اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا تہترواں اجلاس تھا۔ اکثر ممالک کے سربراہان، بادشاہ، وزرائے اعظم مرکزی عمارت میں آ جا رہے تھے۔ جنھیں، قیمتی ترین گاڑیوں سے کروفر سے اترتے ہوئے، ہر بندہ دیکھ سکتا تھا۔ گارڈز، مقامی پولیس، محافظین، عمال اور چوب داروں کی بہتات تھی۔ باادب باملاحظہ والی کیفیت ہر طرف تھی۔ اکثر مندوبین نے لاکھوں ڈالرکے سوٹ اور قیمتی ترین گھڑیاں پہن رکھیں تھیں۔ اسی بادشاہی ہجوم میں ایک نوجوان آدمی یو این کی عمارت سے نکلا۔ ہاتھ میں ایک کالے رنگ کا بیگ تھا۔ سادہ سا سوٹ پہن رکھا تھا۔
معلوم ہوتا تھا کہ کسی ملک کے سربراہ کا ادنیٰ سا ملازم ہے۔ مرکزی عمارت کے باہر ایک باغ تھا جو آج بھی موجودہے۔ یہ شخص گھاس کے ساتھ بنی ہوئی سیمنٹ کی چھ یا سات انچ کی دیوار پر بیٹھ گیا۔ بیگ کھولا، کاغذ نکالے اور ان کو غور سے پڑھنا شروع کر دیا۔ ہاتھ میں پینسل تھی۔ کاغذ پر مسلسل نوٹس لے رہا تھا۔ پھر گھاس پر لیٹ گیا۔ کاغذوں کو ترتیب میں لانا شروع کر دیا۔ لوگ آ جا رہے تھے۔ کوئی بھی اس پر توجہ نہیں دے رہا تھا۔ ایک فوٹوگرافر وہاں سے گزرا اور زمین پر بیٹھے شخص کو دیکھا تو ششد رہ گیا۔ یہ شخص سوئٹزرلینڈ کا صدر، ایلین برسٹ (Alain Berset) تھا۔
فوٹوگرافر نے اس کی تصویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دی جو پوری دنیا میں وائرل ہو گئی۔ اگلے دن اخبارات اسی تصویر سے اٹے ہوئے تھے۔ دراصل ایلین اقوام متحدہ میں اپنی تقریر تیار کر رہا تھا، تھوڑی دیر کے بعد اٹھا، بیگ اٹھایا اور یواین بلڈنگ میں داخل ہو گیا۔ اس کے ساتھ کوئی اسٹاف، اے ڈی سی اور محافظ نہیں تھا۔ جب تقریر کا وقت آیا تو انتہائی موثر تقریر کی۔ پھر پیدل ہوٹل کی طرف روانہ ہو گیا جو پندرہ سے بیس منٹ کی مسافت پر تھا۔
یاد رہے کہ یہ اس ملک کا سربراہ تھا جہاں فی کس اوسط سالانہ آمدنی چھیاسی ہزار ڈالر اورجی ڈی پی کا حجم آٹھ سوبلین ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ جہاں برسوں سے کوئی قتل، ڈاکا، اغوا برائے تاوان، کسی خاتون، بچی یا بچے کا ریپ نہیں ہوئی۔ جہاں رہنا ہر شخص اور خاندان کا خواب ہے۔ جی! میں سوئٹزر لینڈ کا ذکر کر رہا ہوں۔ شاید آپ کو یقین نہ آئے کہ ایلین نے ایک سرکاری میٹنگ کے لیے فلاڈلفیا جانا تھا۔ لائن میں لگ کر عام آدمیوں کی طرح ٹکٹ خریدا اور ٹرین پرمیٹنگ کے لیے روانہ ہو گیا۔ واپسی بھی اسی طرح ہوئی۔ نیویارک کے جس ہوٹل میں ایلین ٹھہرا ہوا تھا، وہاں اکثر اوقات کھانا بھی خود ہی بنا لیتا۔ ایک امیر ترین ملک کے بااثر صدر کا یہ رویہ حد درجہ قابل قدر اور پر تعظیم ہے۔
توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ سوئس صدر نے باتوں سے نہیں عمل سے ثابت کیا ہے کہ سرکاری سادگی کیا ہوتی ہے۔ عمل وہ واحد چیز ہے جس کے ذریعے آپ کسی بھی شخص کے اندر جھانک سکتے ہیں۔ عمل وہ ایکسرے ہے جو آپ کے باطن کو وضاحت سے سب کے سامنے لے آتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی فرمائے کہ وہ سادگی پسند ہے مگر دو ڈھائی کروڑ کی گاڑی میں سفر کرے، محافظین کا لاؤ لشکر ساتھ ہو، رہائش بھی حد درجہ پر شکوہ ہواور پھر دعویٰ کرے کہ وہ ایک سادہ سا انسان ہے تو ہنسنے کے سوا کیا کیا جا سکتا ہے۔
اور اگر یہی حرکت ملک کے حکمران کرے اور سرکاری خرچ پر کرے تو سوائے ماتم کے مزید کیا کیا جا سکتا ہے۔ جائز دولت کوئی بری چیز نہیں بلکہ یہ خدا کا تحفہ ہے۔ مگر دوغلا پن اور منافقت سب سے زیادہ قبیح، سماجی اور مذہبی جرائم ہیں۔ یہ دو عملی ہمارے ہر دور کے حکمرانوں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ہمارے ملک میں تو خیر منافقت ہی کاراج ہے۔ ایک چھوٹا سا واقعہ عرض کرتا چلوں۔ پاکستان کے ایک سابق صدر کے بیٹے کی امریکا میں ایک یونیورسٹی میں تعلیم مکمل کرنے کی تقریب تھی۔ گریجویشن تھی، یہ ایک نجی تقریب تھی۔
سرکاری بابو کے نادر خوشامدی مشورہ کے کے تحت اسے سرکاری مصروفیت بنایا گیا اور جناب صدر، اپنے اہل خانہ کے ساتھ امریکا روانہ ہو گئے۔ طبلچی اعلان کرتے رہے کہ جناب صدر تو امریکا میں سرکاری میٹنگز کے لیے تشریف لے گئے تھے۔
بیٹے کی تقریب تو اتفاق سے اس دورانیہ میں تھی۔ واہ صاحبان، کیا بات ہے۔ بے وقوف بنانا اور کیا ہوتاہے۔ دو چار باغی ٹائپ صحافیوں نے ٹوں ٹاں کی، مگر پھر انھیں بھی خاموش کرا دیا گیا۔ یہ صرف ایک صدر یا وزیراعظم تک محدود نہیں۔ سب نے سرکار کے وسائل کا کھلے دل سے استعمال کیا ہے۔ کسی سیاست دان یا حکمران میں انیس بیس کا بھی فرق نہیں۔ ہر شخص نہلے پر دہلا ہے۔ طالب علم کسی بھی سیاسی گروہ کا پیروکار نہیں جو درست سمجھتا ہوں، وہی لکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ سرکاری ملازمت کے طویل دورانیے میں متعدد حکمرانوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔
مگر سادگی اور ایمانداری کے عملی نمونے بہت کم نظر آئے، پاکستان کے ایک سابقہ وزیراعظم نے یو این او کی جنرل اسمبلی میں تقریر کرنے جانا تھا، ایک سرکاری بابو مجھے کہنے لگے کہ وہ وزیراعظم کے ہوائی جہاز میں لندن تک جائیں گے، ان سے کوئی ضروری بات کرنی ہے۔ میں حیران تھا کہ یہ کون سی مشاورت ہے جو صرف سرکاری جہاز میں لندن کی مسافت کے دوران ہی ہو سکتی ہے۔
بہر حال ایسا ہی ہوا۔ سرکاری بابو سرکاری خرچ پر لندن گئے، ایک دو دن قیام کیا اور شاپنگ کی گئی اور پھر وزیراعظم نیویارک تشریف لے گئے۔ ان کے ہمراہ ان کے اہل خانہ بھی تھے۔ نیویارک میں سرکاری خرچ پر تین ہزار ڈالر یومیہ والے ہوٹل میں کئی شاہانہ کمرے بک کرائے گئے۔ سفارت خانے نے وفد کے لیے مہنگی ترین لیموزین گاڑیاں کرائے پر حاصل کیں۔ تمام اخراجات، پاکستان کے سرکاری خزانے سے ادا کیے گئے۔ محترم وزیراعظم نے جب یو این او میں تقریر فرمائی تو ان کا خاندان ساتھ تشریف فرما تھا۔
لگتا تھا کہ ہمارے جیسے غریب ملک کا وزیراعظم، امریکا جیسے ملک کو امداد دینے کے لیے آیا ہے۔ اسمبلی میں اس تقریر کی تصاویر تمام پاکستانی اخبارات میں شایع ہوئیں۔ مگر صاحبان!کچھ بھی نہیں ہوا۔ تو جناب! یہ ہے ہمارا اصل پاکستان اور ہمارے محب وطن حکمران۔ پاکستان کے غیر جمہوری صدور بھی بیرونی دوروں میں اسی طرح کی بے اعتدالی کرتے رہے۔ بے اعتدالی نہیں بلکہ اس غریب قوم کے ساتھ معاشی ظلم ہوتا رہا مگر راوی ہمیشہ کی طرح خاموش ہے۔
ایک صوبائی حکومت کے چیف پائلٹ نے بتایا کہ وزیراعلیٰ کا سرکاری جہاز، دن میں تین سے چار بار اسلام آباد آتا اور جاتا ہے۔ ابھی کچھ دنوں کی بات ہے کہ ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ، وزیراعلیٰ کے سرکاری جہاز پر کراچی سے اسلام آباد تشریف لے جا رہے تھے کہ جہاز ملتان میں خراب ہو گیا، وہاں سے موصوف، سرکاری پروٹوکول کے ساتھ بذریعہ موٹر وے اسلام آباد روانہ ہو گئے۔ تکلیف دہ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے سیاسی کھیت میں زہریلی کھمبیاں جو اپنے آپ کو لیڈر کہتے ہیں، وہ تو پیدا ہو سکتی ہیں۔ مگر ایلین برسٹ جیسے سادہ مگر عظیم لوگ پیدا نہیں ہو سکتے، اگر کوئی اتفاق ہو بھی گیا تو اسے یہاں کوئی پنپنے نہیں دے گا۔