تیس جولائی 1971 کو جاپان میں نیپون ایئرلائنز کا بوئنگ طیارہ ایک سوباسٹھ مسافروں کے ساتھ چٹوسی ایئرپورٹ سے فضا میں بلند ہوا۔ ہوئی جہاز ٹوکیو کی طرف روانہ تھا۔ کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ موسم بالکل صاف و شفاف تھا۔ پائلٹ نے مسافروں کو بتایا کہ ٹوکیو کے ایئرپورٹ پر موسم بالکل ٹھیک ہے۔ ایک گھنٹے میں بڑے آرام سے ٹوکیو پہنچ جائیں گے۔
جب ہوائی جہاز، ایلپس(Alps) کے اوپر پہنچا۔ تو جاپان کے دو جنگی ہوائی جہاز وہاں فضائی گشت میں مصروف تھے۔ دونوں سیبر طیارے انتہائی مشاق ایئرفورس پائلٹ اڑا رہے تھے۔ ایک سیبرجہازیوشیمی اچی کارا اڑا رہا تھا۔ ان دونوں جنگی جہازوں میں ریڈار نہیں تھے۔ ریڈار کی غیر موجودگی میں دونوں جنگی جہازوں کو اندازہ نہ ہو سکا کہ ایک مسافر طیارہ ان کے نزدیک آچکا ہے۔
یوشیمی کا سیبرجہاز پوری قوت سے بوئنگ طیارہ سے ٹکرا گیا۔ ایک ہولناک دھماکا ہوا اور بوئنگ کے 162 مسافر ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئے۔ ایک بھی انسان زندہ نہ بچ پایا۔ یہ جاپان کی فضائی تاریخ کا سب سے ہولناک حادثہ تھا۔ وجہ صرف یہ کہ جاپانی جنگی جہازوں میں ریڈار نہیں تھا۔ لہٰذا حادثہ کی کسی قسم کی وارننگ کسی پائلٹ کو بھی نہ مل سکی۔
انسانی زندگی بھی بالکل ایسی ہی ہوتی ہے۔ کسی بھی بڑے واقعہ، حادثہ یا سانحہ کا پتہ اکثر اوقات اس لیے نہیں چلتا، کہ وہ انسان خدا کی طرف سے دیے گئے اپنے دماغی ریڈار کو استعمال نہیں کرتا۔ دیکھ ہی نہیں پاتاکہ اس کے سامنے جو کچھ ہو رہا ہے، وہ کسی بھی قیامت کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ خاندانی زندگی بھی بالکل اسی طرز کی ہوتی ہے۔
اگر خاندان کا سربراہ یا خاتون خانہ، اپنی اولاد کے لیے ہر وقت چوکنے نہ رہے اور ان پر ہر طرح کی روک ٹوک بند کر دے، تو وہ خاندان بھی ریڈار کے بغیر زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔ جس کا نتیجہ اولادیا کسی بھی اہلخانہ کی مہیب غلطی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ قدرت کا قانون، والدین کو اپنی اولاد کے لیے زمینی خدا کا درجہ عنایت کرتاہے۔ اور اگر یہی سب سے قیمتی اور عظیم رشتہ مکمل لا تعلقی میں بدل جائے تو کسی بھی طرح کا انہونا حادثہ ہو سکتا ہے۔
نور مخدوم اور ظاہر جعفر کے معاملہ میں بھی یہی کچھ ہوا ہے۔ ظاہر جعفر کے والد بہت بڑے بزنس مین ہیں اور والدہ آدم ایک اہم سماجی شخصیت ہیں۔ بیٹا، ظاہر جعفر متعدد وجوہات کی بنا پر ذہنی بیماریوں کا شکار ہوتا چلا گیا۔ شیزوفرینیا جیسی خطرناک بیماری کا مریض ہونے کے باوجود، والدین نے اسے ایک مقامی کلینک میں وقتی علاج کے لیے بھجوانے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ ظاہر جعفر کو اسلام آباد میں اپنے والد کا بہترین گھر بھی میسر رہا تھا۔ بیماری کے ساتھ ساتھ، ظاہر منشیات سرعام استعمال کرتا رہا۔
اس میں کوک اورآئس سر فہرست ہیں۔ گھر کے اندر بھی حد درجہ اشتعال میں رہتا تھا۔ اپنے دوستوں میں اس کی شہرت یہ تھی کہ متعدد بار ان سے بھی بلا وجہ مار پیٹ شروع کر دیتا ہے۔ ذہنی پاگل پن، منشیات اور کھلا پیسہ، سب کچھ ظاہر جعفر کے پاس تھا۔ والد اور والدہ نے کبھی اسے مستقل بنیادوں پر کسی علاج گاہ میں داخل نہیں کروایا۔ منفی حرکتوں کے حوالے سے کبھی بیٹے کو سرزنش کا نشانہ نہیں بنایا۔ نور مخدوم، کافی عرصہ سے ظاہر شاہ کی گرل فرینڈ تھی۔ اس کا ان کے گھر پر ہر وقت آنا جانا عام تھا اور وہ طویل وقت کے لیے ظاہر کے گھر قیام کرتی تھی۔
یہ بات ظاہر کے والدین کے بالکل علم میں تھی۔ مگر انھوں نے اپنے پاگل برخوردار کو بالکل نہیں روکا۔ امیر گھرانے میں یہ رواج آج بھی ہے کہ بچوں کی ذاتی زندگی کو ذاتی کہہ کر انھیں کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ والد، جعفر اور والدہ آدم کی یہ مجرمان غفلت تھی۔ جس کی بدولت ایک اندوہناک قتل ہوا اور دو خاندانوں پر قیامت گزر گئی۔
مگر نور مخدوم کے قتل کا ایک دوسرا رخ بھی ہے جس پر کوئی قلمکار، دانشور یا سماجی تنظیم بات کرنے کے لیے تیار نہیں۔ نور مخدوم کا قتل، خون ناحق ہے۔ اس کا کسی قسم کا کوئی اخلاقی، مذہبی بلکہ کسی قسم کا کوئی جواز نہیں۔ مگر میرے سوال پر ناراض ہوئے بغیر ٹھنڈے دل سے غور ضرور فرمائیے گا۔
نور کے والدین پڑھے لکھے اور صاحب ثروت لوگ ہیں۔ نور اکثر اوقات ظاہر کے گھر جاتی رہتی تھی۔ قیام بھی کرتی تھی۔ کیا نور مخدوم کے والدین نے اپنی بیٹی سے پوچھا کہ تم وہاں اتنا کیوں جاتی ہواور اتنی دیر تک کیوں رہتی ہو؟ ان کے علم میں تھا کہ ظاہر جعفر مہلک ذہنی مرض میں مبتلا ہے۔ اس کا رویہ حد درجہ ادنیٰ ہے۔ ظاہر کے منشیات استعمال کرنے کے قصے بھی تمام دوستوں کے علم میں تھے۔
مگر کیا مخدوم صاحب یا ان کی اہلیہ نے اپنی بیٹی کو منع کیا۔ کہ وہ ظاہر جعفر کے گھر نہ جایا کرے؟ اگر وہ اپنی بیٹی پر سختی کرتے اور اسے ظاہر کے گھر جانے سے مکمل روک دیتے، تو شائد یہ المناک واقعہ نہ ہوتا۔ مگر قرائن یہی بتاتے ہیں کہ جس طرح ظاہر کے والدین نے اپنے درندے بیٹے کو سماج میں آزاد چھوڑ دیا۔ بالکل اسی طرح، نور مخدوم کے بزرگوں نے اپنی خانگی ذمے داری کو پس پشت ڈالے رکھا۔
بغیر روک ٹوک کے اگر نور، ظاہر جیسے جنونی کے گھر جاتی رہی اور اسے کسی نے بھی نہیں روکا، تو آپ خود فیصلہ کریں کہ کیا دونوں اطراف کے خاندان، اپنی ذمے داری ادا کرنے میں کامیاب رہے یا ناکام؟ المیہ یہ ہے کہ دولت مند طبقہ میں خانگی روک ٹوک کا رواج اب دقیانوسی سمجھا جاتا ہے۔ والدین کا اپنی اولاد پر سماجی کنٹرول، امیر طبقہ میں مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔
اب تووالدین کی اکثریت اپنی جوان اولاد سے یہ پوچھنے کا تکلف بھی نہیں کرتے، کہ آپ موبائل فون پر گھنٹوں کس سے بات کر رہے ہو یا کر رہی ہو۔ پوچھ گچھ کا وطیرہ جو ہمارے سماج کی سب سے بڑی خوبصورتی تھی، کب کا دم توڑ چکا۔
لاہور میں ایک نجی یونیورسٹی میں ایک سیمینار میں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں اساتذہ نے تفصیل سے بتایا کہ یونیورسٹی میں بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کا کلچر بالکل عام ہے۔ انھوں نے بتایا کہ یہ تعلق ادارے میں نوے فیصد لڑکے اور لڑکیوں میں کسی نہ کسی طور پر موجود ہے۔ یقین فرمائیے۔ مجھے بالکل یقین نہیں آیا۔ مگر چند دن پہلے ایک نجی یونیورسٹی کے طالب علم نے بالکل یہی کچھ بتایا۔ جب بتایا جا رہا تھا تو میرا پورا جسم سن ہو گیا۔ کیا غیرقانونی اختلاط اتنی آزادی سے ہو سکتا ہے۔ اور وہ بھی ہمارے معاشرے میں؟ مگر سند سے عرض کر رہا ہوں۔
امیر متوسط اور غریب طبقہ کے سماجی طرز عمل میں بہت کم فرق رہ گیا ہے۔ والدین کا بچوں پر کنٹرول اب صرف دکھاوا سا نظر آتا ہے۔ نور مخدوم اور ظاہر جعفر کے المیے نے ہمارے سماجی روایات کی بربادی پر مہر لگا دی ہے۔ والدین کدھر ہیں۔ وہ کیوں اپنی اولاد پر کڑی نظر نہیں رکھ رہے؟
ایسا لگتا ہے کہ جاپانی جنگی جہاز کی طرح والدین کے پاس وہ ذہنی ریڈار نہیں ہیں جس سے اولاد کے چال چلن کو ہر وقت پہچان سکیں اور ان کو ممکنہ حادثے سے محفوظ رکھ پائیں۔ شاید، انھوں نے اپنے فکری ریڈار کو بند کر دیا ہے اور اولاد کو وقت کے حوادث کے حوالے کر ڈالا ہے۔