دنیا کے ہر کونے سے افغانستان پر طالبان کے قبضہ کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ کہیں پر نوحہ پڑھا جا رہا ہے اور بہت کم مقامات پر شہنائی بجائی جا رہی ہے۔
قومی مفادات کا تحفظ تو ہر سلطنت کرتی ہے۔ بے شک جتنی مرضی شکستہ پا ہو۔ پاکستان کا بیانیہ صرف اور صرف ہمارے میڈیا پر تسلسل سے جاری و ساری ہے۔ باقی تمام دنیا، افغانستان کی صورت حال پر ہم سے متضاد بات کر رہی ہے۔
شائد ہم اپنی جگہ درست ہوں۔ آپ کو حیرانگی ہو کہ خاکسار اب افغانستان کے متعلق سوچنا تقریباً چھوڑ چکاہے۔ مگر پڑھنے کی عادت جاتی نہیں۔ اس لیے کسی بین الاقوامی جریدہ میں افغانیوں کا حال احوال معلوم ہو ہی جاتا ہے، مگر ایک امر تو تسلسل سے علم میں آتا رہتا ہے۔
افغانستان صرف اور صرف قتل و غارت، خانہ جنگی، نسلی تعصب اور دہشت گردی کا دوسرا نام بن چکا ہے۔ چالیس پچاس برس سے یہ ہی المیہ جاری ہے۔ نہ ختم ہونے والی بربادی کی داستان۔ اس جنگ کو ہمارے پالیسی ساز افراد زبردستی کھینچ کر اپنے ملک میں لے آئے ہیں۔ ہماری بہترین حکمت عملی کی بدولت اب ہم لہو لہو ہیں۔
آئے روز لوگ لقمہ اجل بنتے ہیں۔ اب تو ہم جیسے بدقسمت لوگوں نے خون ریزی کواپنے اندر جذب کر لیا ہے۔ دو شہید ہو گئے یا پانچ۔ بس ایک خبر کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ ماتم تو ان گھروں میں ہوتا ہے جہاں لاشیں جاتی ہیں۔ رات رات بھر تو مائیں، بہنیں، بیویاں اور معصوم بچے روتے ہیں۔ گھر کے سربراہ یا روزی کمانے والے کے مرنے کے بعد کی مشکلات پر تو بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔
افغانستان کو رہنے دیجیے۔ پاکستان میں ایسے بے سہارا خاندانوں کی طویل فہرست ہے، جن کے سرکردہ افراد اُس دہشت گردی سے لقمہ اجل ہوئے، جس سے ان کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا۔
کیا کھل کر عرض کی جا سکتی ہے کہ افغانستان کو بزور شمشیر فتح نہیں کیا گیا۔ دراصل یہ ایک ایسا سمجھوتا تھا جسے بین الاقوامی طاقتوں نے میز پر بیٹھ کر طے کیا۔ ترقی یافتہ ممالک کی افواج اور ان کے حواریوں کی اکثریت ملک سے نکلی اور طالبان نے عین فیصلہ کی رو سے کابل کی حکومت سنبھال لی۔
اسکرپٹ کے مطابق کسی طاقت ور ملک نے طالبان کی مزاحمت نہیں کی۔ لہٰذا پورا افغانستان بڑے قرینے سے طالبان کے حوالے کر دیا گیا۔ کسی بڑے خون خرابے یا جنگ کیے بغیر۔ آپ اسے فتح کیسے کہہ سکتے ہیں۔ ایک حد درجہ طاقت ور فریق نے افغانستان کو خالی کیو ں کیا۔ یہ ایک سنجیدہ سوال ہے۔ جس کا جواب صرف اور صرف معاشی ہے۔
امریکا کی معیشت اس بے مقصد جنگ کا اقتصادی بوجھ برداشت کرنے سے قاصر ہو چکی تھی۔ اور پھر طالبان کے اکثر قائدین کہیں نہ کہیں سے امریکا کے ساتھ رابطہ رکھتے ہیں۔ شائد آپ کو یقین نہ آئے۔ مگر یہ سب کچھ ایک درج شدہ معاہدے کے تحت ہو رہا ہے۔ باقی سب کچھ، زیب داستان کے لیے ہے۔ جو اس وقت ہمیں دکھایا جا رہا ہے۔ دراصل پیچیدہ سفارتی معاملات کبھی بھی صاف ستھرے یا دودھ کے دھلے نہیں ہوتے۔
کہیں نہ کہیں ان میں وہ سب کچھ موجود ہوتا ہے جس کا اقرار کرنا ناممکن ہے۔ خفیہ ایجنسی یعنی سی آئی اے کا سربراہ طالبان کے سربراہان سے کابل میں ملتا ہے۔ سی آئی اے کے سربراہ کو کابل بلاتے ہیں اور پھر طویل ترین ملاقاتیں بھی فرماتے ہیں۔
طالبان کا یہ کہنا کہ امریکا اپنا سفارت خانہ دوبارہ بحال کرے تاکہ وہ امریکا سے اپنی امداد اور ویزے لے سکیں۔ بیانیہ یہ ہو کہ امریکا نے افغانستان کو برباد کر دیا۔ مگر پھر اس ظالم ملک سے طالبان کی بہت دیر سے طے شدہ رابطہ کیا عجیب سا نہیں لگتا۔ جھوٹ کو ہم تمام لوگ پسند کرتے ہیں۔ سچ تو خیر ہمارے جیسے ادنیٰ نظام سے کب کا رخصت ہو چکا۔ اس لیے دروغ گوئی پر تکیہ کیا جا سکتا ہے۔
طالبان نے جو کابینہ بنائی ہے۔ وہ بھی بین الاقوامی اداروں کے دباؤ پر ہے۔ انھیں معلوم ہے کہ دولت تو مغربی ممالک اور اداروں کی تجوریوں میں ہے۔ لہٰذا اس کی چابی حاصل کرنے کے لیے چند تکلفات کرنے ضروری ہیں۔ سو وہ کیے گئے۔
اب یہ کہنا کہ اس میں کوئی خاتون نہیں ہے یا اقلیتوں کاکوئی نمایندہ نہیں ہے۔ اس کا سیدھا جواب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سابقہ ترقی پسند حکومت نے خواتین اور اقلیتوں کو ہر میدان زندگی میں داخل کروا کے کیا تیر مار لیا؟ بھلا سابقہ دور میں افغانستان میں ترقی کی شرح دس فیصد ہو چکی تھی۔ ہرگزنہیں۔ افغانستان جیسا تھا۔ ویسا ہی رہے گا۔
اس کی جبلت کبھی تبدیل نہیں ہو گی۔ لہٰذا کسی قسم کی پریشانی یا گریہ کی ضرورت نہیں۔ باقی مغربی میڈیا ہے۔ اس نے تو وہی کرنا ہے جو ان کی ریاستیں انھیں حکم دیتی ہیں۔ طالبان کی تھوڑی سی برائی کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں۔ سو جزوی جزوی تنقید ہوتی رہے گی۔ میری نظر میں تو طالبان کابینہ پر نکتہ چینی ہو ہی نہیں سکتی؟ تمام وزراء اپنے اپنے کام میں یکتا ہیں۔ ہاں۔ کچھ امریکا کے کہنے پر بین الاقوامی حیثیت کے دہشت گرد قرار دیے گئے ہیں۔
مگر یہ تو معمولی سا الزام ہے۔ ہمارے ملک میں سیاست دان اور طاقتور طبقہ، اربوں ڈالر کی کرپشن کرنے کے باوجود معصوم ہیں۔ تو بہر حال طالبان پر کرپشن کا کوئی سنجیدہ الزام تو نہیں ہے۔ اگر کرپشن کے شہنشاہ ہمارے حاکم ہو سکتے ہیں۔ تو یہ امریکا کی پالیسی کے مطابق دہشت گردی کے معمولی سے الزامات طالبان کابینہ کے لیے مکمل طور پر بے حیثیت ہیں۔
ہمارے ایک طاقت ور حلقہ افغانستان میں طالبان کی آمد کو مذہبی رنگ بھی دیتا ہے۔ شاید کچھ فہمیدہ لوگ اسے کفر اور اسلام کی جنگ بھی قرار دیتے ہیں۔ یہ بھی گردانتے ہیں کہ اسلام کی سربلندی بھی افغانستان سے ہو گی۔
مجھے اس پر بھی کوئی حیرانگی نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ مذہب کے معاملے میں وسیع مطالعہ کے باوجود ذاتی معلومات بہت کم ہیں۔ لہٰذا جو صائب حضرات، اسے اسلام کا معرکہ قرار دے رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے وہ بھی ٹھیک ہوں۔
گمان ہے کہ اب تو غلط ہے ہی کوئی نہیں۔ سب ہی صحیح ہیں۔ یہ بحث ہی اب لا حاصل ہے۔ ویسے بھی دلیل کی بنیاد پر بحث کرنے کے لیے تو فرنگی بیٹھے ہی ہوئے ہیں۔ بھلا ہمارا دلائل سے کیا واسطہ؟ ہمیں تو تھوڑے عرصے میں پوری دنیا کا اقتدار تھالی میں رکھ کر پیش کر دیا جائے گا۔ کم از کم ہمارے ملک میں تو اکثریت اس طرح کی خوشنما باتیں سوچتی ہے۔
سوشل میڈیا میں افغانستان کے دو صحافیوں کی تصاویر بھی موجود ہیں جنھیں خواتین کے احتجاج کی کوریج کرنے پر بھرپور تشدد کانشانہ بنایا گیا۔ پوری دنیا میں ان کے زخموں پر لوگ سراپا احتجاج ہیں۔ مگر اس سے ہمارا کیا لینا دینا۔ کبھی کبھی ہم بھی بلکہ اکثر پاکستانی صحافیوں کو بھی سبق سکھاتے رہتے ہیں کہ بچوں سنبھل کر چلو۔ یہ تم کس طرح کی باتیں کہنے لگے ہو۔ انھیں مار پیٹ کر اچھے بچے بنانے کی کوشش ضرور کی جاتی ہے۔
کبھی کامیاب اور اکثر ناکام۔ اگرکابل میں مقدور بھر خواتین احتجاج کر لیتی ہیں اور کافر میڈیا انھیں بار بار دکھاتا ہے تو بھلا اس میں طالبان کا کیا قصور؟ ویسے خواتین کے متعلق ہمارے معاشرے میں بھی کوئی خاص عزت والی بات نہیں کی جاتی۔ اسے "مرد کی جوتی" تک قرار دیا جاتا ہے۔
یقین نہ آئے تو اردو محاوروں کی لغت دیکھ کر رہنمائی حاصل کر لیجیے۔ اب افغانستان میں کوئی مسئلہ نہیں رہا؟ اب ہر طرف چین اور امن ہی امن ہے؟ سب کچھ عمدہ طور پر چل رہا ہے؟ ویسے اگر آپ ناراض نہ ہوں تو طالبانی نظام کو اپنے عزیز ملک میں بھی ادھار لے آیئے۔ انشاء اللہ سب کی طبیعت درست ہو جائے گی؟