Monday, 23 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Qatal Gah

Qatal Gah

کسی بھی ملک کی ترجیحات اور ان پر عمل، کھل کر دنیا کے سامنے اس کی حیثیت کو ثابت کرتا ہے۔ الفاظ، ترانے، جنگی نغمے، جعلی نعرے، بے سود تقاریر اور اشتہارات سے کچھ بھی معلوم نہیں پڑتا۔ بلکہ اگر حکومتی قول اور فعل میں تضاد ہو، تو وہ ملک، دنیا کے لیے تماشا اور اپنے شہریوں کے لیے عذاب بن جاتا ہے۔ کسی بھی خطہ کی بدقسمتی ہے کہ اس کے حکمران جھوٹ بلکہ سفید جھوٹ کو شعار بنا کر لوگوں کو وقتی طور پر بے وقوف بنانے کی مسلسل کوشش کرتے رہیں۔

تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ لوگوں کو ہمیشہ کے لیے بیوقوف بنانا ناممکن ہے۔ دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے حالات کو اگر ناقدانہ انداز سے ملاحظہ فرمائیں تو آپ کو حکومتی بدعملی یا قول و فعل کا تضاد بربادی کی اصل وجہ معلوم پڑے گا۔ مثال کے طور پر نائجیریا کے قدرتی ذخائر اور ملک کی زبوں حالی کو پرکھیے۔ نائجیریا کے پاس تین بلین بیرل خام تیل موجود ہے۔ گیس کے ذخائر ایک سو ساٹھ ٹریلین کیوبک میٹر ہیں۔ اس کے علاوہ، لوہا، کوئلہ، زنک اور دیگر قدرتی دھاتیں وافر ترین تعداد میں موجود ہیں۔ اگر ہم اس افریقی ملک کی قدرتی دولت کا تخمینہ لگائیں تو وہ سات سو بلین ڈالر بنتی ہے۔

زیر زمین معدنیات کی بابت گزارش کر رہا ہوں۔ اس خطیر خزانے کے علاوہ زمین پر موجود، زراعت اور دیگر صنعتیں اپنی جگہ موجود ہیں۔ مگر جب اس امیر ملک کے عوام کو دیکھتے ہیں تو آپ کو غربت، افلاس، شدت پسندی اور جاہلیت کی وہ قیامت نظر آتی ہے کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ جہاں بین الاقوامی کمپنیوں نے نائجیریا کے وسائل کو لوٹا اور وہاں کے سیاست دانوں اور بیورو کریسی کو کرپشن کے منظم راستے دکھائے۔ وہاں مقامی لوگوں نے بھی لوٹ مار کا وہ بازار گرم کیا کہ انفرادی سطح پر لوگ امیر تر ہو گئے، مگر قوم غربت کے اندھیروں میں گم ہوگئی۔ ایک فیصد سے بھی کم لوگوں کے پاس تمام ملکی دولت مرکوز ہوگئی۔

فرانس کے ایک تھنک ٹینک 1FRI نے، کینیا کی کرپشن پر تحقیق کرکے ایک تحقیقاتی رپورٹ شایع کی ہے۔ یہ رپورٹ، انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ وہی انٹرنیٹ جو آج حکومت پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کر چکا ہے۔ یہ بات تو درست ہے کہ سوشل میڈیا کا بیانیہ اسی فیصد غلط ہے۔ مگر کم از کم سوشل میڈیا بیس فیصد تو سچ بول رہا ہے اور یہی بیس فیصد ہمارے حکمرانوں اور ان کے حواریوں کے لیے شدید ناپسندیدہ ہے۔ اس تحقیقاتی رپورٹ میں ایک باب کا عنوان ہے۔

" From extraction to Extortion، Protection Rackets and Fraudulent Contracts"

اس باب میں بھرپور طریقے سے بتایا گیا ہے کہ ملکی خام تیل کو کس طرح حکمران طبقے نے لوٹا ہے اور اپنے ملک کو برباد کیا ہے۔ تھوڑی دیر رکیے اور اس باب کے عنوان پر غور فرمائیے۔ "فراڈ پرمبنی معاہدے" جناب یہ ہے وہ طریقے جن سے کینیا کو حد درجہ قانونی طریقے سے لوٹا گیا۔

تیل کے معاہدوں کا ذکر ہو رہا ہے۔ کیا آپ کو یہ دیکھ کر اپنے ملک میں بدترین دھوکا دہی اور فراڈ پر مبنی I. P. P یاد نہیں آتے؟ بالکل آتے ہیں۔ نائجیریا قدرتی ذخائر سے مالا مال ملک اگر غلیظ بین الاقوامی اور ملکی معاہدوں کی بدولت غربت کے جوہڑ میں گر سکتا ہے۔ تو کیا یہ سب کچھ پاکستان میں نہیں ہوا یا نہیں ہو رہا۔ کینیا میں بھی معاہدے پردے کے پیچھے کیے جاتے ہیں اور انھیں صیغہ راز میں رکھنے کی نامعقول مگر بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی بالکل یہی حکومتی چلن ہے۔ اندازہ فرمائیے کہ سب سے زیادہ عوام دشمن معاہدے پی ایم ایل ن کے دور میں دستخط کیے گئے ہیں۔

ہر باخبر شخص کو معلوم ہے کہ اس میں اوپر سے لے کر نیچے تک کون کون ملوث ہیں۔ مگر آج جب قوم کا خون چوسنے والوں کے نام دریافت کیے جاتے ہیں تو وہ بھی "قومی راز" بنا دیا جاتا ہے۔ سینیٹ کی حیثیت دیکھیے کہ اس کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے I. P. P کے معاہدوں کو منگوا کر دیکھنے کی جسارت کی، تواسے دھول چٹا دی گئی۔ یہ ہے ہماری اصل اوقات۔ یعنی وہ مسئلہ جس سے ملک کی صنعت تباہ ہوگئی، جس کی بدولت لوگ زندہ ہوتے ہوئے بھی دوزخ میں جل رہے ہیں۔

سرکاری سطح پر کوئی ان معاہدوں کی گرد کو بھی نہیں چھو سکتا۔ معاملہ صرف یہاں تک محدود نہیں ہے۔ چند دن پہلے، پنجاب کی صوبائی حکومت نے پینتالیس ارب روپے کے ایک پیکیج کا اعلان کیا۔ کہ دو ماہ کے لیے، صارفین کے بجلی کے یونٹ کے نرخ کم کیے جاتے ہیں۔ بل کی اصل ادائیگی جو چودہ روپے کی کمی کی صورت میں دکھائی گئی ہے، اسے لوگوں کے لیے ایک تحفہ بنا دیاگیا۔ سرکاری سطح کے اشتہارات میں ایک سیاسی کامیابی تراشنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ مگر کیا یہ سوال کرنا درست نہیں ہے کہ، آپ پینتالیس ارب روپیہ کس کی جیب میں ڈال رہے ہیں۔

آپ نے بجلی کے یونٹ کی اصل قیمت کو تو ایک روپیہ بھی کم نہیں کیا۔ تو کھیل کیا ہے؟ لوگوں کو تو محدود مدت کے لیے ایک یونٹ میں چند روپے کا تحفظ ضرور حاصل ہوا۔ لیکن ایک یونٹ کی قیمت تو بدستور رہنے کی بدولت یہ تمام روپیہ، حد درجہ مہارت کے ساتھ، I. P. P کے مالکان کی جیبوں میں ڈال دیا گیا۔ قوم کو اتنا چونا لگایا گیا ہے کہ خدا کی پناہ۔ آئی پی پی کے اندر جعلسازی بھی حد درجہ کی گئی ہے۔ ذاتی علم میں ہے کہ کون سا افسر، کس کا فرنٹ مین تھا۔

کس نے امریکا میں گھر اور کاروبار، بطور رشوت وصول کیے۔ کس طرح منی لانڈرنگ کی گئی۔ جو آج بھی جاری و ساری ہے۔ آپ کو کسی طرح بھی محسوس ہو رہا ہے کہ موجودہ حکومت، کسی سطح پر بھی عوام کی فلاح میں کسی قسم کی دلچسپی رکھتی ہے؟ کم از کم مجھے تو یہ ہرگز ہرگز یہ خوش فہمی نہیں رہی۔ ا گر وزیراعظم، صدر یا وزراء اعلیٰ کو قوم کے خزانے کی تنگی کا احساس ہو تو کیا وہ اربوں روپے کے اضافی بجٹ، اپنے لیے مانگیں گے؟ کیا واقعی قیمتی نئی گاڑیوں کی سرکار کو ضرورت ہے؟ کیا حالات اجازت دیتے ہیں کہ ہمارا حکمران طبقہ اپنی شاہ خرچیاں جاری رکھے؟ کیا واقعی ہمیں قصر صدارت، پرشکوہ وزیراعظم ہاؤس، قلعہ نما وزیراعلیٰ ہاؤس اور دیگر حواریوں کے محلات کی ضرورت ہے؟ مگر ایک لکھاری کی باتوں پر کون عمل پیرا ہوگا۔ یہ تو نقار خانے میں طوطی کی آواز بھی نہیں ہے۔

اس کے برعکس، ان حواریوں کی بات معتبر ہے جو جعلی حکمرانوں کے دسترخوان کے خوشہ چیں ہیں۔ جنھیں کسی حکمران میں کوئی عیب یا خرابی نظر نہیں آتی۔ سیاست پر حد درجہ کم لکھتا ہوں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ میرا پورا خاندان، عرصہ دراز سے سیاست کی غلام گردشوں میں گم ہے۔ آج کل سوشل میڈیا پر طوفان مچا ہوا ہے کہ نواز شریف واپس لندن جا رہے ہیں۔ سابقہ وزیراعظم کی واپسی کو ایک سیاسی پارٹی اپنی جیت بتا رہی ہے۔ مگر کیا ن لیگ کے سربراہ نے محدود مدت میں اپنے سارے ذاتی مقاصد حاصل نہیں کر لیے؟ کیا تمام انکوائریاں اور کرپشن کے کیس ختم نہیں ہو گئے؟ کیا انھوں نے احتساب کے ادارے سے تمام فائد ے بھرپور طریقے سے نہیں اٹھا لیے؟ کیا وزارت اعظمی سے لے کر وزارت اعلیٰ تک ان کے ذاتی خاندان تک محدود نہیں ہے؟ صاحبان! نواز شریف نے پاکستان آ کر سیاسی ماسٹر اسٹروک کھیلی ہے۔

اب انھیں پاکستان سے کیا مزید دلچسپی ہو سکتی ہے۔ کھیل ختم، پیسہ ہضم کے مصداق اب پاکستان رہنے کی ضرورت کیا رہ گئی ہے۔ جس ذاتی ایجنڈے پر انھوں نے کامیابی حاصل کرنی تھی، وہ مہربانوں کی شفقت کی بدولت مکمل ہو چکی ہے۔ یہاں ببانگ دہل عرض کرونگا کہ تحریک انصاف نے بھی اپنے دور حکومت میں وہ تمام کام کیے جو انھیں نہیں کرنے چاہیے تھے۔ سیاسی مخالفین کو دیوار میں چنوا دیا۔ بطور وزیراعظم خان صاحب، صرف نعرے لگاتے رہے اور ان کے نزدیک ترین لوگ، مال بنانے میں تندہی دکھاتے رہے۔ خیر آج بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ گنڈا پور کی شہرت حد درجہ خراب ہے۔ مگر اس معاملے کو ایک اور پہلو سے بھی دیکھیے۔ لوگوں میں غم و غصہ اور نفرت بڑھتی جا رہی ہے۔

بلوچستان اور کے پی میں حالیہ مکروہ واقعات، کیا ہمارے ریاستی اداروں کے لیے سوالیہ نشان نہیں ہیں؟ بالکل ہیں۔ منفی پروپیگنڈا کو چھوڑ دیجیے۔ دو صوبے باقاعدہ مقامی لوگوں سے بنے ہوئے لشکروں کی بدولت فنا ہو چکے ہیں۔ دل دکھتا ہے۔ اگر جعلی سیاست دان، فراڈ پر مبنی معاہدے، کرکے کینیا جیسے امیر ملک کو کچا نگل سکتے ہیں تو ہماری کیا حیثیت ہے۔ ہم تو کسی کھاتے میں نہیں ہیں۔ لگتا ہے ہم بھی اپنے انجام کی مقتل گاہ میں پہنچ چکے ہیں!