جماعت اسلامی سے میری جان پہچان صرف اور صرف ڈاکٹر وسیم اختر کے ذریعے تھی۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ وسیم اختر مرحوم صاحب میرے لیے جماعت اسلامی تھے۔ جن سیاست دانوں سے میں دلی طور پر متاثر ہوا ہوں ان میں وسیم صاحب شاید اول نمبر پر ہیں۔
حددرجہ سادہ اور بہترین انسان۔ بہاولپور سے ان سے میری دوستی شروع ہوئی اور ان کی وفات تک قائم رہی۔ ڈاکٹر صاحب جب بھی آتے تواپنے ساتھ جماعت اسلامی کا لٹریچر لاتے۔ میں انتہائی احترام سے وصول کرتا اور اکثر پڑھے بغیرٹیبل کے کونے پر رکھ دیتا۔ ان کے جانے کے طویل عرصے بعد کبھی کبھی کوئی کتاب ضرور پڑھ لیتا۔ ڈاکٹر وسیم اختر کیا انسان تھا۔
اس پر بات کرنا ازحد مشکل ہے۔ ایم پی اے ہونے کے باوجود انتہائی سادگی سے زندگی گزارنے کو ترجیح دی۔ دنیاوی آلائشوں سے بہت دور بلکہ کئی نوری سال کا فرق۔ اس موضو ع پر بہرحال کسی وقت دوبارہ گزارش کروں گا۔ آج تک جماعت کے کسی بھی لیڈر سے ملاقات نہیں ہوئی۔ چنانچہ جس وقت فرید پراچہ صاحب کافون آیا کہ ایڈریس کیا ہے کتاب بھیجناچاہتا ہوں۔
تو یقین مانیے حیرانگی سی ہوئی۔ پراچہ صاحب کا نام ضرور سنا ہوا تھا مگر میرا تو ان سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ بہرحال ان کی تصنیف شدہ کتاب موصول ہوئی۔ ذاتی تساہل کے سبب وہ بھی کتابوں کے ایک ڈھیر میں شامل کرلی۔ کل رات ڈھیرمیں سے عمر ِرواں نام کی کتاب نکالی۔ پھر اندازہ ہی نہیں ہوا کہ صبح ہوگئی۔ ایک نشست میں پوری کتاب پڑھ ڈالی۔
حد درجہ اچھی اور بہترین تصنیف۔ سادہ شائستہ زبان میں لکھی ہوئی اس تصنیف میں ہمارے ملک کی سیاسی، سماجی اورواقعاتی اساس کی محتاط نثر نگاری کی گئی ہے۔ اپنے بچپن سے لے کر آج تک کا سفر اور اس کے متعلق سچ سے گندھی ہوئی باتیں۔ کتاب پڑھ کرحیرت ہوئی کہ سیاسی معاملات میں بکھراہوا انسان، زندگی کی جزئیات کوکیسے محفوظ کرپایا۔ اب اس کتاب یعنی "عمرِرواں " سے چند اقتباسات۔
میں بھیرہ میں پیدا ہوا لیکن بھیرہ میں میرا قیام صرف پانچویں جماعت تک رہا اور پھر ہم سرگودھا اور بعد میں لاہور منتقل ہوگئے۔ اس کے باوجود بھیرہ آج تک میرے دل و دماغ میں ایک رومانس کے طور پر بستاہے۔ اس کا لینڈ اسکیپ ہی بہت خوبصورت ہے۔ ایک طرف دریا جہلم بہتا ہے اور یہاں دریا کا پاٹ بہت چوڑا ہوگیا ہے۔ پانی کی سرکش موجیں اپنی راہیں خود تراشتی ہیں اور یوں دریا کئی حصوں میں بٹ گیا ہے۔ ادھر سر سبز کھیت ہیں، پھلدار درختوں کی قطاریں ہیں، کئی فصلیں داد بہار دے رہی ہیں۔ رہٹ چل رہے ہیں اور کنوؤں کا پانی فصلوں کو سراب کررہا ہے۔ پیچھے کوہستان نمک اور کھیوڑہ کی پہاڑیاں ہیں۔ کھیت باغات پھر دریا اس کے پیچھے پہاڑ، ادھر بھیرہ شہر کی اپنی خوبصورتی ہے۔ پورا شہر ایک گولائی لیے ہوئے ہے۔
بنگلہ دیش کی نا منظوری کے موقعے پرپراچہ صاحب لکھتے ہیں۔ اس موقعے پر بھی ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا سیاہ رنگت کے ایک صحافی کو دیکھ کر ہم نے قیافہ لگایا کہ یہ کسی افریقی عرب ملک کے صحافی ہیں۔ ہم نے ان کے پاس جا کربڑی نستعلیق عربی میں اپنے پروگرام کا اظہار کیا ہمارا پورا جملہ سن کر وہ صحافی پنجابی میں بولے "بھاجی میں تے پی پی آئی دا نمایندہ ہاں "۔ اسی دوران ہمیں شیخ مجیب الرحمن کی کارآتی دکھائی دی۔ ہم نے یک لخت بیزلہرا دیے، بنگلہ دیش نا منظور نا منظور کے فلک شگاف نعرے لگائے اور کار کے سامنے سے دوڑتے ہوئے اسمبلی ہال کی طرف مارچ شروع کردیا۔
ایک دم فضاء میں پولیس کی سیٹیاں گونجنے لگیں اور پولیس کے بے شمار افراد بے تحا شا دوڑ پڑے۔ چیئرنگ کراس کی طرف کھڑے عوام نے ہمیں دیکھ کر نعرے لگائے۔ لیکن پولیس سے مزاحمت کا یہ واقعہ مختصر ثابت ہوا۔ پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور ہم میں سے ایک ایک کو پکڑ کر گٹھڑیوں کی صورت میں اپنے ٹرکوں میں پھینک دیا۔ بہر حال ہمارا یہ مظاہرہ بہت کامیاب رہا۔
1977 کی تحریک میں گرفتاری کے متعلق لکھا ہے۔ ادھر عوام کا بھی ایک بڑا مجمع تھا۔ میں نے مظاہرین سے خطاب کیا۔ مظاہرین نے نعرے لگائے۔ پولیس نے معاملہ بگڑتے دیکھا توہلکا لاٹھی چارج کیا اور ہمیں گرفتار کرکے گاڑیوں میں ڈال لیا۔ یہاں گرفتار ہونے والوں میں حاجی محمد یونس، محمد دین چکی والے وغیرہ شامل تھے۔
مولانا زاہد الراشدی، رانا نذر الرحمن، عبدالوحید خان اور متعدد رہنما پہلے سے جیل میں موجود تھے، جیل کے یہ دن بھی یاد گار تھے، میں نے کوئلوں والی انگیٹھی منگوا رکھی تھی جس پر میں چائے تیار کرتا تھا۔ نجانے کیسے مجھے بہت اچھی چائے بنانے کا طریقہ آگیا تھا۔ ، حبیب جالب اس چائے کے بہت مداح تھے۔ سہ پہر وہ میری کوٹھڑی میں آجاتے، پراچہ چائے پلاؤاور میں چائے بنانے پر جت جاتا۔ حبیب جالب جتنے بڑے شاعر تھے اتنے ہی وضع دار اور بھلے انسان تھے سادہ دل سادہ طبیعت۔
اپنی والدہ کے متعلق لکھا ہے۔ بیس پچیس برس پہلے تک ہمارے معاشرے کا بھرم اور ہماری اخلاقی اقدار کا احترام ماں کے ادارے سے قائم تھا۔ اس وقت ماں ایک مقدس رشتے کا ہی نہیں ایک مکمل ادارے کا نام تھا۔ ایسی مائیں جوتہجد کے وقت بیدارہوتیں۔ گھر کا تمام کام کاج خود کرتیں۔
محدود آمدن میں ہنسی خوشی تمام کنبے کو پالنے کے بعد بھی رقم بچاکربیٹیوں کا جہیزتیار کرلیتیں۔ ایک دو کمرے کے گھر میں تمام کنبے کے لیے وسیع جگہ پیدا کرلیتیں۔ مشترکہ خاندان کی نزاکتوں کو حسن تدبر سے نبھالیتیں، پورے گھرانے کو کھانا کھلا کر خود ہنڈیا میں سے کھانا کھاتیں۔ مشکلات میں بھی خدا کا شکر ہی ان کے ورد زبان ہوتا۔ ایسی مائیں اب اٹھتی جارہی ہیں۔ چنانچہ گھروں کے آنگن سونے ہوگئے ہیں اور گھریلو تربیت گاہیں اجڑ گئی ہیں۔ ہماری اماں جان بھی ایک ایسا ہی ادارہ تھیں۔
2008 کے الیکشن کے متعلق لکھا۔ یہ بھی جماعت اسلامی کا کمال ہے کہ سٹنگ ایم این ایز، ایم پی ایز سمیت ایک سو سے زائد امیدواران کہ جو کاغذات نامزدگی جمع کراچکے تھے۔ انتخابی مہم زور شور سے چلا رہے تھے۔ لاکھوں روپے کے اخراجات بھی کرچکے تھے۔ لیکن کاغذات واپس لینے، بائیکاٹ کرنے، انتخابی عمل سے باہر نکلنے کا فیصلہ پہنچا تو سوائے دو افراد (محمد حنیف عباسی، فیاض الحسن چوہان)سب نے فیصلہ کی بلاچون و چراں پابندی کی۔ کاغذات واپس لیے۔ مہم روک دی جلسے منسوخ کردیے۔
کارکنان کو مطمئن کرنے اور ووٹرز کا غصہ ختم کرنے پر لگ گئے۔ آگے درج ہے۔ زندگی کے 70 سال مکمل ہوچکے ہیں۔ کتنی مہلت عمر اور مہلت عمل باقی ہے یہ خالق کائنات کے دائرے علم میں ہے۔ ہمیں تو ہر حال میں شکر ادا کرنا ہے جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔ یہ چند سطور صرف اظہار تشکر کے لیے ہیں کہ اس حیات نا پائیدار کے لمحہ لمحہ پل پل پر اللہ کریم کی بے پناہ، بے شمار، بے حد عنایات، رحمتیں اور برکتیں ہیں۔ شکر کا حق ادا ہونا تو کجا شکر کے الفاظ ادا کرنے کا حق بھی ادا نہیں ہوسکتا۔ میرا کچھ بھی نہیں، سب کچھ اس کی کرم نوازی ہے۔ اس کا انعام اس کا عطیہ ہے اس نے بہت کچھ دیا ہے۔
اب آپ خود بتائیے کہ میں کیا لکھوں اور کیونکر لکھوں!