تیئس جون1947 کو پنجاب اسمبلی کااجلاس برپاتھا۔ مشکل نکتہ پراسمبلی نے جمہوری اندازیعنی ووٹ کے ذریعے فیصلہ دیناتھا۔ یہ حددرجہ نازک مرحلہ پنجاب کی پاکستان میں شمولیت کاتھا۔ پورے پنجاب کی بات ہورہی ہے۔ یعنی مغربی اورمشرقی پنجاب۔ ہر صاحبِ نظرکومعلوم تھاکہ اگرپنجاب، نئے ملک پاکستان کاحصہ نہ بن پایاتوقائداعظم کے لیے وہ مشکلات کھڑی ہوجائینگی، جس کا اندازہ کرنابھی مشکل ہے۔
تصورکیجیے کہ پوراپنجاب، یعنی لاہور اور دیگر شہر، اٹک تک قانونی طریقے سے انڈیاکے پاس ہوتے، تو ہمارے ملک کا کیا نقشہ ہوتااورکیاحال ہوتا۔ اسمبلی میں گرماگرمی کاماحول تھا۔ اچانک سکھ رہنما، ماسٹرتاراسنگھ نے نیام سے تلوار نکالی۔ زورسے نعرہ لگایاکہ اگرکسی نے پنجاب کی تقسیم کی بات کی یاکہاکہ پنجاب کوپاکستان کاحصہ بننا ہے، تو اسے قتل کردونگا۔ پنجاب صرف اورصرف انڈیاکاحصہ بنے گا۔ سب ممبران سہم کربیٹھ گئے۔ تمام لوگ تاراسنگھ کی طاقت کوجانتے تھے۔
کم ازکم کسی مسلمان ممبرنے تو جرات نہیں کی کہ تاراسنگھ کی بات کاجواب دے۔ اچانک سفید پگڑی پہنے، ایک گھنی مونچھوں والے شخص نے جرات سے کہا، کہ پنجاب پاکستان کاحصہ بن کر رہے گا۔ دیکھتاہوں کہ کون ہمت کرتاہے کہ روک سکے۔ حددرجہ رعب دار والا شخص، ماسٹرتاراسنگھ کے سامنے ڈٹ کرکھڑاہوگیا۔ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرکہنے لگا، کہ ہمت ہے توچلاؤاپنی تلوار، مقابلہ کرونگا۔ دونوں ممبران گھتم گھتا ہوگئے۔ بہت مشکل سے دیگر ممبران نے دونوں کوزخمی ہونے سے بچایا۔ یہ جرات دکھانے والا عظیم انسان دیوان بہادرسنگھا تھا۔ جو مسیحی برادری سے تعلق رکھتاتھا۔ تاریخ کاایک عظیم کردار، جس کوآج شائد کوئی بھی نہیں جانتا۔ یا بہت کم لوگ یاد رکھے ہوئے ہیں۔
پنجاب اسمبلی میں قرارداد پیش کی گئی۔ امکانات حدسے زیادہ تھے کہ پنجاب ہندوستان کے ساتھ ہی رہیگا۔ ووٹ پڑنے لگے۔ صوبہ کوہندوستان کاحصہ بنانے کے لیے اَٹھاسی ووٹ آئے۔ لگتایہی تھاکہ اتنے زیادہ ممبران کی موجودگی میں اب پنجاب کانئے ملک میں شامل ہوناناممکن ہوگااوریہ شائدتقسیم بھی نہیں ہوپائے گا۔ بڑے بڑے مسلمان جاگیردار، کلغیوں والے امیر و کبیر سکھ، ہندوسیٹھ پوری شان وشوکت سے بیٹھے تھے۔ اب مبارک بادوں کاوقت قریب آرہا تھا۔ جب اسپیکرنے اعلان کیاکہ پنجاب کوپاکستان کاحصہ ہوناچاہیے۔
اس پرووٹنگ ہوگی۔ توتقسیم کے حق میں بھی اَٹھاسی ووٹ ہی آئے۔ ان میں سے اکثریت مسلم لیگی ممبران کی تھی۔ اب پوری اسمبلی میں سنجیدہ قسم کی خاموشی بلکہ موت جیسی خوفناک خاموشی تھی۔ اب کیاہوگا۔ پاکستان، پنجاب کے بغیرتوکچھ بھی نہیں ہوگا۔ یا خدا، اب معاملہ کیسے سلجھے گا۔ اس ماحول میں دیوان بہادرسنگھاجواسمبلی کے اسپیکربھی تھے، نے وارفتگی سے اعلان کیا، کہ میں، پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالتاہوں۔ بطوراسپیکران کے ووٹ نے88 کی گنتی کوایک ووٹ سے بڑھادیا۔ سنگھاصاحب کے ساتھ سیسل اورفضل الٰہی اُٹھے اور انھوں نے بھی پاکستان کی حمایت کردی۔
یہ دونوں بھی مسیحی تھے۔ یعنی اب قراردادصرف اورصرف تین ووٹوں سے کامیاب گردانی گئی۔ اکانوے ممبران نے پنجاب کو پاکستان کا حصہ بنانے کی حمایت کی۔ اور88ممبران نے اس کی مخالفت کی۔ اٹھاسی کی گنتی کوصرف تین ووٹوں سے شکست ہوئی۔ جس میں نمایاں ترین ووٹ سنگھا صاحب کاتھا۔ یہ تسلیم نہ کرناکم ظرفی ہوگی، کہ پنجاب کا پاکستان سے الحاق صرف اورصرف تین کرسچن ممبران اسمبلی کی بدولت ہوپایا۔ سنگھاصاحب، قائداعظم کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ ہرجگہ کہتے تھے کہ ہندو مذہب، ذات پات پرکھڑاہواہے۔
اس میں مسیحوں کی عزت کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ جناح صاحب، جو پاکستان بنارہے ہیں، اس میں سبھی لوگوں کی ترقی کے بھرپور مواقعے موجود ہونگے۔ سنگھا صاحب، 1948 میں قائداعظم کی وفات کے ٹھیک ایک ماہ بعد، جہانِ فانی سے کوچ کرگئے۔ انکاخاندان سنگھاصاحب کی وفات کے کچھ عرصے بعدہی پاکستان سے ہجرت کر گیا۔ مگرسچ صرف اورصرف یہ ہے کہ آج وہ پنجاب جو پاکستان کا سب سے بڑاصوبہ ہے، صرف اورصرف سنگھاصاحب کی بدولت اس ملک کاحصہ ہے۔ ورنہ سب کچھ اتنا مختلف ہوتا، جسے تصورکرنابھی ناممکن ہے۔
کیا موجودہ صورتحال میں ہمارے ملک میں اقلیتیں محفوظ ہیں۔ کیاآزادی سے اپنی زندگی گزارسکتی ہیں۔ اس پرحددرجہ کھلی بحث درکارہے۔ ویسے ہمارے سماج میں مکالمہ کی سزاتوموت ہے۔ مگر پھر بھی یہ بحث ازحداہم ہے۔ 1947میں، یعنی قائداعظم کے پاکستان میں تیئس فیصداقلیتیں تھیں۔ ان میں کرسچن، یہودی، ہندو، جینز، پارسی سب شامل تھے۔ اور اب انکاتناسب سات سے آٹھ فیصدرہ گیا ہے۔ کہاں تیئس فیصد اور کہاں یہ سات فیصد۔ سوچنے کا مقام توہے کہ ہم نے اپنے ملک کے ساتھ آخر کیا کیا ہے۔ کہ یہاں سے اقلیتوں کی اکثریت ہجرت کرچکی ہے۔
یہ اَمرتومحض فریب ہے کہ ہمارے ملک میں اقلیتوں کے لیے تمام آئینی تحفظات حقیقت میں موجود ہیں۔ میری عمرکے لوگوں کاالمیہ یہ بھی ہے کہ ہم نے نسبتاًبہتر اور آزاد پاکستان دیکھاہے۔ لائل پورکی مثال دیناچاہونگا۔ پچاس اورساٹھ کی دہائی میں وہاں ایسے کئی بہترین تعلیمی ادارے موجود تھے، جہاں مسیحی ننزاورمسیحی اساتذہ بلاخوف تعلیم دیاکرتے تھے۔ میری چھوٹی بہن، سیکرٹ ہارٹ اسکول لائل پورمیں پڑھی تھی۔ یہ پورے ضلع میں لڑکیوں کابہترین اسکول تھا۔ اس میں غیرملکی ٹیچرزبھی موجود تھیں۔ کسی کواس سے واسطہ ہی نہیں تھاکہ یہ غیرمسلم ہیں۔
یہ خواتین، انتہائی عرق ریزی سے مقامی بچیوں کو پڑھاتی تھیں۔ اگرکوئی لڑکی، کسی بھی مضمون میں کمزور ہوتی تھی، تویہ اسکول کے ٹائم کے بعداسے مفت پڑھاتی تھیں۔ لائل پور کے وہ تعلیمی ادارے جن میں مسیحی ٹیچرز تھیں، تعلیمی میدان میں دوسرے اسکولوں سے حددرجہ بہتر تھے۔
کسی طالبعلم کواس سے غرض نہیں تھی کہ ڈیسک پرساتھ بیٹھاہوابچہ مسلمان ہے یاغیرمسلم۔ وہم وگمان ہی سے باہرتھاکہ صرف عقیدہ اورمذہب کی بنیادپرکسی بھی بچے سے نفرت کی جائے۔ پتہ نہیں اب کیاحال ہے۔ کیونکہ میں توپچھلی صدی کی بات کر رہا ہوں۔ تعلیمی ادارہ میں کرسچن ٹیچرزکی موجودگی اس بات کی دلیل تھی کہ یہاں معیارِتعلیم بہت بہتر ہے۔ یہ نہیں کہ مسلمان اساتذہ اچھی طرح نہیں پڑھاتے تھے۔ وہ بھی طالبعلموں پر حددرجہ محنت کرتے تھے۔ بالکل اسی طرح کیڈٹ کالج حسن ابدال میں تاریخ پڑھانے والے استاد، جناب جی لارنس تھے۔ بہت بڑے تاریخ دان اور حددرجہ شفیق انسان، کبھی کسی بھی طالبعلم نے یہ نہیں سوچاکہ ہمارا ٹیچرکرسچن ہے۔ 1972کی بات کر رہا ہوں۔ یہ سوچ ہی نہیں تھی کہ مذہب کی بنیادپرکسی بھی انسان سے اَبترسلوک کیاجاسکتاہے۔
لاہورکی طر ف آئیے۔ بھلے وقتوں میں لاہور میں سب سے بہترین اسپتال یو سی ایچ تھا۔ شہرکی سب سے نمایاں جگہ یعنی گلبرگ میں موجود، یہ وسیع وعریض اسپتال کسی بھی اعتبارسے کسی بھی مقامی اسپتال سے کمترنہیں تھا۔ یہاں ہرمذہب سے تعلق رکھنے والے انسان کامفت یابہت کم پیسوں میں علاج کیا جاتا تھا۔ مگرہم نے یوسی ایچ جیسے بڑے ادارے کوبھی غیرفعال کردیاہے۔
ایف سی کالج کاذکرکیے بغیر، لاہور کا ذکر نامکمل ہے۔ ایف سی کالج میں زیرِ تعلیم نہیں رہا۔ مگر بہت سے دوست وہاں پڑھتے تھے۔ ان کوملنے اکثر آنا جانالگارہتاتھا۔ پوری ذمے داری سے کہہ سکتاہوں کہ ایف سی کالج کے ہوسٹل بہت بہتراوراعلیٰ تھے۔ ایف سی کالج میں غیر ملکی اساتذہ کافی تعدادمیں موجود تھے۔ اسی طرح انار کلی کے شروع، یا نیلا گنبدکے سامنے یوئنگ ہال نام کاہوسٹل تھا۔ یہ 1916 میں بنایا گیا تھا۔ اوریہ طلباء کے لیے اعلیٰ ترین ہوسٹل تصور کیا جاتاتھا۔ کمرے حددرجہ شاندارتھے۔ یہ ہاسٹل آج بھی شادہے۔
پاکستان کے کسی کونے میں چلے جائیے۔ غیر مسلموں کے بنائے ہوئے اسپتال، تعلیمی ادارے، سڑکیں، پُل، فلاحی ادارے نظرآئینگے۔ لاہورتوخیرہے ہی سرگنگارام کی محنت کاثمر۔ مگرہم نے اپنی اقلیتوں کے ساتھ ہرگزہرگزانصاف نہیں کیا۔ انھیں سماجی سطح پربرابر تک تسلیم نہیں کیا۔
ان کے اداروں کے نام بدلنے کی بھی ہرممکن کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے آئین میں درج شدہ اقلیتوں کے حقوق صرف کاغذپرچھپے ہوئے بے جان لفظ ہیں۔ جن پرکبھی کوئی عمل نہیں کرتا۔ مگر ذرا غورکیجیے کہ اگردیوان بہادرسنگھانہ ہوتا تو پاکستان کس جغرافیائی حالت میں ہوتا۔ یقین ہے کہ آج سنگھا صاحب کی روح کسی خوشبوداربادل کے اوپر بیٹھی اپنے ووٹ سے قائم کردہ خطے کوغورسے دیکھ رہی ہوگی۔ میں توصرف یہ کہہ سکتا ہوں۔ شکریہ، سنگھا صاحب!