی عقل کے حساب سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مجھے یہ تمام باتیں اجنبی سی لگیں۔ ایسے لگا کہ ان میں مبالغہ شامل ہے۔ مگر جب تصدیق کی۔ یہ تمام حقائق بالکل درست تھے۔ حیران ہو چکا ہوں کہ کیڑے مکوڑے تک انسانی رویوں کو سمجھتے ہیں۔ اب دوسری بات سنیے، بلکہ غور سے سمجھئے۔ حضور کہتا ہے کہ اس کے گھر میں بھڑوں کا ایک چھتہ ہے۔ اس میں ان گنت پیلے رنگ کی بھڑیں موجود ہیں۔ حضوراحمد کی تحقیق کے مطابق ان کا انسانوں سے رویہ بھی قابل توجہ ہے۔ اس کے بقول اگر آپ انھیں غصہ نہ دلائیں، چھیڑ چھاڑ نہ کریں تو ان کا رویہ انتہائی دوستانہ ہو جاتا ہے۔
بھڑوں کے چند گروہ، صرف اور صرف اردگرد کے ماحول کا جائزہ لیتے رہتے ہیں۔ اگر انھیں خطرے کا اندازہ ہو جائے تو یہ فوراً چھتے میں واپس چلے جاتے ہیں۔ اور پھر خطرے کی مطابقت سے اپنا ردعمل ترتیب دیتے ہیں۔ جیسے اگر چھتہ گرانا چاہتے ہیں۔ تو بھڑیں فوراً جمع ہو کر آپ پر حملہ کر دیتی ہیں۔ اس کے برعکس اگر انھیں اندازہ ہو جائے کہ ان کے نزدیک کوئی دشمن نہیں ہے تو بھڑوں کے دو تین گروہ بڑے اطمینان سے اردگرد کا معائنہ کرنے کے بعد کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتے۔ حضور احمد کہتا ہے کہ اس کی ان پیلی بھڑوں سے بھی بہت دوستی ہے۔
اور اپنے گھر میں انتہائی دوستانہ ماحول میں رہتے ہیں۔ پیلی بھڑیں جان چکی ہیں کہ یہ شخص نہ انھیں نقصان پہنچائے گا، اور نہ ہی چھتہ کو توڑے گا۔ لہٰذا اس کو بھی کوئی نقصان نہیں پہنچانا چاہیے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ جب بھی حضور احمد گھر سے باہر نکلتا ہے تو یہ پیلی بھڑیں، پالتو پرندوں کی طرح اس کے پیچھے پیچھے اڑتی رہتی ہیں۔
جب گاڑی میں بیٹھ جاتا ہے تو اسے باقاعدہ الوداع کہہ کر واپس چلی جاتی ہیں۔ اس طرح حضور احمد مجھے مختلف پرندوں اور جانوروں کے متعلق بھی تفصیل سے بتاتا رہا کہ کس طرح یہ اس پر اعتماد کرتے ہیں اور اس کا خیال رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حضور احمد کی باتیں بہت غور سے سنتا ہوں۔ اور پھر ان کی تصدیق بھی کرتا ہوں اور سائنس کے اعتبار سے کیڑے مکوڑوں، پرندوں اور جانوروں کے رویوں کو پرکھتا بھی ہوں۔ یہ باتیں مکمل طور پر درست ہیں۔
اگر صرف کیڑے مکوڑوں کی ہی بات کی جائے۔ تو اس پر سائنس کا پورا شعبہ جسے Entomology کہا جاتا ہے، موجود ہے۔ یہ علم پاکستان کی مختلف درس گاہوں میں پوسٹ گریجویٹ سطح پر بھی پڑھایا جاتا ہے۔ اس کے آگے دیگر شعبے ہیں جس میں Cultural entomologyبھی شامل ہے- مختلف کیڑے مکوڑے صدیوں سے انسانی زندگی سے منسلک ہیں۔
زندگی کا کوئی شعبہ بھی ان سے مبرا نہیں۔ ہمارا ecosystem ان کی بدولت قائم ہے۔ اگر یہ توازن خراب ہوجائے تو کرہ ارض پر انسانی زندگی ختم ہو سکتی ہے۔ Alfred Russel، وا لٹر بیٹس، ، Hens Zinsser، Chalres Hagua، Fredrik simon اور ان گنت ایسے سائنس دان ہیں جنھوں نے کیڑے مکوڑوں اور انسانی زندگی کے مابین توازن پر حد درجہ تحقیقی کتابیں لکھی ہیں۔ غذا سے لے کر دوائیاں، سائنسی تحقیق سے لے کرکپڑوں تک، بہت سے شعبے ہیں جو صرف ان بے ضرر کیڑوں کی مرہون منت چل رہے ہیں۔
یہ تاریخی داستانوں کے اندر بھی موجود ہیں۔ آرٹ اور لٹریچر پر بھی حاوی ہیں۔ مگر ایک ایسے معاشرے میں جس میں بائیس کروڑ لوگ ایک دوسرے کو بھیڑیوں کی طرح چیرپھاڑ رہے ہوں۔ بقول احمد فراز، جو سجدوں میں بھی ایک دوسرے کا برا چاہتے ہوں۔
اس سماج میں کیڑے مکوڑوں کی اہمیت پر بات کرنا حد درجہ نامناسب ہے۔ یہاں تو دلیل اور منطق پر کوئی اپنے خونی رشتوں کی بات نہیں سنتا۔ دوسرے کو برداشت نہیں کرتا۔ مگر اس معاشرے میں حضور احمد حضور جیسے درد دل رکھنے والے مختصر سے لوگ بھی ہیں جو قدرت کے ان کرشموں پرغور کرتے ہیں۔ اور ان کے ساتھ مل کر رہناچاہتے ہیں۔ ویسے ہم جیسے بیکار اور بے مغز لوگ شاید کیڑے مکوڑوں سے ہی کچھ سیکھ لیں! مگر یہ ممکن نہیں ہے۔ اس کی کوئی امید بھی نہیں ہے!