مانک سرکارچارمرتبہ تری پورہ کا وزیراعلیٰ رہا۔ مسلسل لگاتار۔ 1949 میں پیدا ہونے والا یہ سیاستدان ہمارے صفِ اول کے سیاستدانوں کی عمر کے تقریباً برابرہوگا۔ غلط لفظ استعمال کرگیا۔ صفِ اول کے سیاستدان۔ معاف کیجیے، یہاں صفِ اول کے لیڈران یااہم لوگ بالکل موجودنہیں ہیں۔ یہ تو دس نمبرکی لائن میں موجودلوگ ہیں جوجھوٹ، سازش اور لوگوں کو بیوقوف بناکرصفِ اول میں موجود ہونے کا یقین دلاتے ہیں۔
بات مانک سرکارکی ہورہی تھی۔ جب وہ 1998 میں پہلی باروزیراعلیٰ بنا، تو اسٹاف نے اس کے سامنے ایک کاغذرکھا۔ درج تھاکہ آپکے پاس کتنی جائیداد ہے۔ کتنا سرمایہ ہے۔ کتنی گاڑیاں ہیں۔ یعنی آپکے اثاثے کیا ہیں؟ مانک سرکار نے آٹھ آنے کی پکی پینسل جیب سے نکالی اورسوال نامے پردرج کیاکہ میرے پاس کوئی اثاثے نہیں ہیں۔
وزیراعلیٰ کا اسٹاف یہ سمجھاکہ شائد مانک سرکار معاملے کوگہرائی سے سمجھ نہیں پایا۔ روایتی لجاجت سے دوبارہ پوچھاکہ جناب، یہ سوال نامہ آپکو اپنے اثاثوں کے متعلق بتانے کے لیے ہے۔ شائدآپ نے اسے غورسے نہیں پڑھا۔ مانک سرکارنے دوسری بار سوال نامے پرلکھاکہ میرے پاس کسی قسم کے کوئی اثاثے نہیں ہیں۔ کارنہیں ہے۔ زمین نہیں ہے اورذاتی گھرتک نہیں ہے۔ شائد مانک سرکارکے عملے کی طرح آپکوبھی یقین نہ آئے۔ مگرحقیقت یہی ہے۔ وزیراعلیٰ کے والددرزی تھے اور والدہ انملی سرکار، ایک محکمہ میں معمولی سی پوسٹ پرکام کرتی تھیں۔
وزیراعلیٰ بننے کے بعدمانک سرکار نے کسی قسم کی سرکاری مراعات لینے سے انکار کردیا۔ حد تویہ ہے کہ اس نے اپنی تنخواہ بھی اپنی سیاسی پارٹی کے اکاؤنٹ میں جمع کروانی شروع کردی۔ پارٹی، مانک کودس ہزارہندوستانی روپے ماہانہ دیتی تھی۔ جو پاکستانی تقریباًبیس ہزارروپے بنتے ہیں۔ مانک اور اس کی بیوی پنچالی بھٹاچاریااسی تنخواہ میں گزاراکرتے رہے۔ بیوی سوشل ویلفیئرمحکمہ میں معمولی سی سطح پرکام کرتی تھی۔ اسکودفترآنے جانے کے لیے سرکاری گاڑی استعمال کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ روز وزیر اعلیٰ ہاؤس میں ایک رکشہ آتاتھا۔ وزیراعلیٰ کی بیوی کو دفتر لیجاتا تھا۔
اس طرح دفترسے شام کوواپسی بھی رکشہ یا بس پر ہوتی تھی۔ اگرآپ انڈیاکے ٹیکس بورڈ آف ریوینیوکی ویب سائٹ پرجائیں توٹیکس اداکرنے والوں میں مانک کانام نہیں ملے گا۔ اس لیے نہیں کہ ہمارے اکثر چورتاجروں اورنابکارسیاستدانوں کی طرح وہ ٹیکس چوری میں ملوث تھا۔ بلکہ اس لیے کہ مانک، اس سطح پرآتاہی نہیں تھااورہے کہ ٹیکس اداکرے۔ اس کی آمدنی اتنی کم تھی کہ ٹیکس اداکرنے والوں کی فہرست میں نہیں تھا۔ چنانچہ آج تک اس عظیم آدمی نے کبھی کوئی ٹیکس نہیں دیا۔ اب آپ اس کی بیوی کی رودادسنیے جوسرکاری ملازم رہی۔ پنچالی کو اپنے ناناکی وراثت میں آٹھ سواٹھاسی سکوئرفٹ زمین ملی۔
ریٹائرمنٹ کے وقت اہلیہ کوجوپیسے ملے، ان پیسوں سے ایک معمولی ساگھربنالیا۔ اس کی آج کی قیمت اٹھارہ لاکھ ہے۔ اس نے یہ گھراپنی بہنوں کو رہنے کے لیے وقف کردیاہے۔ نیا منتخب ہونے والا وزیراعلیٰ، پبیبلک کمار، مانک سرکار کے پاس آیا۔ اسے کہاکہ بطورسابقہ وزیراعلیٰ، اسے تمام مراعات استعمال کرنے کا قانونی حق ہے۔ سرکاری بنگلہ، سرکاری گاڑی، اسٹاف سب کچھ اسکاقانونی حق ہے۔ مگرمانک سرکارنے انکار کردیا۔ دو کمروں کے ایک معمولی سے گھرمیں رہتا ہے جواسے اس کی سیاسی پارٹی نے دے رکھاہے۔
یہ گھر، دفترکی بالائی منزل پر موجود ہے۔ مانک سرکارآج بھی حددرجہ اوربے مثال سادگی سے اپنی زندگی گزار رہا ہے۔ اس کی بیوی روز بازارسے سودا سلف خودخریدتی ہے۔ کھانا خود بناتی ہے۔ بیس برس کے لگ بھگ وزیراعلیٰ رہنے والے کے گھرمیں آج بھی کوئی نوکر نہیں ہے۔ مانک سرکار انتہائی پُرسکون زندگی گزار رہا ہے۔ جس محلے یا گلی سے گزرتا ہے، لوگ احتراماً اس کے پاؤں چھوتے ہیں۔ اسے بھگوان کا اوتار گردانتے ہیں۔ مانک کے نام پرلوگ، تری پورہ میں اپنے بچوں کے نام رکھتے ہیں۔ ہندوستان کی سیاست میں ایمانداری کی اصل تصویرمانک سرکارہے۔
اس تمام صورتحال کاسیاسی موازنہ پاکستان سے کیاجائے توسوائے شرمندگی کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ یہ بات نہیں کہ ہمارے اعمال نامہ میں ایماندار سیاستدان نہیں تھے۔ بالکل تھے۔ جیسے محترم معراج خالدصاحب، غلام حیدروائیں، محترم حنیف رامے اور چنددیگراصحاب۔ مگرانکی تعدادنہ ہونے کے برابر ہے۔ ہرشعبہ میں، ایسے ایسے بحری قزاق، ڈھونگ رچا کر بیٹھے ہیں کہ افسوس کے علاوہ کچھ بھی یارہ نہیں ہوتا۔ ذرا ملاحظہ فرمائیے۔ ایک صاحب تشریف لائے۔ چین سے سامان منگواکر ملک میں فروخت کرتے ہیں۔
ہر لحاظ سے متمول انسان۔ فرمانے لگے کہ کوئی ٹیکس نہیں دیتے۔ انھوں نے اپناسسٹم بتایا۔ انھوں نے درجنوں کمپنیاں رجسٹرکروائی ہوئی ہیں۔ ایک فرضی کمپنی کے نام پرکنٹینرمنگواتے ہیں۔ چین میں وہاں کی چینی کمپنی کسی جعلی نام سے مال پاکستان بھجواتی ہے۔ یہاں کسٹم والے عمال بھاری رشوت کے عوض اسے کسی اورنام پرکلیئرکرتے ہیں۔ پیسے کا لین دین مکمل طورپرمختلف بے نامی اکاؤنٹوں سے کیا جاتا ہے۔ لاہور آتے ہی مال بغیرکسی رسیدکے اطمینان سے بیچ دیا جاتا ہے۔ پھر صاحب، خودہی فرمانے لگے کہ ہم پاکستان میں اپنی فرضی کمپنی کو صرف ایک بار استعمال کرتے ہیں۔
پھر، دوسری جعلی کمپنی کے نام پر کام شروع کردیتے ہیں۔ ان کی ماہانہ آمدنی تقریباً دوکروڑکے قریب ہے۔ اور ان کا نام ٹیکس دینے والوں کی فہرست میں موجودہی نہیں ہے۔ بتانے لگے کہ تقریباًایک ہزارافرادکاایک گروہ برسوں سے کام کر رہاہے۔ یہ کراچی، لاہور اور دیگرائیرپورٹوں سے دوبئی اوردیگرممالک میں روزکی بنیادپرجاتے ہیں۔ دوبئی میں ایسے گینگ موجودہیں جوتمام سامان ان کھپیوں کو فروخت کرتے ہیں۔ یہ صرف چوبیس گھنٹے میں مال لے کر واپس پاکستان آجاتے ہیں۔
ائیرپورٹ پر سرکاری عمال ان سے روزانہ کی بنیادپرلاکھوں روپیہ رشوت وصول کرکے بڑے آرام بلکہ عزت و احترام سے کلیئرکردیتے ہیں۔ ناجائز طورپر آیا ہوا سامان بھی بڑے اطمینان سے مقامی مارکیٹ میں فروخت ہوجاتا ہے۔ اب آپ خودبتائیے کہ کونسے لفظ استعمال کیے جائیں۔ مجھے تو افسوس اوررنج جیسے الفاظ بھی بے معنی سے نظرآتے ہیں۔ اس طرح کے ہزاروں نہیں، لاکھوں واقعات تسلسل سے ملک میں ہوتے چلے جارہے ہیں۔ مگرکسی کے کانوں پرکوئی جوں تک نہیں رینگتی۔ ویسے رینگنی بھی نہیں چاہیے۔
سیاستدانوں کی طرف دیکھیے تودل دہلتا ہے۔ آج بھی یہ لفظ سب کویادہوگا۔ کہ "اگرمجھ پریا میرے خاندان پردھیلے کی کرپشن ثابت ہوجائے، تو میں سیاست چھوڑدونگا"۔ یہ الفاظ دس سال تواترسے بولے جاتے رہے ہیں۔ مگر معاملات ایسے نہیں ہیں، سب کو ان کے بارے میں معلوم ہے۔ آج یہ موصوف، بڑی بڑی اخلاقی باتیں فرماتے ہیں۔ جیسے نیوسوشل کنٹریکٹ، مفاہمت۔ مگرصرف ایک بات نہیں کرتے کہ ان کے خاندان کے پاس وافرتعدادمیں لکشمی کیسے آئی ہے۔ اسی طرح سندھ سے تعلق رکھنے والے شاہی خاندان کو پرکھیے۔
انھوں نے کرپشن کو عملی طورپر جائزقراردے ڈالا ہے۔ سندھ کے کچے میں رہنے والے ڈاکوؤں کے گروہوں پر کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ برائے نام۔ ایک فلم کی شوٹنگ کی طرح، پولیس والے اورگاڑیاں دوڑتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ اورتمام ڈاکوتسلی سے غائب ہوجاتے ہیں۔ آہستہ آہستہ ملک کاپورانظام مکمل طور پرادنیٰ لوگوں کے ہاتھ میں جاچکا ہے۔ کمزوراورپسے ہوئے لوگ کچھ نہیں کرسکتے۔ اس ملک کاظالم نظام کبھی بھی تبدیل نہیں ہوگا۔ ہاں، صرف ایک طریقہ ہے۔ اگر اس بدبودار نظام کو اکابرین کے خون سے نہلادیاجائے توشائدکچھ بہتری آجائے۔ مگر اس کے لیے بھی مانک سرکارکی سطح کاایماندارشخص چاہیے، جو شائد ہمارے نصیب میں نہیں ہے؟