آئین میں درج ہے کہ پارلیمنٹ، قانون سازی کا سب سے محترم ادارہ ہے۔ اس آئینی اختیار کو کوئی بھی ادارہ کم یا ختم نہیں کر سکتا۔ سپریم کورٹ بھی نہیں۔ عدلیہ صرف کسی بھی قانون کی آئین کے مطابق تشریح کر سکتی ہے اور اس سے آگے عدلیہ کی حدود بھی ختم ہو جاتی ہے۔
قانون سازی کا یہ مقدس کام صرف اور صرف عوامی نمایندوں کو حاصل ہے۔ کہ وہ اس ملک کے بائیس کروڑ عوام کے لیے کس طرح کا ضابطہ تخلیق کرتے ہیں۔ قومی اسمبلی کا ہر رکن، الیکشن کی مشکل ترین چھلنی سے کشید ہو کر اس کرسی پر بیٹھتا ہے جو ہمیں اکثر مختلف ہنگام میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ قصہ کوتاہ یہ کہ پارلیمنٹ واحد ادارہ ہے جس کی جڑیں عوامی امنگوں ں سے منسلک ہوتی ہیں۔
اگر کوئی بھی ممبر عوام سے رابطے میں کمزوری دکھائے، تو اگلے الیکشن میں اس کی "کھٹیا کھڑی" کر دی جاتی ہے۔ مگر سب سے عجیب بات یہ ہے کہ وہ ادارہ یا وہ ممبران جنھیں ہم چن کر اسمبلی میں بھجواتے ہیں، ان پر ہر لمحہ تنقید جاری رہتی ہے۔ جائز تنقید کی تو خیر ہے۔ مگر ناجائز تنقید ہمارے اکثر خاص و عام کا رویہ رہتا ہے۔
لکھتے ہوئے بھی تکلیف ہو رہی ہے کہ سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی نے ایک پارلیمانی سیاسی جماعت کے ممبران کو پالتو جانوروں سے تشبیہ دے ڈالی۔ ان کی ٹویٹ کے جواب میں طالب علم نے یہ عرض کی کہ اپنے خیالات سے متفق نہ ہونے والے ممبران کو گالی دینے کا کوئی حق نہیں لیکن اس کا جواب نہیں دیا گیا۔ شائستگی اور توازن سے سیاسی تنقید ہی اصل جوہر ہے۔ بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ گزارش پارلیمنٹ کی آئینی بالا دستی کی ہو رہی تھی۔
زمینی حقائق پر نظر ڈالتا ہوں تو پارلیمنٹ سب سے نحیف اور ضعیف ادارہ نظر آتا ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر سیاسی خلفشار کی موجودگی تو بالکل ہے۔ مگر اس سب سے محترم آئینی ادارے کو ادنیٰ ثابت کرنے کی کوشش کرنا درست نہیں ہے۔ دنیامیں کسی جمہوری ملک کی پارلیمنٹ ایسی نہیں، جہاں لفظی جھڑپیں، سیاسی عداوت اور کبھی کبھار ہاتھاپائی تک نوبت نہ آن پائے۔
ہندوستان، ساؤتھ کوریا اور متعدد ملکوں میں ارکان اسمبلی ایک دوسرے سے بھڑتے نظر آتے ہیں۔ مگر کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ پارلیمنٹ کے آئینی اختیار میں کوئی کمی کر دی جائے۔ ہرگز نہیں۔ یہ سب کچھ اسمبلی کے اندر کے مسائل ہیں۔ ان سے مقننہ کی بالا دستی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہی وہ نکتہ ہے جسے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ حکومتی پارٹی نے الیکٹرانک ووٹنگ پر قانون سازی کی جائز کوشش کی۔ یہ حکومت کا بنیادی حق ہے مگر الیکشن کمیشن کی طرف سے جو بیان سامنے آیا، وہ درست نظر نہیں آتا۔ اس بیان کا پہلا نکتہ یہ کہ اسمبلی میں مشین کے ذریعے قانون سازی، آئین کی چند شقوں سے متصادم ہے۔ اسی طرح تارکین وطن کو ووٹ کا حق دینے پر ا لیکشن کمیشن نے کڑی تنقید کی۔ الیکشن ریفارم بل کے چھبیس نکات کے بارے میں ابہام پیدا ہوا ہے۔
یہ سب کچھ ایک رپورٹ کی صورت میں موجود ہے۔ ایک اعتراض یہ بھی ہے، "الیکشن کمیشن کے اختیارات کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور نادرا کو اس کے چند اختیارات دینے کی کوشش سامنے آئی ہے۔" یہ وہ اصل بات ہے جس کی وجہ سے الیکشن کمیشن کو اعتراض کرنا پڑا ہے۔
میرے ادنیٰ علم کے مطابق الیکٹرانک ووٹنگ یا تارکین وطن کو ووٹ دینے کے فیصلے کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہے۔ الیکشن کمیشن پاکستان میں الیکشن کا نگہبان ہے، دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ 1977سے لے کر آج تک ہر جنرل الیکشن کے نتائج متنازعہ ہی رہے ہیں۔ کوئی ایک ایسا چناؤ نہیں، جس میں دھاندلی کا شور نہ مچا ہو۔
ایک ایسا الیکشن نہیں کروایا جا سکا، جس پر تمام فریقین نے اطمینان کا اظہار کیا ہو۔ دراصل الیکشن کمیشن اپنے بنیادی کام یعنی غیر جانبدار اور شفاف الیکشن کرانے کی استطاعت نہیں رکھتا ہے۔ اب یہ ریٹائرڈ سرکاری افسروں کی وہ پناہ گاہ بن چکی ہے، جہاں بھاری تنخواہ اور مراعات تو موجود ہیں لیکن کام نہیں ہے۔ بہت سے حقائق جانتا ہوں۔ ماضی میں الیکشن کمیشن ایک معزز ممبر کی صاحبزادی کو ایک " پرکشش پوسٹنگ" دی گئی تھی۔ ایک سابق ممبر کے داماد کو بیرون ملک پوسٹنگ" عطا کی گئی تھی۔ اگر یقین نہیں تو آپ میری دونوں گزارشات کی خود تصدیق فرما سکتے ہیں۔
مجھے الیکشن کمیشن کے کمزور یا مضبوط کردار سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ میرا مقصد تو قومی اسمبلی کے آئینی اختیار کی بات کرنے کی حد تک ہے۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس نے قومی اسمبلی کی ترامیم پر تھرڈ پارٹی کی رپورٹ حاصل کی ہے۔
اس رپورٹ میں درج ہے کہ ترمیمی بل کی کئی شقیں آئین سے متصادم ہیں۔ کیا مقننہ کے فیصلوں کے پر کوئی ادارہ، تھرڈ پارٹی رپورٹ حاصل کرنے کا مجاز ہے؟ میرا خیال ہے کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی اور آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ اصل معاملہ اختیارات کا ہے۔ کوئی بھی ترمیم جو کسی ادارے کے اختیارات بڑھا دے، وہ خوشی سے تسلیم کر لی جائے گی۔ بہرحال میں تو الیکٹرانک ووٹنگ اور تارکین وطن کو ووٹ کا حق دینے کا حامی ہوں۔ یہ تو کوئی اعتراض نہ ہوا کہ ہمارا اختیار لے کر نادرا کو دیا جا رہا ہے۔ طالب علم کی نظر میں جوہری نکتہ صرف ایک ہے۔ قومی اسمبلی کے قانون سازی کے اختیار کو کوئی دوسرا ادارہ کم یا ختم نہیں کر سکتا۔