تین ماہ قبل، میرا ایک قریبی دوست چار بجے شام کو اپنی اہلیہ سمیت گاڑی پر لاہور کے ایک سماجی کلب سے باہر نکل رہا تھا۔ ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی۔ ویسے بھی اس علاقہ میں آبادی بہت کم ہے اور سڑک پر ٹریفک حد درجہ کم ہی ہوتی ہے۔
دوست کی عمر کوئی ستر برس ہے اور انتہائی احتیاط سے گاڑی چلاتا ہے۔ انتہائی آہستہ رفتار پر گاڑی سڑک کی دوسری جانب موڑی۔ پلک جھپکنے کی مدت میں ایک موٹر سائیکل سوار برق رفتاری سے گاڑی کے قریب آیا۔ اور اس نے کار اور سڑک کے درمیان انتہائی کم جگہ سے نکلنے کی کوشش کی۔ موٹر سائیکل ایک ہزار سی سی کی تھی اور حد درجہ قیمتی تھی۔
میرے دوست کو گمان تھا کہ گاڑی موڑتے ہوئے کوئی بھی دوسری کار یا موٹر سائیکل چلانے والا انسان اسپیڈ کم کر کے یا رک کر، کھڑا ہوجائے گا۔ بالکل کم جگہ سے نکلنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ مگر اس موٹرسائیکل سوار نے قیامت خیز رفتار سے بہت تنگ خلاء سے نکلنے کی انتہائی غیر محتاط کوشش کی۔ دوست نے فوری طور پر گاڑی روک لی۔ موٹر سائیکل سوار، بالکل توازن نہ رکھ سکا۔
پندرہ بیس فٹ سڑک پر قلابازیاں کھاتا ہوا دور جا گرا۔ اس نے ہیلمٹ اور حفاظتی لباس پہن رکھا تھا۔ مگر جس تیز رفتاری سے گرا۔ اس کی بدولت ہر حفاظتی اقدام بیکار ہو گیا۔ ریڑھ کی ہڈی تین جگہ سے ٹوٹ گئی۔ وہ دو چار منٹ میں ہی فوت ہو گیا۔ اس کی عمر صرف چوبیس برس تھی۔ ایک برس پہلے شادی ہوئی تھی۔ اور دو ماہ کی بچی تھی۔ وہ ہیوی بائیک چلا رہا تھا، جو موٹر سائیکل ریس میں استعمال ہوتی ہے۔ اور اسے سرعام سڑکوں پر چلانا حددرجہ خطرناک ہوتا ہے۔
موٹر سائیکل کی قیمت عام گاڑی سے زیادہ تھی۔ والدین کی فیکٹری تھی اور انھوں نے اپنے لخت جگر کو بڑے شوق سے موت کا سامان خرید کر دیا تھا۔ ریسکیووالے جب نوجوان کی لاش لے کر گھر پہنچے تو قیامت برپا ہو گئی۔ والدہ اور بیوی تو فوری طور پر بے ہوش ہو گئے۔ جوان بیٹے کی موت کتنا بڑا صدمہ ہو گا۔ یہ اس خاندان کے لوگ ہی جانتے ہیں۔ اس افسوسناک واقعے اور اس طرح کے ان گنت واقعات کی وجوہات کیا ہیں۔ یہ وہ اصل نکتہ ہے جس پر ہم سب کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اور شاید ہماری نحیف سیاسی حکومتوں کو بھی۔
لاہور کے حوالے سے عرض کرتا چلوں۔ آپ کسی ریڈ لائٹ پر گاڑی روکیں۔ موٹرسائیکلوں کا ایک سیلاب آپ کے اردگرد جمع ہو جائے گا۔ ان گنت گاڑیاں آپ کے آگے پیچھے، دائیں بائیں بے ترتیبی سے کھڑی ہوں گی۔ موٹر سائیکل سواروں کی کوشش ہو گی کہ دو گاڑیوں کے درمیان، چھوٹی سی خلا میں سے موٹرسائیکل نکال لیں۔ اس کوشش میں آپ کی گاڑی کو نقصان بھی پہنچائیں گے۔ بغیر کسی شرمندگی سے آگے روانہ ہو جائیں گے۔
یہی حال، گاڑی والوں کا ہے۔ وہ ہر طریقے سے تیزی سے آگے بڑھنے کی کوشش ضرور کریں گے۔ انتہائی احترام کے ساتھ عرض ہے اگر کوئی خاتون سٹئیرنگ پر تشریف فرما ہیں تو غلطی کے امکانات کم از کم سو فیصد بڑھ جائیں گے۔ لاہور کی آبادی کتنی ہے، اس کا تو شاید کسی کو بھی پتہ نہ ہو۔ گاڑیوں، موٹر سائیکلوں کے ہجوم کو کس طرح ترتیب دینا ہے۔ یہ کم از کم ٹریفک پولیس جیسے کمزور ادارے کے بس کی بات نہیں ہے۔ جو خستہ ٹریفک لاہور میں ہے۔ یہی ابتری پورے ملک میں ہے۔
تمام بڑے اور چھوٹے شہر، تمام سڑکیں، موٹرویز، ذیلی سڑکیں، اس وقت موت کے پیغام کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہیں۔ آپ اپنی جتنی مرضی حفاظت کر لیں۔ کم سے کم رفتار سے گاڑی چلائیں، سیٹ بیلٹ کس کر باندھ لیں۔ اس کے باوجود کوئی نہ کوئی لاپرواہ ڈرائیور، اپنی غفلت کی بدولت آپ کو نقصان پہنچانے سے باز نہیں آئے گا۔ ہم سے ہرانسان، اوسط ایک سال میں کم از کم ایک مرتبہ، کسی نہ کسی کی حماقت یا اپنی کوتاہی سے ٹریفک حادثہ کا شکار بنتا ہے۔
اصل سوال تو یہ ہے کہ ہماری مرکزی اور صوبائی حکومتیں، ہنگامی بنیادوں پر سڑکوں کو بہتر بنانے اور ٹریفک مینجمنٹ کو جدید سائنسی اصولوں پر آراستہ کرنے کے متعلق کیوں سنجیدہ نہیں ہیں۔ ٹریفک کے حوالے سے چند حقائق سنیئے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) نے ابھی ایک رپورٹ شایع کی ہے۔ جس میں درج ہے کہ پاکستان میں پینتیس ہزار اموات سالانہ صرف ٹریفک حادثات کی وجہ سے ہوتی ہیں۔
ہماری آبادی کی مکمل اموات میں تقریباً تین فیصد حصہ صرف اور صرف یہی جان لیوا حادثات ہیں۔ پاکستان پوری دنیا میں ان حادثات اور اموات کی بدولت پچانوے نمبر پر ہے۔ یعنی ہمارا ٹریفک کا نظام پوری دنیا میں ادنیٰ ترین سطح کا ہے۔ حادثات کی شرح سترہ فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ اس رپورٹ میں درج ہے کہ مرنے والوں میں پچھتر (75) فیصد، پندرہ اورچونسٹھ برس کی عمر کے افراد ہوتے ہیں۔ مردوں اور عورتوں میں یہ شرح تین اور ایک ہے۔ یعنی مرد، تین گنا زیادہ حادثات کا شکار ہوتے ہیں۔
حادثات کی بدولت مفلوج ہونے والوں کی شرح بھی حد درجہ زیادہ ہے۔ ان کی تعداد سالانہ چار لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔ ملک میں ان حادثات کو مالی نقصان کے زاویے سے دیکھا جائے تو یہ آٹھ بلین ڈالر بنتی ہے۔ کیا آپ نے اپنے کسی وزیراعظم یا وزیراعلیٰ سے سنا ہے کہ وہ ٹریفک حادثات کو بہتر حکمت عملی سے کنٹرول میں لائے گا۔ کسی نے بھی اتنے اہم عوامی مسئلہ پر توجہ نہیں دی۔
وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے آگے پیچھے تو گاڑیوں اور درباریوں کا لشکر جرار ہوتاہے۔ بھلا یہ حادثہ کا شکار کیسے ہو سکتے ہیں۔ مرنے والے اور مفلوج ہونے والے تو کیڑے مکوڑے ہیں۔ جن کی زندگی اور موت کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
ہمارے اکثر وزراء خزانہ چھاتی پھلا کر ہر دم دعوے کرتے ہیں کہ ہم نے سالانہ گاڑیاں بنانے میں اتنے فیصد اضافہ کر لیا۔ موٹرسائیکل بنانے والے نئے کارخانے لگ گئے۔ مگر کیا کسی بھی وزیر نے یہ فرمایاہے کہ ان گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی بدولت جو ٹریفک کی سونامی آرہی ہے اسے کس طرح ریگولیٹ کرنا ہے۔ اس اہم ترین موضوع پر ان جغادریوں کا کوئی بیان نہیں آتا۔ آئے گا بھی کیوں۔ ان کا عوامی مسائل سے کسی قسم کا کوئی تعلق ہے ہی نہیں۔
سرکاری پروٹوکول اور درباری خوشامدی، سرکاری ہوائی جہاز اور عوام کے پیسوں سے خریدی ہوئی قیمتی گاڑیوں پر اپنی جعلی عظمت کے ادنیٰ نشان نظر آتے ہیں۔ بھلا ٹریفک کے پھیلاؤ کو ترتیب دینے جیسے عامیانہ کام سے ان نقلی بزرجمہروں کا کیا کام۔