پاکستان کے تقریباً نوے لاکھ لوگ، دنیا کے مختلف ممالک میں رہائش پذیر ہیں۔ اکثریت کے خاندان پاکستان ہی میں ہیں۔ صرف چند فیصد افراد، اپنے پورے خاندان کے ساتھ ملک سے باہر منتقل ہو چکے ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں تارکین وطن کی اکثریت ہے۔ اور وہاں، یہ لوگ دن رات، سخت محنت کرکے اپنے گھروالوں کو ڈالر بھیجتے ہیں۔ عرق ریزی اوربچت کی بدولت، ان کے اہل خانہ پاکستان میں آسودہ حال زندگی گزار رہے ہیں۔ یو کے، امریکا میں بھی تاریکن وطن کی بھرپور تعداد موجود ہے۔ مغرب میں پاکستانی کئی دہائیوں سے زندگی گزار رہے ہیں۔
بالکل اسی طرح آزاد کشمیر سے بھی لوگوں کی معقول تعداد یوکے میں حد درجہ بہتر طور پر رہ رہی ہے۔ دنیا کاکوئی ایسا ملک نہیں جہاں ہمارے ملک کے افراد موجود نہیں۔ ساؤتھ افریقہ، کینیا، برونائی، آسٹریلیا۔ یعنی آپ ملک کانام لیجیے اور ہمارا پاکستانی موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ ایک کروڑ کے لگ بھگ افراد، اپنی مرضی سے ملک چھوڑکرگئے ہیں۔
معروضی جواب ہے کہ تمام بہتر مستقبل کے لیے وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ اگر کوئی بھی سرکار، اپنے ملک میں ان کے لیے معاشی طور پر بھرپور سہولتیں فراہم کرتی تو ان میں سے شاید ایک بھی باہر جانے پر مجبور نہ ہوتا۔ عجیب ستم ظریفی ہے کہ یہ پاکستان کو چھوڑ گئے۔ مگر ان کے دل ہمیشہ پاکستان کے لیے دھڑکتے ہیں۔
تارکین وطن کی پہلی نسل کی بات کریں، تو آج بھی غیر ممالک میں ہر وقت اپنے ملک سے وابستہ نظر آتے ہیں۔ مقامی اخبارات پڑھتے ہیں، بلکہ مقامی نیوز اور انٹرٹینمنٹ چینلز کے علاوہ کچھ دیکھتے ہی نہیں ہیں۔ دوسری نسل بہر حال پاکستان سے اس طرح کی جذباتی وابستگی نہیں رکھتی۔ جو پہلی نسل کا اثاثہ ہے۔ تارکین وطن، ہر سال اپنے ملک میں اربوں ڈالر بھجواتے ہیں۔ 2022میں یہ رقم اٹھائیس بلین ڈالر تھی۔ اب یہ رقم چار بلین کم ہو چکی ہے۔
اس برس تقریباً چوبیس بلین ڈالر موصول ہوئے ہیں۔ اب ذرا اس رقم کا ملک کی مکمل برآمدات سے مقابلہ کریں۔ تو حیرت انگیز حقیقت سامنے آتی ہے۔ وہ تاجر جو برآمدات کے لیے، ہر حکومت سے ڈھیروں مراعات لیتے ہیں۔ جن کے لیے بجلی اور گیس کے نرخ بھی حد درجہ کم کیے گئے ہیں۔ جن کی ہر سرکار، بلائیں لیتی ہے۔
ملکی برآمدات اور تارکین وطن کی ملک بھیجنے والی رقم میں انیس بیس کا فرق ہے۔ آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی۔ جب یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ٹیکسٹائل کی مکمل برآمدات، تارکین وطن کی بھجوائی ہوئی رقوم سے حد درجہ کم ہیں۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری، پندرہ سے اٹھارہ بلین ڈالر کماتی ہے۔ جب کہ ہمارے اصل سپوت اس سے بدرجہ زیادہ پیسے اپنے وطن کو کما کردیتے ہیں۔
یہ سب کچھ مجھے اس لیے لکھنا پڑ رہا ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت کے ایک وزیر نے، پارلیمنٹ میں، تارکین وطن کے متعلق ادنیٰ باتیں کی ہیں۔ یہاں تک فرمایا ہے کہ وہ توصرف اپنے رشتہ داروں کی تدفین کے وقت ملک میں آتے ہیں۔
اپنی جائیداد بھی فروخت کرکے بس پیسے بٹورتے ہیں۔ اور واپس چلے جاتے ہیں۔ یہ نکتہ درست ہے۔ مگر اس کو تضحیک کے انداز میں بیان کرنا زیادتی ہے۔ وزیر موصوف نے اپنے بیان پر کوئی معافی نہیں مانگی۔ ویسے، ان کے خاندان کی اکثریت بھی باہر منتقل ہو چکی ہے۔
دوسرا ایک ٹی وی چینل نے رات گئے مزاحیہ پروگرام میں ایک مہمان خاتون نے فرمایا کہ تارکین وطن تو غیر ممالک میں اپنے واش روم بھی خود صاف کرتے ہیں۔ ایسے سخت جملے پر اس خاتون کو معافی مانگنا چاہیے تھی۔
ملک سے باہر منتقل ہونیوالے افراد، ہمارے اصل ہیرو ہیں۔ یہ ہماری معیشت، سماج اور معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ ان کی خدمات اور حب الوطنی کی بھرپور ستائش کی جانی چاہیے۔ یہ پوری دنیا میں ہمارا چہرہ ہیں۔ اور ہر ملک اور قوم کو اپنا چہرہ مقدم ہوتا ہے۔ کسی بھی وزیراعظم یا صدر کے جہاز کاایندھن توانھیں لوگوں کے بھیجے ہوئے پیسوں سے خریدا جاتاہے۔
سرکاری بندوق کی گولیاں بھی انھیں افراد کی مرہون منت ہیں۔ مگر اب ان کی مجموعی تضحیک، سیاسی سطح پر کی جا رہی ہے۔ پی ڈی ایم کی حکومت سمجھتی ہے کہ تارکین وطن کی اکثریت، معتوب پی ٹی آئی کے ووٹر ہیں۔ معلوم نہیں یہ قیافہ کتنا درست ہے۔
بہر حال موجودہ حالات میں احساس ذمے داری کے ساتھ بات کرنا بہت ضروری ہے۔ مگر یہاں تو ہر امر ہی نظریہ ضرورت کے تحت ہوتاہے۔ چھوٹا سا سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے، کرخت اور انتہائی قدم اٹھائے جاتے ہیں۔ کیا یہ تضاد نہیں۔ کہ ہمیں اپنے ان پاکستانیوں کے ڈالروں کی تواشد ضرورت ہے مگر ان کو ووٹ کا حق دینے کے لیے ہم بالکل تیار نہیں۔ تاویلوں اور بہانوں کا ایک ٹھس سا پہاڑ ہے جو ان لوگوں کے حق رائے دہی پر قدغن لگانے کے لیے ایستادہ ہے۔
اگر یہ لوگ پاکستان ڈالر بھیجنا بند کر دیں، توکیا ملک ایک دن کے لیے بھی چل سکتا ہے۔ آج ہم ایک ارب ڈالر کے قرض کے لیے آئی ایم ایف کی انتظامیہ کے سامنے رسوا ہو رہے ہیں۔ مگر جو طبقہ ہمیں اٹھائیس، تیس ارب ڈالر بھیج رہا ہے۔ ان کی توہین ہمیں سیاسی بنیادوں پر جائز لگتی ہے۔ کمال ہے۔
تارکین وطن، پاکستان سے کتنی شدید محبت کرتے ہیں۔ اس کی چھوٹی سی جھلک لندن کے فارن آفس میں نظر آئی۔ آٹھ سال پہلے سرکاری سطح پر ایک وفد کے ساتھ لندن میں تھا۔ وہاں کی وزارت خارجہ میں ایک بریفنگ تھی۔ وزارت کی پرشکوہ عمارت حد درجہ متاثر کن اور رعب والی تھی۔ دراصل یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا سابقہ دفتر تھا۔
وہی تجارتی کمپنی جس نے برصغیر کے ہر زرخیز ذہن کو روند ڈالا تھا اور مسلمانوں پر قیامت ڈھائی تھی۔ خیر، اس عمارت میں ہی سرکاری بریفنگ تھی۔ قرینہ یہ تھا کہ برطانوی وزارت خارجہ کاایک افسر بیس منٹ کی پرزنٹیشن دیتا تھا اور پھر دوسرا اس کی جگہ آ جاتا تھا۔ کوئی ایک گھنٹہ کے بعد۔ ایک حد درجہ خوش لباس، انگریز لڑکی آئی اور اس نے مکمل برطانوی انگریزی اور لہجہ میں بریفنگ دی۔
اس کے بعد، اس لڑکی نے بتایا کہ وہ پاکستانی ہے۔ ہم لوگ حیران ہو گئے کہ کسی طور پر وہ پاکستانی معلوم نہیں ہوتی۔ کہنے لگی میرے والدین گوجر خان سے لندن آئے تھے اور میں یہیں برطانیہ میں پیداہوئی ہوں۔ دہائیوں سے چھٹیاں گزارنے پاکستان جاتی ہوں۔ پھر برطانوی فارن آفس کی اس خاتون لڑکی نے کمال بات کی۔ دنیا کابہترین شہر گوجر خان ہے۔
وہ تومجھے ہر شہر سے زیادہ پیارا معلوم ہوتا ہے۔ میرے والدین بھی لندن کے بجائے، گوجر خان کی مثالیں دیتے رہتے ہیں۔ بریفنگ ختم کرکے لڑکی واپس چلی گئی۔ مگرمیں سوچتا رہا کہ اپنی دھرتی ماں سے عشق کی لازوال مثال کوئی اور کیاہوگی؟ تارکین وطن اپنی مٹی کے لیے آج بھی ترستے ہیں۔
ہر جگہ اپنے ملک کا پرچم سربلند رکھتے ہیں۔ ہر سطح پر پاکستان دشمن عناصر کاڈٹ کرمقابلہ کرتے ہیں۔ مگر آج ہم اپنے ملک میں ان کے متعلق غیر ذمے دارانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔
ایک اور گزارش ہے۔ اکثر دیکھتا ہوں کہ پاکستان سے کوئی بھی سیاست دان، لکھاری یا اہم بندہ مغربی ممالک میں جاتا ہے۔ تو اکثریت، وہاں متمول پاکستانیوں کے گھرٹھہرتے ہیں۔ ان کی بھرپور خدمت کی جاتی ہے۔ یہ بن بلائے مہمان، ہفتوں وہاں، مقامی پاکستانیوں سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ وجہ بھی صاف نظر آتی ہے۔ یہ ہوٹل کے اخراجات بچاتے ہیں۔
اس بچت سے خوب شاپنگ کرتے ہیں اور پھر آرام سے واپس آ جاتے ہیں۔ مذہبی طبقہ کو فراموش کر گیا۔ وہ بھی باکمال انداز اور دھڑلے سے تارکین وطن سے خدمت کرواتے ہیں۔ بہر حال مجموعی طور پر تارکین وطن ہمارے لیے بیرون ملک، ٹھنڈی ہواکا خوشبودار جھونکا ہیں۔
ان کی قدر فرمائیے۔ ان کے ساتھ بہترین سلوک روارکھیے۔ اگر یہ غصہ میں آ گئے اور انھوں نے اربوں ڈالر بھیجنے بند کر دیے۔ تو ہمارا ملک ناقابل بیان مالی اور سماجی مشکلات کا شکار ہو جائے گا۔ یہ لوگ ہمارا اثاثہ ہیں۔ خدارا انھیں بوجھ نہ گردانیے۔ مگر میری بات یہاں کون سنے گا؟