نیویارک سے واپسی پر مختلف بلکہ متضاد خیالات ذہن میں برپا ہیں۔ پوچھنے میں حق بجانب ہوں کہ ہمارا ملک اس قدر پیچھے کیسے اور کیونکر رہ گیا؟ ہمارے ہاں کسی قسم کی ترقی ممکن کیوں نہیں رہی! فکری آزادی کی بنیادی دہلیز پر ہی کیسے ڈھیر ہو گئے؟ ان گنت مرتبہ امریکا جا چکا ہوں۔
مگر اس بار، ایک ماہ سے کچھ زیادہ وقت ایک ہی شہر میں بسر کرنے کا تجربہ پہلی مرتبہ ہوا۔ ویسے نیویارک بذات خود حیرت کدہ ہے۔ اگر اس شہر میں دن رات بسر ہونے لگیں تو پھر امریکا میں دیگر شہروں میں جانے کا جواز کچھ کم ہی رہ جاتا ہے۔ دوستوں اور عزیزوں کی ایک کثیر تعداد امریکا میں ہونے کے باوجود اپنے رہنے کا بندوبست خود کر رکھا تھا۔ میری اہلیہ اور بڑا بیٹا، مبارز حیات میرے ساتھ ہی قیام پذیر تھے۔ مبارز کی بدولت نیویارک میں حد درجہ سہولت رہی۔ آمد و رفت کے لیے اوبر گاڑی کی سہولت تو شہر کے چپے چپے میں موجود تھی۔ مگر آپ ڈرائیور کو نقد پیسے نہیں دے سکتے۔
کریڈٹ کارڈ کے ذریعے جب تک اوبر کا اکاؤنٹ نہ بنائیں گاڑی نہیں منگوا سکتے۔ شروع شروع میں تو یہ گمان ہوا کہ مجھے اوبر منگوانے کا درست طریقہ نہیں معلوم۔ مگر پھر مبارز میاں نے بتایا کہ آپ کریڈٹ کارڈ کے ذریعے اکاؤنٹ بنائیں۔ اکاؤنٹ بھی بیٹے نے بنا کر دیا۔ پھر اسی کے ذریعے اوبر گاڑی منگواتا رہا۔ دراصل پورا امریکا اس وقت آن لائن ہے۔ گوگل میپ کے ذریعے بالکل معلوم ہوجاتا ہے کہ آپ نے کہاں اور کس راستے سے جانا ہے۔ فون میں اگر گوگل میپ موجود نہیں ہے تو یہی سمجھیئے کہ آپ تقریباً نابینا ہو چکے ہیں۔
نیویارک شہر ایک فرائنگ پین کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں آ کر دنیا کی تمام قومیں، آگ کی تپش پر گھی کی طرح پگھل جاتی ہیں۔ ٹائم اسکوائرمیں یہ بات ثابت ہو جاتی ہے۔ چند کلو میٹر کی ان سڑکوں پر مشتمل ٹائم اسکوائرمیں ہر وقت پوری دنیا سے آئے ہوئے لوگ موجود رہتے ہیں۔ ہر طرح کی زبانیں بولی جا رہی ہوتی ہیں۔ کھوا سے کھوا چھلتا ہے۔ پولیس حد درجہ فعال موجود نظر آتی ہے۔
کسی کی جرأت نہیں کہ اگر پولیس کے ایک سپاہی نے روک دیا تو ہل بھی سکے۔ دراصل ہر سپاہی کے پیچھے ریاست کی بھرپور طاقت موجود ہے۔ پولیس وہاں خوف کی نہیں بلکہ حفاظت کی علامت ہے۔ ہمارے ہاں کوئی بھی حکومتی ادارہ اپنے آپ کو عوام کا حقیقی خدمت گزار قرارنہیں دے سکتا۔ اگر کوئی پروپیگنڈے کے ذریعے خدمت گزاری کا اعلان کرتا بھی ہے تو لوگوں میں پھر بھی اس کا تاثر مثبت نہیں ہوتا۔ کیونکہ زمینی حقائق بالکل متضاد ہوتے ہیں۔
بہر حال امریکا میں حکومت، اپنے شہریوں کے لیے ہر وقت اور ہر جگہ بنیادی طاقت سے مستعد نظر آتی ہے۔ پہلے دن میں بوتل والا پانی لے کر آیا تو یمنی دکاندار پوچھنے لگا کہ پانی کیوں خرید رہا ہوں۔ سوال پر حیرت زدہ رہ گیا۔ پینے کے لیے اور کیا۔ اس نے زور سے قہقہہ لگایا۔ اور کہا کہ پیسے ضایع مت کرو یہاں نلکے کا پانی پینے کے لیے بالکل درست ہے۔ بات درست نکلی۔ پورے نیویارک بلکہ پورے امریکا میں، عام ٹونٹی کا پانی پینے کے لیے بالکل درست قرار دیا گیا ہے۔
نیویارک کی سڑکوں پر ہر قبیل اور وضع کا آدمی نظر آتا ہے۔ سیاہ فام لوگ مقامی بوقلمونی کے ساتھ ہر جگہ موجود ہیں۔ ان کی زبان سمجھنے کے لیے کافی توجہ درکار ہوتی ہے۔ کیونکہ لہجہ سفیدفام لوگوں سے قدرے مختلف ہے۔ ہر شخص اپنی ذاتی آزادی کو مقدم ترین خیال کرتا ہے اور درست گمان ہے۔ ہر مذہب کے پیروکار بھی بغیر کسی مشکل کے ایک دوسرے کے ساتھ کامیابی سے زندگی گزار رہے ہیں۔ مگر ایک بات جو طالب علم نے محسوس کی۔ ہندوستانی لوگوں کا ہمارے ملک کے باسیوں سے رویہ قدرے درشت ہے۔
امریکا میں انڈین لابی حد درجہ فعال اور مضبوط ہے۔ انڈیا سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد ہمارے تارکین وطن سے بہت زیادہ ہے۔ رویے کا پتہ یوں بھی چلتا ہے کہ جب آپ کھانا کھانے کے لیے کسی دیسی ریسٹوڈنٹ میں جاتے ہیں۔ وہاں اگر انڈین ملازم، موجود ہے تو وہ آپ کو اس طرح خوش آمدید نہیں کہتا جس طرح مقامی لوگوں کو کرتا ہے۔ ایک بڑے اسٹور کے پاکستانی مالک نے بتایا کہ کوئی ہندوستانی اسٹور سے چیز نہیں خریدتا۔ کوشش کرتا ہے کہ وہاں سے چیز خریدے جہاں ہندوستانی مالک ہو۔
نیویارک میں اہم ترین مقامات پر گرجے اور یہودیوں کی عبادت گاہیں موجود ہیں۔ مساجد کم نظر آتی ہیں۔ دو مساجد میں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں حالات بالکل پاکستان جیسے ہی ہیں۔ جوتوں کی حفاظت کے لیے ہر بشر اس طرح فعال نظر آیا جس طرح ہم اپنے ملک میں کرتے ہیں۔ مساجد میں اکثریت سیاہ فام لوگوں کی تھی۔ یہودیوں کی معاشی، اقتصادی اور سماجی طاقت کا درست اندازہ امریکا میں ہوتا ہے۔ نیویارک میں ماؤنٹ سینائی نام کے حددرجہ بڑے بڑے اسپتال، یہودیوں کی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔"جوٹریڈرز" کے نام کے سپر اسٹور بھی انھیں کے ہیں۔
ان کا شدت پسند عنصر بھی مخصوص کالے لباس، بالوں کی طویل لٹوں میں نظر آتا ہے۔ مگر یہودیوں کی اکثریت معتدل مزاج ہے۔ یہودی، مسلمانوں سے اچھے تعلقات رکھتے ہیں اور انھیں مذہبی بنیادوں پر قطعاً ناپسند نہیں کرتے۔ ہمارا رویہ بہر حال ان کے ساتھ بہت دوستانہ نہیں ہے۔ تمام دوست نیویارک آتے رہے۔
ڈاکٹر علی حماد تو کینسس سے متعدد بار نیویارک آیا۔ اسی طرح حسیب احمد سے پینتالیس سال بعد ملاقات ہوئی۔ حسیب واشنگٹن میں ہے اور بہترین سطح کا کنسلٹنٹ شمار کیا جاتا ہے۔ ویسے علی حماد کا شکر گزار ہوں کہ اپنا کثیر وقت نکال کر پرانے دوست ہونے کا حق ادا کر دیا۔ ڈاکٹر ضیا ورک اور چٹھہ صاحب بھی حد درجہ تکلف کر کے نیویارک آئے۔ ڈھیر ساری باتیں ہوتی رہیں۔ اہلیہ کے ماموں، ڈاکٹر وحید اکبر بھی نیویارک آ گئے۔ ان کے بچوں سے بھی ملاقات رہی۔ وحید اکبر کا بڑا بیٹا، احمد حد درجہ محبت کرنے والا انسان ہے۔ مین ہیٹن میں وحید اکبر اور احمد ہمیں حد درجہ اچھے ریسٹورنٹ میں لے گئے۔ وہ ایک پاکستانی لڑکی نے کھولا تھا۔ ہارورڈ سے فارغ التحصیل اس لڑکی نے نیویارک میں اعلیٰ درجے کے پاکستانی ریسٹورنٹ کھول رکھے ہیں۔ وحید صاحب کی بیٹی، زینب وہاں وکیل ہے اور کامیابی سے نیویارک میں پریکٹس کر رہی ہے۔
ہر سطح کے لوگوں سے ملاقات رہی۔ ہمارے ملک کا مجموعی تاثر کافی حد تک منفی ہے۔ ہمیں وہاں طالبان کے برابر رکھا جاتا ہے۔ یہی سمجھا جاتا ہے کہ پاکستان ایک شدت پسند سماج ہے۔ ہمیں یہاں بتایا نہیں جاتا کہ امریکا، افغانستان سے ہزاروں کی تعداد میں ہمدرد افغانی شہری امریکا لے جا چکا ہے۔ ہر شہر میں انھیں آباد کیا جارہا ہے۔ انھیں امریکی شہریت دی جا رہی ہے۔ وہ لوگ بھی ہمارے ملک کے متعلق منفی تاثر کو مزید بڑھاوا دیتے ہیں۔ جب آپ کسی کو یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان سے آیا ہوں، تو وہ خاموش ہو جاتا ہے یا مختصر بات کرنے لگتا ہے۔ ا
س غیر مثبت ثاثر کو کیسے درست کیا جائے۔ ویسے اس سوال کا بھی کوئی جواب نہیں کہ پاکستان ترقی کے میدان میں اتنا پیچھے کیسے رہ گیا؟ وہاں جا کر یہ پھانس دل میں چبھتی ہے کہ ہماری حکومتیں عوام کی خدمت میں ناکام کیوں ہیں۔ شاید نصیب کی بات ہے مگر صرف ہمارا مقدر ہی کیوں خراب ہے؟ امریکا تو پوری طاقت سے ترقی کر رہا ہے۔ اب اس طرح کے سوالات کا کیا جواب دوں؟