ملالہ یوسف زئی، مینگورہ میں پیدا ہوئی۔ سوات میں واقع یہ چھوٹا سا شہر درمیانے درجہ کا سیاحتی مرکز ہے۔ 1997میں یوسف زئی کے گھر پیدا ہونا ایک ادنیٰ سا قدرتی عمل تھا۔ معمولی حیثیت کے ایک ٹیچر کے ہاں پیدا ہونے میں بھلا کیا بڑائی ہے۔ وہ بھی ایک پرائیویٹ اسکول چلانے والا شخص جو بچیوں کی تعلیم کے معاملے میں حد درجہ سنجیدہ تھا۔
ویسے پیدا ہونے کے لیے ستر کلفٹن یا جاتی امرا جیسے پوسٹل ایڈریس بہترین ہیں۔ کسی بھی اہلیت، محنت اور کوشش کے ہر دنیاوی نعمت اور اقتدار آپ کو وراثت میں مل جاتا ہے۔ مگر ملالہ اس معاملہ میں بالکل خوش قسمت نہیں تھی۔ خوشحال اسکول اور کالج تو یوسف زئی چلاتا تھا۔ اور یہیں سے ملالہ نے اپنی تعلیم شروع کی۔
یہ درسگاہ بھی کسی اعتبار سے بھی اعلیٰ نہیں کہی جا سکتی۔ 2007 میں مولانا فضل اللہ نے سوات پر اپنے شدت پسند گروہ کا تسلط قائم کر لیا۔ ابتدائی احکامات میں بچیوں کے اسکول بند کرنا، خواتین کو زندگی کے ہر میدان سے باہر نکالنا شامل تھے۔ ملالہ اب گیارہ برس کی تھی۔ یکم ستمبر 2008 کو یوسف زئی، اپنی بچی کو پریس کلب پشاور لے گیا۔ وہاں اس بچی نے اپنی زندگی کی پہلی تقریر کی۔ لب لباب یہ تھا کہ طالبان کیسے اور کیونکر بچیوں سے تعلیم حاصل کرنے کا حق چھین سکتے ہیں۔
تقریر پورے پاکستانی پریس میں شایع ہوئی۔ اچانک ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے ملالہ پر قسمت کے کئی در کھول دیے اور ساتھ ساتھ بدقسمتی کے کئی غار بھی کھود ڈالے۔ بی بی سی کو انتہا پسندوں کے زیرتسلط رہنے والے ایسے انسانوں کی ضرورت تھی جو ان کے ادارے میں رپورٹنگ کا کام کر سکیں۔
چنانچہ ملالہ نے بی بی سی اردو کے لیے لکھنا شروع کر دیا۔"گل مکھی" کے قلمی نام سے جنوری 2008سے مارچ تک پینتیس بلاگ لکھے۔ اسی اثناء میں فضل اللہ کے گروہ نے سوات میں ایک سو بچیوں کے اسکول بم سے اڑا دیے۔ ان دھماکوں کے عین درمیان یہ بچی اردو میں بلاگ لکھتی رہی۔ اس کا محور صرف ایک تھا کہ دہشت گردوں کو بچیوں کی تعلیم کے قانونی حق سے محروم کرنے کا کوئی اختیار نہیں۔ یہ وہی وقت تھا جب دہشت گرد پاکستانی شہریوں کو سوات کے چوکوں میں ذبح کر رہے تھے۔ مگر ملالہ گھبرائے بغیر مقامی اور بین الاقوامی میڈیا میں کھل کر شدت پسندوں کے خلاف باتیں کرتی تھی۔ تھوڑے سے عرصے میں اکثر لوگ اسے جاننا شروع ہو چکے تھے۔
2011 میں ملالہ کو پاکستان کا نیشنل یوتھ امن ایوارڈ دیا گیا۔ اسی سال اسے ڈیسمنڈ ٹوٹو امن انعام بھی دیاگیا۔ یہ صورت انتہا پسندوں کے لیے ناقابل قبول تھی۔ کہاں جناب فضل اللہ جیسا "جہادی لیڈر" اور کہاں بارہ برس کی بے عقل بچی! چنانچہ فیصلہ ہوا کہ اسے قتل کر دیا جائے۔ ملالہ کو اسکول سے واپسی پر انتہا پسندوں نے ویگن سے نکال کر سر میں گولی ماری۔ انھیں یقین تھا کہ وہ مر چکی ہے۔ مگر خدا کی قدرت کے سامنے سب بے بس ہیں۔ پاک فوج اس وقت تک سوات پہنچ چکی تھی۔ فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے ملالہ کو سی ایم ایچ پہنچایا گیا۔
عسکری ڈاکٹروں کی بروقت سرجری سے ملالہ بچ گئی۔ بی بی سی نے یہ معاملہ بین الاقوامی سطح پر اجاگر کیا۔ اور اسی ادارے کے تعاون سے ملالہ کو علاج کے لیے برمنگھم لے جایا گیا۔ ملالہ پر حملہ دنیا کے تمام میڈیا نے پوری قوت کے ساتھ پیش کیا۔ برطانیہ میں کافر ڈاکٹروں کے حد درجہ عمدہ علاج کی بدولت ملالہ، معجزاتی طور پر زندگی میں واپس آ گئی۔
ایک گولی نے اسے بین الاقوامی شخصیت بنا دیا۔ دوبارہ زندگی ملنے کے بعد ملالہ نے اپنے آپ کو تعلیم کی ترویج، کے لیے وقف کر دیا۔ ایک منزل سے دوسری منزل طے کرتی ہوئی ملالہ 2016 میں نوبل پرائز برائے امن سے نوازی گئی۔ 2013 سے لے کر اب تک ملالہ دنیا کی اہم ترین شخصیات میں شامل ہو چکی ہے۔ صدور، وزرائے اعظم اسے ملنا اعزاز کی بات سمجھتے ہیں۔ ملالہ سر پر دوپٹہ لیتی ہے۔ اکثر و بیشتر مشرقی لباس پہنتی ہے۔ اور اس کے گھر کا ماحول حد درجہ پشتون اور مذہبی ہے۔
چند دن سے پاکستان میں ایک بحث شروع ہوچکی ہے۔ جس میں آکسفورڈ پریس نے پنجاب کی نصابی کتابوں میں ملالہ یوسف زئی کو ایک پاکستانی اہم اور متاثر کن شخصیت کے طور پر پیش کیا۔ یہ معاملہ جب ٹیکسٹ بک بورڈ میں گیا تو بعض وجوہات کی بنا پر تصویر فوری طور پر ہٹا دی گئی۔ تجسس میں آ کر سوشل میڈیا پر ایک سوال کیا کہ کیا واقعی ملالہ یوسف زئی اتنی اہم ہے کہ اس کی تصویر ہماری نصابی کتابوں میں چھپ سکے؟ چوبیس گھنٹوں میں جو جواب آئے، اس سے حیرت زدہ رہ گیا۔ اکثریت نے کہا کہ ملالہ کو نوبل پرائز غلط ملا ہے۔
یہ ہنودو یہود کی سازش کا شاخسانہ ہے۔ جب عرض کی کہ نوبل پرائز کمیٹی پر کسی حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ اور وہ آزادانہ فیصلے کرتی ہے۔ تو پھر اس طرح کے پیغامات آنے شروع ہو گئے کہ دراصل یہ لڑکی غدار ہے۔ ملک دشمن ہے۔ غیر ملکی طاقتوں کی ایجنٹ ہے۔ اس کا ہمارے معاشرے میں کوئی مقام نہیں۔ اسے تو نشان عبرت بنا دینا چاہیے۔ ایک صاحب نے لکھا کہ ملالہ کو واپس پاکستان بلا کر قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔ جب گزارش کی کہ آپ درست فرما رہے ہیں۔ مگر میرے جیسے جاہل کو یہ تو بتا دیجیے کہ ملالہ کا جرم کیا ہے۔ تاکہ اس جرم کی نسبت سے سزا دی جائے۔ اس کے بعد اس موصوف نے کسی قسم کا کوئی رد عمل نہیں دیا۔
یہاں ضرور لکھو ں گا کہ ذاتی طور پر ملالہ کی کئی باتوں سے متفق نہیں ہوں۔ بلکہ سمجھتاہوں کہ اسے ہماری سماجی اور مذہبی روایات کے برعکس کوئی بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔ مگر ساتھ ہی ذہن میں یہ بھی سوال پیدا ہوا کہ وہ تو اب مغرب میں رہتی ہے۔ لازم ہے کہ برطانیہ کی اخلاقی اور فکری اقدار، ہمارے معاشرے سے مختلف ہیں اور مغرب میں رہ کر انسان کی شخصیت پر بہر حال مقامی فکر کی دھوپ یا چھاؤں تو پڑتی ہے۔ انسان بہر حال انسان ہی تو ہے۔ کمزور اور ناتواں۔ اور ملالہ تو بہر حال صنف نازک میں شامل ہے۔
نصابی کتابوں میں ملالہ کی تصویر چھاپنے کی کوشش حد درجہ غلط ہے؟ کیونکہ وہ تو پاکستان سے ہی نہیں؟ اسے سر میں گولی ماری ہی نہیں گئی؟ اورہاں ہمارے ملک میں نوبل پرائز حاصل کرنے والوں کی تعداد سیکڑوں میں ہے؟ صورت حال تو یہ ہے کہ نوبل پرائز کمیٹی روزانہ ہمارے متعدد رہنماؤں کو فون کر کے ان کی منت سماجت کرتی ہے کہ خدارا، آپ نوبل پرائز قبول فرمائیں۔ مگر وہ عظیم پاکستانی نوبل پرائز کمیٹی کے ممبران کو ڈانٹ کر کہتے ہیں کہ تمہاری اتنی جرأت کہ ہمارے جیسے شان دار قائدین کو نوبل پرائز جیسے گھٹیا انعام سے نوازنے کی کوشش کرتے ہو؟ ٹیکسٹ بک بورڈ نے بالکل درست کیا کہ ملالہ کی تصویر ہٹوا دی؟ میرا مشورہ ہے کہ چلیے ملالہ کو تو آپ نے کوئی عزت نہیں دی۔ مگر ان دہشت گردوں کے متعلق ایک فقرہ تو نصاب میں درج کر دیجیے کہ ان جیسے "سورماؤں" نے ہمارے اسی ہزار لوگ شہید کیے ہیں۔ ملالہ تو غدار ہے اور غدار ہی رہے گی؟