قندھارسے اب کیاخبرآتی ہے۔ صرف یہی کہ طالبان نے اتنے سرکاری افغانی اہلکاروں کومارڈالا۔ بم دھماکے، خودکش حملے، قتل وغارت کے علاوہ پورے افغانستان سے محض جنگ کی بدنمااطلاعات آتی ہیں۔ مگریہ توموجودہ صورتحال ہے۔ کوئی ذکرنہیں کرتاکہ برصغیرکاعظیم گلوکار ناشناس، قندھارمیں پیداہواتھا۔
کراچی اور چمن میں پلابڑھاتھا۔ پشتوزبان میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد، بلکہ اس سے پہلے ہی ایک ایسے گلوکارکی حیثیت سے سامنے آیاتھا۔ جوپشتو، دری اوراُردو زبان میں کمال گانے گاتاتھا۔ اصل نام صادق فطرت حبیبی تھا۔ مگراس نے ناشناس کانام اَپنا کر لازوال نغمے لکھے اورگائے۔ اسے پشتوزبان کا کے ایل سہگل کہاجاتاتھا۔ ہمیں کبھی نہیں بتایا جاتا کہ دنیامیں صرف اورصرف مصائب کے حوالے کی پہچان رکھنے والے علاقوں نے کیسے کیسے نایاب ہیرے تراش کرزمانے کے حوالے کیے ہیں۔
ناشناس کو میں نے پہلی بار کوئی پندرہ برس پہلے سنا۔ آوازکی گہرائی اورلوچ سنکرششدررہ گیا۔ کمال دردبھری آوازاورتہذیب میں گندھا ہوا لفظی استعارہ۔ کمال، صاحب کمال۔ مگراب تو اکثریت جانتی ہی نہیں ہوگی کہ بارودی سرنگوں اور خون سے سرخ ہونے والی زمین ناشناس جیسے بڑے گلوکار پیداکرتی رہی ہے۔
پشتو زبان میں ادیب، شاعر، موسیقار، فلسفی اور اہل فن پیدا ہوئے ہیں۔ آریانا سید، علی بابا خان، بختیار خٹک، لیلیٰ خان، سردار علی ٹکر، منیر سرحدی اوران جیسے درجنوں فنکار پشتون علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ شائدہم کسی کوبتاناہی نہیں چاہتے کہ ہماری مٹی کس قدرذرخیزہے کہ اس نے "کمال لوگ"پیداکیے ہیں۔
بلوچستان میں لورالائی کانام کم آدمیوں نے سناہوگا۔ ذکرآتا بھی ہے تو دہشت گردی کے حوالے سے۔ میں وہاں دو برس بطور پولیٹیکل ایجنٹ موجود رہاہوں۔ پندرہ برس پہلے یہ مکمل طور پر پُرامن علاقہ تھا۔ برصغیرکی فلموں کاعظیم فنکار راج کمار، یہاں کارہنے والاتھا۔ کلبوشن پنڈت نام کابچہ1926میں لورالائی میں پیداہوا۔ اس کاتمام بچپن انھی پتھریلی وادیوں میں کھیلتے ہوئے گزرااورتیرہ چودہ برس کی عمرمیں بمبئی میں منتقل ہوگیا۔ لورالائی سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان نے برسوں، برصغیرکی فلموں پراپنے انوکھے لہجے سے راج کیا۔
وہ تویوسف خان یعنی دلیپ کمار کو بھی اپنی سطح کااداکارنہیں سمجھتاتھا۔ خودسوچیے کہ یوسف خان یعنی دلیپ کمارکا تعلق بھی پشاورسے تھا۔ قصہ خوانی بازارسے ملحق ایک مکان میں پیدا ہونے والے شخص کو کون نہیں جانتا۔ کسے معلوم نہیں ہے کہ دلیپ کمارجیساعظیم اداکاردوبارہ پیدا ہونا مشکل ہے۔
مشہور شاعر، جاوید اختر نے ایک جگہ اعتراف کیا ہے کہ دلیپ کمار اتنا عظیم فنکار ہے کہ اس کی اداکاری کو لفظوں میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ یہ اعزاز بھی ہمارے پشاور کو حاصل ہے کہ اس نے اداکاروں کے "کوہِ نور" کو برصغیر کی فلموں کو عطا کر دیا۔ تھوڑے وقفہ کے لیے فلموں اور گانوں کا ذکر جانے دیجیے۔ خوشحال خان خٹک، رحمان بابا، عبدالحمیدبابا، حسین خٹک، افضل خان خٹک اور ناز وٹوکی پشتوزبان کی قابلِ قدرپہچان ہیں۔ ذرارحمان باباکی شاعری کاترجمہ ملاحظہ فرمائیے۔
"دہرمیں مت کرکسی کے ساتھ بھی جور و وفا"
"دیارِعشق میں کیاننگ اورکیاناموس"
"روک لے اللہ اگربندے سے سرزد ہو خطا"
"ہم ورش ثریاہے مقام اخلاص"اوراس طرح کے کئی باریک اورنازک نکتے۔ یہ رحمان بابا ہی کے ہیں۔ مہمند کے علاقے سے تعلق رکھنے والا یہ قابل فخرشاعرکیاتھا۔ اس کاکلام کتنا بہترین ہے۔ اس پر مقالے، کتابیں اور دیوان لکھے جا سکتے ہیں۔ مگر دہشت گردوں نے تو پشاورمیں اس عظیم صوفی کے مقبرے تک کوبموں سے زخمی کر دیا۔
قبرتک اُڑاڈالی۔ کیوں؟ یہ کون لوگ ہیں جو صوفیا کومرنے کے بعدبھی نہیں بخشتے؟ خوشحال خان خٹک کے متعلق صرف یہ عرض کروں گاکہ وہ پشتوزبان و یبان کے بزرگِ اعلیٰ ہیں۔ صرف جنگ وجدل، ان علاقوں کی پہچان نہیں تھی۔ یہ تو حددرجہ زرخیز اور پرامن علاقے تھے جہاں بہترین دماغ پیداہوتے تھے۔
پرتھوی راج کپورپیدا تولائل پورمیں ہوئے تھے مگران کی تمام پرورش پشاورمیں ہوئی تھی۔ فنی آبیاری اس پشتون مٹی میں ہی ہوئی تھی۔ ایک ایساعظیم اداکار، کہ جب کے آصف کی فلم"مغلِ اعظم" میں اکبربادشاہ کارول کیا، توآج تک لوگوں کے ذہن میں مستقل نقش ہوگیا۔ جیسے اکبر بادشاہ، پرتھوی راج جیساہی ہوگا۔ مغلِ اعظم کا پرتھوی راج ہی اب اکبربن چکاہے۔
ان کالہجہ خداداد تھا، مگراس کی تشکیل میں پشاور کی خوبصورت وادی کا بھی عمل دخل ہے۔ پشتون علاقے میں مردوں کے رقص کاانداز خوبصورت ہے۔ یہ آج تک اسی طرح موجودہے، جس طرح صدیوں پہلے تھا۔ خٹک ڈانس کے متعلق تو بتایا جاتا ہے جس میں نوجوان تلواروں کے ساتھ رقص کرتے ہیں۔ مگریہ دائرے والاپشتورقص آپ نے کم دیکھاہوگا۔ پشتون علاقہ یعنی لورالائی میں رہنے کی بدولت طالبعلم کوان روایات کاادراک ہے۔
لورالائی میں کوشش کی کہ کسی طریقے سے ایک چھوٹاسا "پٹھان میوزیم"بناؤں۔ اس کے لیے تگ ودوبھی بہت کی۔ بہت سی قدیم اشیاء بھی حددرجہ محنت کرکے اکٹھی کیں۔ مگرمیوزیم کامیابی سے مکمل نہ کرپایا۔ طالبعلم نے جب پشتون مرد اور خواتین کے روایتی لباس دیکھے، جب ان کی قدیم تلواریں اورہتھیاردیکھے تودنگ رہ گیا۔ بہترین اوراعلیٰ درجے کے لباس، جاذبیت والے رنگ، ان پرکشیدہ کاری بہت اعلیٰ درجہ کی تھی۔ پرانے موسیقی کے آلات بھی اپنی مثال آپ تھے۔ ان میں رباب، سازندہ سرِفہرست تھے۔
ہمارے پنجاب میں شخصی اونچ نیچ نمایاں ہے۔ چوہدری یا بااثر آدمی عام لوگوں کے ساتھ کم گھلتا ملتا ہے۔ دیہات میں کمی اور چوہدری کا کلچر آج بھی موجود ہے۔ پنجاب میں تعلیم کی وجہ سے ذات برادری اورسماجی اونچ نیچ میں ضرورفرق آیاہے مگراس کی موجودگی سے انکارنہیں کیاجاسکتا۔
بلوچ اور پشتون علاقے میں قبائلی نظام موجود ہے۔ مگر سماجی اونچ نیچ کی شکل ویسی نہیں جیسی پنجاب اورکافی حدتک سندھ میں ہے۔ پنجاب کے بڑے شہروں میں مالک اورملازم اکٹھے بیٹھ کر کھانا نہیں کھاتے۔ مگر قبائلی کلچر میں صورتحال مختلف ہوتی ہے۔ لورالائی میں سابق گورنرگُل محمد جوگیزئی صاحب نے مجھے کھانے پر مدعو کیا۔ مہمان خانے کے فرش پرقالین اور گول تکیے رکھے ہوئے تھے۔
جب کھانا شروع ہوا تومہمانوں اور گورنر کے ساتھ، تمام ملازمین معہ ڈرائیور اسی قالین پروہی کھاناکھارہے تھے جوہم مہمانوں کو دیا جارہاتھا۔ اس کے علاوہ بھی جہاں جانے کا اتفاق ہوا، ایسا ہی کلچر پایا۔ مجھے اعلیٰ سماجی روایات دیکھنے میں ملی ہیں تووہ پشتون معاشرہ تھا۔
وہ علاقہ جہاں سیب، انگور، خوبانی اور آلوچے کے باغ ہیں۔ جہاں ذرخیز زمین ہے۔ جہاں خوشحال خان خٹک اوربابارحمان جیسے شعرا ہیں۔ جہاں عظیم فنکاروں نے جنم لیاہو۔ جہاں کی موسیقی انسان کی روح کے تار چھیڑ ڈالے۔ جہاں کی مہمان نوازی ضرب المثل ہو۔ وہ علاقے دہشت گردی اور شدت پسندی کی پاتال میں کیسے پہنچ گئے۔ وہاں سے صرف اور صرف بارود اور لہو کی بو کیوں آتی ہے۔ کیسے ایک مکمل طور پر پرامن علاقہ جنگ کے جہنم میں جھونک دیا گیا۔ کہیں حکمرانوں سے کوئی غلطی یا کوتاہی تونہیں ہوئی ہے! مقامِ فکرہے!