چناب ایکسپریس لائل پور سے راولپنڈی جایا کرتی تھی۔ دونوں شہروں کو جوڑنے کے لیے ایک برق رفتار ذریعہ تھی۔ چناب ایکسپریس شاید پشاور پر ختم پذیر ہوتی تھی۔ پہلی مرتبہ، یعنی 1972میں پنڈی جانا ہوا۔ کیڈٹ کالج حسن ابدال میں داخلہ مل گیا تھا۔
اب باقاعدہ وہاں کے ہوسٹل میں قیام پذیر ہونا تھا۔ والد محترم ساتھ تھے۔ ہمیں ایک اچھے کمپارٹمنٹ میں دو سیٹیں ملیں۔ شام سے سفر شروع ہوا۔ اور علی الصبح پنڈی پہنچ گئے۔ رات ٹرین میں گزری۔ دو ایسی عمدہ باتیں تھیں جو آج تک ذہن نشین ہیں۔
ایک تو جیسے ہی رات کے کھانے کا وقت آیا۔ ڈبے میں ایک باوردی ویٹر آیا۔ اس نے حد درجہ اجلا لباس پہن رکھا تھا۔ ہاتھ میں کھانے کی ٹرے موجود تھی۔
ویٹر بڑی آسانی سے دو سے زیادہ کھانے کی قابیں اپنے ہاتھ میں پکڑ کر چلتی ہوئی ٹرین میں ایک ڈبے سے دوسرے ڈبے تک آ جا رہا تھا۔ صاف ستھرا کھانا اور کپڑے کے بڑے بڑے سفید نیپکن، سفر میں ملنا کمال تھا۔ ویسے پاکستان اتنا ترقی یافتہ ملک تھا جس کی ٹرینوں اور اس میں موجود سہولتوں کی مثال دی جاتی تھی۔ اوقات کی پابندی، صفائی ستھرائی اورلذیذ کھانا، یہ ہمارے ٹرینوں کے نظام کا خاصہ تھا۔ اب تو معلوم نہیں کہ ریلوے کس طرح چل رہا ہے۔
مگر جب بھی نظام کے بارے میں کچھ معلوم ہوتا ہے۔ تو دل بیٹھ سا جاتا ہے۔ ٹرینوں کے حادثات اب معمول ہیں۔ بوگیوں میں آگ لگنا، پٹریوں سے اتر جانا، حادثات میں ان گنت اموات اور اوقات کی مکمل طور پر غیر پابندی۔ آج سے چند برس پہلے، لائل پور سے لاہور ایک ٹرین پر آنے کا اتفاق ہوا۔ کہنے کو تو وہ اے سی ڈبہ تھا۔ جس میں چالیس کے لگ بھگ نشستیں تھیں۔
پر محسوس ہو ا، کہ پورے کمپارٹمنٹ میں جو مکمل بھرا ہوا تھا۔ صرف آٹھ دس لوگ ہی ٹکٹ خرید کر سفر کر رہے تھے۔ باقی سارے مفت خورے تھے۔ جو مختلف وجوہات کی بنیاد پر مفت سفر کرنے کا لطف اٹھا رہے تھے۔ اس میں محکمہ کے حاضر سروس یا ریٹائرڈ ملازمین اور ان کے جاننے والوں کا جم غفیر تھا۔ سفر کے دوران، معلوم ہوا کہ ڈبے میں تقریباً ہر چیز اپنے انجام تک پہنچ چکی ہے۔
نشستوں کو آگے پیچھے کرنے کا لیور کام نہیں کر رہا تھا۔ صفائی نہ ہونے کے برابر تھی۔ پنکھے تو موجود تھے۔ مگر کم ہی درست حالت میں تھے۔ خیر کیا بات کرنی۔ دل دکھتا ہے۔ ہمارے بہترین ادارے اور نظام کو "ہمارے ہی لوگوں" نے برباد نہیں بلکہ فنا کرکے رکھ دیا ہے۔ علم نہیں کہ موجودہ ٹرینوں کے حالات کیا ہیں۔ گمان یہ ہے کہ ریلوے کا نظام دم توڑ چکا ہے۔
بات 1972 کی چناب ایکسپریس کے بہترین ماحول کی ہو رہی تھی۔ جب علی الصبح، پنڈی اسٹیشن پر پہنچے۔ تو وہاں اعلیٰ درجہ کا ویٹنگ روم موجود تھا۔ جس میں، اس وقت کے حساب سے ہر طرح کی سفری سہولتیں موجود تھیں۔ ویٹنگ روم حد درجہ صاف تھا۔ موجو دہ عملہ بھی مسافروں کی مدد کر رہا تھا۔ وہاں اچھی کرسیاں اورمیزیں لگی ہوئی تھیں۔
دو چار ایسی لمبی کرسیاں بھی موجود تھیں۔ جن پر بڑے آرام سے مسافر لیٹ سکتا تھا۔ بلکہ سو بھی سکتا تھا۔ یہ انگریزوں کے وقت کی آرام دہ طویل کرسیاں تھیں۔ جو شاید اب بھی موجود ہوں۔ اسی اثناء میں والد صاحب کے ایک دوست آ گئے۔ اور ہم ان کے گھر چلے گئے۔
مجھے آٹھویں جماعت میں حسن ابدال میں داخلہ ملا تھا۔ دل میں خوشی اور غم، دونوں طرح کے متضاد جذبے تھے۔ خوشی تو اس چیز کی، کہ ایک بہترین تعلیم گاہ میں جا رہا ہوں۔ اور دکھ اس بات کا، کہ والدین سے بہت دور رہنا پڑے گا۔
بہر حال بات ریلوے اور اس کے منسلک نظام کی ہو رہی تھی۔ کیڈٹ کالج میں پانچ سال زیر تعلیم رہا۔ یہ 1972 اور 1979 کا دورانیہ تھا۔ ہر دو تین ماہ کے بعد چھٹیاں ہوتی تھیں۔ اور لائل پور ریل پر ہی آنا ہوتا تھا۔ ان گنت مرتبہ پنڈی اور لائل پور کے درمیان سفر کرنے کا موقع ملا۔ پنڈی سے آگے بس پر سفر کرتا تھا۔ ویسے ان دو شہروں کے درمیان ایک اور ریل بھی چلتی تھی۔
اس کا نام بھول گیا ہوں۔ بہر حال وہ ٹرین بھی حد درجہ آرام دہ تھی۔ ایک اہم ترین بات یہ بھی ہے کہ میری عمر کے بچوں تک کے لیے حد درجہ محفوظ سفر تھا۔ آپ خود دیکھیے۔ بارہ سال کی عمر سے لے کر سترہ سال کی عمر تک سفر کرتا رہا۔ اسٹیشن سے لے کر ٹرین تک، اور اسٹیشن سے لے کر منزل تک۔ کبھی کوئی معمولی سا ادنیٰ واقعہ پیش نہیں آیا۔
حسن ابدال سے واپسی پر چھ سات طالب علم ہوتے تھے۔ جن سب نے لائل پور آنا ہوتا تھا۔ کیا آج کوئی اپنے بچوں کو، والدین کی غیر موجودگی میں طویل سفر کی ہمت کر سکتا ہے۔ شاید نہیں۔ مگر یقین فرمائیے۔ ریل کا سفر حد درجہ محفوظ اور آرام دہ تھا۔ بڑوں کی بات تو رہنے دیجیے۔ بچے بھی اپنے آپ کو مکمل طور پر محفوظ سمجھتے تھے۔
آج کے حالات، آپ سب مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ ریل یا کوئی بھی سفر تو درکنار، اب تو لاہور شہر بھی ڈاکوؤں، جیب کتروں اور جرائم پیشہ لوگوں کی گرفت میں ہے۔ شہر کے جس علاقے میں رہتا ہوں۔ وہاں گھروں میں ڈکیتی کی واردتیں اکثر ہوتی رہتی ہیں۔ بینک سے پیسے نکلوا کر باہر آنا بھی باعث آزار بن سکتا ہے۔ رہزنوں کے ایسے گروہ موجو د ہیں۔ جو معلومات کی بنیاد پر بینک سے پیسے لے کر باہر آنے والوں کو بڑے سکون سے لوٹ لیتے ہیں۔
پولیس تو خیر صرف اب نمائشی سی ہے۔ نوے فیصد چوریاں یا ڈاکوں کی لوگ تھانے میں رپورٹ ہی نہیں کرواتے۔ آج بھی پولیس اسٹیشن تمام تر پروپیگنڈے کے باوجود، لوگوں کی مدد کرنے کے وطیرہ سے حد درجہ دور ہیں۔ یہاں تو باراتیں لٹ جاتی ہیں۔ ڈاکو سڑکیں روک کر، بڑے اہتمام سے گھنٹوں مسافروں کو لوٹتے رہتے ہیں۔ کوئی بھی پرسان حال نہیں۔
مگر صاحبان! آج سے پچاس ساٹھ سال پرانا پاکستان حد درجہ مختلف تھا۔ قدرے محفوظ اور بہتر ڈگر پر چلنے والا لبرل ملک۔ ریلوے کے بارے میں عرض کر رہا تھا۔ ویسے یادآیا کہ چوتھی کلاس میں اپنی والدہ کے ہمراہ، لائل پور سے کراچی جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ تقریباً اٹھارہ گھنٹے کا دورانیہ تھا۔ وہ سفر بھی حد درجہ آسان اور آرام دہ تھا۔
ویسے، پرانے پاکستان کی پوری دنیا میں ترقی کے حوالے سے مثال دی جاتی تھی۔ مثال تو آج بھی دی جاتی ہے۔ مگر تنزلی اور گراوٹ کی پاتال کے حوالے سے۔ ذرا سوچیے۔ ہم نے 1947 میں برطانوی حکومت سے حد درجہ بہترین ادارے وراثت میں لیے تھے۔ لا اینڈ آرڈر کے حوالے سے پنجاب پولیس، اسکاٹ لینڈ یارڈ کے پایہ کی تسلیم کی جاتی تھی۔ عدلیہ کا ایک عمدہ ادارہ بھی موجود تھا۔ شدت پسندی اور مذہتی نفرت کا نام و نشان تک نہیں تھا۔
کسی کو یہ نہیں پتہ تھا کہ اس کے بہترین دوست کا مذہبی فرقہ کونسا ہے۔ ٹرین کے عملے کی وردی بھی دیکھنے کے قابل ہوتی تھی۔ ٹرین کے گارڈ کا لباس حد درجہ عمدہ کوٹ پینٹ ہوتا تھا۔ اور وہ بھی خوش لباسی کی ایک مثال تھی۔ پر ہوا کیا۔ ہم نے۔ جناب، ہم نے بذات خود، اپنے بہترین اداروں اور اعلیٰ نظام کو لالچ، ہوس، اور دو نمبر معمول کے حوالے کرڈالا۔ تیس چالیس برس تک تو پھر بھی پرانی روایات کے تحت، نظام ٹوٹا پھوٹا چلتا ہی رہا۔ مگر اسی کی دہائی کے بعد تو چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
رہزن، ہمارے قائدین کہلانے اور نا انصافی کا وہ گردو غبار اٹھا، جس نے ملک کے چہرے اور پورے جسم کو گرد آلود کر دیا۔ اداروں اور نظام کی طرف نظر ڈالتا ہوں۔ تو بربادی اور ابتری کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ اور یہ سب کچھ، کسی غیر نے نہیں ہم لوگوں نے بذات خود برپا کی ہے۔ ظلم تو یہ ہے کہ تنزلی کا سفر رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا!