Monday, 23 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Whale Machli

Whale Machli

ذہن میں ان گنت سوالات ہیں جو بگولے کی طرح رقصِ موت میں مصروف ہیں۔ مگر، اس بدقسمت خطے میں، جہاں 2024میں بھی دلیل کی جگہ، خنجر آپ کا منتظر ہے۔ وہاں کیا سوال پوچھیں اور کیا جواب لیں۔ دہائیوں سے، حکمران اتنی ذہنی پسماندگی کا شکار ہیں، جس کی بدولت آج ملک، فکری، معاشی اور سماجی قبرستان بن چکا ہے۔ ہمارا ملک دراصل ایک ایسا اثاثہ ہے جسے ہمارے حکمرانوں نے جوئے کی میز پر، بین الاقوامی قوتوں کے سامنے، عرصہ پہلے ہار دیا تھا۔ سچ لکھ نہیں سکتا اور اس کڑوے دکھ کے ساتھ جینا محال لگتا ہے۔ مرد صحرا نے بھی پہلی بار کہا ہے کہ اب ملک سے دل اٹھ گیا ہے۔ لہٰذا یہاں سے کوچ کر جانے میں ہی عافیت ہے۔

جوہری نکتہ کی طرف آتا ہوں۔ ہمارے قائدین اور عمائدین نے ملک صرف اس لیے بنایا تھا یا بٹوارے کو تسلیم کیا تھا کہ پاکستان پر حق حکمرانی، صرف اور صرف مسلمانوں کا ہو۔ یہ وہ بات ہے جسے پاکستان کو حاصل کرنے کے لیے چلائی جانے والی تحریک کا مغز بھی کہہ سکتے ہیں۔ کیونکہ اگرصرف نظام ہی تبدیل کرنا مقصود ہوتا تو تاج برطانیہ، پورے ہندوستان کو بہترین طریقے سے چلا رہا تھا۔ نظام انصاف سے لے کر پولیس، محکمہ مال، اور دیگر ادارے کم از کم آج سے حد درجہ بہتر چل رہے تھے۔ مگر ہم لوگ تو چاہتے تھے کہ ہمارے اوپر، ہمارے حکمران، ہمارے ہی اپنے ہوں، جو عوام کو بہترین زندگی سے آسودہ کر سکیں۔ مگر ملک بنانے والوں کو قطعاً یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ کس خطرناک طبقے کو اوپر لا رہے ہیں۔

وہی تیس چالیس خاندان، جو پہلے انگریزوں کے وفادار تھے۔ پاکستان بننے کے بعد، اس ملک کے وسائل پر اس طرح قابض ہو گئے کہ آزادی حاصل کرنے کا بنیادی مقصد ہی سوالیہ نشان بن گیا۔ اب تو اتنی ابتر صورت حال ہے کہ یہ ملک چند خاندانوں کی چرا گاہ بن چکی ہے۔ جو بھینسے کی طرح اقتصادی گھاس کو پامال کر چکے ہیں۔ کیونکہ اب پردہ گرنے والا ہے۔ اس لیے یہ تمام بحری قزاق، محفوظ ترین مغربی ممالک کی طرف کوچ کر رہے ہیں۔ خیر ان منفی باتوں کو رہنے دیجیے۔ تھوڑی دیر کے لیے کبوتر کی طرح آنکھیں بند فرما لیجیے۔ گمان کر لیجیے کہ موجودہ قیادت ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرا لے گی۔ مگر ان کے اہم ترین لوگ تو آج بھی لندن، امریکا، دبئی اور ہالینڈ کے باسی ہیں۔ ان کا ہمارے غریب ملک سے کیا لینا دینا۔

دراصل 1947سے لے کر آج تک ہم حق حکمرانی، عام لوگوں تک منتقل نہیں کر سکے۔ اس کی وجہ، مکمل طور پر دانستہ ہے۔ یہ سب کچھ شعوری طور پر کیا گیاہے۔ یہ حد درجہ سفاک سطح کی سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت ہوا ہے۔ کیا قائداعظم تصور بھی فرما سکتے ہیں کہ ان کی رحلت کے بعد، ان کے قریبی رشتہ دار، گورنر جنرل کے عہدے پر فائز ہوں؟ کیا لیاقت علی خان نے کبھی عندیہ دیا تھاکہ ان کے بچوں یا بچیوں میں سے کوئی بھی پاکستان کا وزیراعظم بنے؟ ہرگز نہیں! صاحبان۔ یہ تصور ان کے ذہنوں کے کسی خلیے تک میں بھی موجود نہیں تھا۔ مگر اب کیا ہے۔ تقریباً تمام سیاسی گروہ یا جماعتیں موروثیت کے غلاف میں لپٹی ہوئی ہیں۔

سوال کرنا چاہتا ہوں۔ کیا سندھ کے وزیراعلیٰ، بلاول بھٹو کی جگہ، پارٹی چیئرمین بن سکتے ہیں؟ کیا مسلم لیگ ن جو اب سیاسی جماعت کا درجہ تک نہیں رکھتی، کیا، احسن اقبال یا خواجہ آصف، اس کے سربراہ بن سکتے ہیں؟ کیا مولانا فضل الرحمن صاحب کی جگہ ان کی جماعت کا کوئی کارکن لے سکتا ہے؟ ہرگز نہیں، یہ اب سیاسی جماعتیں نہیں بلکہ خاندانی وراثتیں ہیں جن کا پیشہ ہی سیاست اور مال کمانا ہے؟ بھلا کون، اپنی جائیداد اور پیسے کسی دوسرے کے حوالے کرتا ہے۔ کم از کم تاریخ میں اتنی بلند ظرفی کی مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔ نتیجہ یہ کہ پورے پچیس کروڑ لوگ، اب چالیس یا پچاس، فراعین مصر کے غلام بن چکے ہیں۔ ہاں ہمارے لیے ایک اور چیز بھی ایجاد کی گئی ہے۔

جذباتی نعرے، روایتی کہانیاں اور مذہب کا پاسبان ہونا۔ ذرا فرما دیجیے کہ ہمیں تو حکمناً بتایا جاتا ہے کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے۔ ابھی حالیہ دنوں میں مقبوضہ کشمیر پر بڑے بڑے حکومتی اشتہارات بھی دیے گئے تھے۔ جن میں ہمارے ملک کے لیے کشمیر کی آزادی کو اجاگر کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی تھی۔ مگر کیا پاکستان میں کسی قسم کی قوت، استطاعت اور جرأت ہے کہ مقبوضہ کشمیر کو اپنے ملک کا حصہ بنا لیں؟ نہیں صاحب، یہ باتیں ہیں جن کا مقصد عوام کو اس راستہ پر لگانا ہے، جس کی کوئی منزل نہیں۔ چلیے، اس نازک معاملے کو دوسری طرح دیکھ لیجیے۔

کیا آزاد کشمیر میں دودھ اور شہر کی نہریں بہاد دی گئی ہیں کہ مقبوضہ کشمیر، ہمارے ملک میں آنے کی شعوری کوشش کرے۔ ویسے بھی، اب طاقت کا مستقل توازن بھارت کے حق میں ہے اور نعروں کا توازن ہماری طرف۔ تو جناب، نعروں اور اشتہاروں سے تو مقاصد حاصل نہیں ہوسکتے۔ برا نہ منائیے گا۔ انسان کی آزادی کا بھرپور قائل ہوں۔ مگر آزادی پر سیاست کرنے کا بھرپور مخالف ہوں۔ ویسے بھی تنقیدی نگاہ سے دیکھیں، تو کے پی اور بلوچستان کے صوبے بھی غربت، پسماندگی اور باردو کی آگ میں جل رہے ہیں۔ کسی میں اتنی جرأت نہیں کہ ان صوبوں کے موجودہ اصل حالات، لکھ سکے یا بتا سکے۔

اگر آپ کو یقین نہیں آتا، تو کسی بھی آزاد بین الاقوامی ادارے کی ان مقامات کے متعلق تحقیقاتی رپورٹ پڑھ کر دیکھ لیجیے۔ شاید سمجھ آ جائے کہ کشمیر کی آزادی تو دور کی بات، اب تو اپنی سالمیت کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ مگر کوئی اس سچ کو سامنے لانے کے لیے آمادہ نہیں۔ غور سے دیکھا جائے تو ہر حکومت، قوم کے اجتماعی شعور کی توہین کرتی نظر آتی ہے۔ سنجیدہ طبقہ حد درجہ منفی صورت حال سے گھبرا چکا ہے۔ ہر حکومت ہمیں بتاتی ہے کہ بس، صنعتی ترقی کا چھکڑا، ہوائی جہاز کی رفتار سے اڑنے والا ہے۔ مگر یہ کبھی ہو نہیں پایا۔ ایک پاکستانی تجارتی گروپ کے سربراہ نے مجھے بتایا کہ انھوں نے ایک بین الاقوامی انویسٹر سے دو سوملین ڈالر کی کریڈٹ لائن حاصل کرنے کے لیے مذاکرات کیے۔ قرض فراہم کرنے والے ہر طریقے سے مطمئن بھی ہو گئے۔ مگر جیسے ہی، انھیں بتایا گیا کہ یہ کارخانہ پاکستان میں لگایا جائے گا تو انھوں نے ہنسنا شروع کر دیا۔ کہنے لگے کہ آپ کو دنیا میں کوئی اور بہتر ملک نہیں ملا، جہاں آپ سرمایہ کاری کر لیں۔ پھر انویسٹر کہنے لگے کہ اگر آپ یہی کاروبار، ہندوستان میں کر لیں، تو آپ کو چار سو ملین ڈالر فراہم کیے جائیں گے۔ پاکستانی بزنس مین خاموشی سے واپس آ گیا۔ مذاکرات ختم ہو گئے۔

ہمیں بتایا نہیں جا رہا کہ بین الاقوامی سطح پر ہماری اور ہمارے قائدین کی ساکھ صرف اور صرف کشکول برداروں جیسی ہے۔ ان گنت رپورٹس موجود ہیں جو غیرملکی کاروباری حضرات کو پاکستان میں سرمایہ کاری سے تنبیہہ کرتی ہیں۔ اگر کوئی سرمایہ کار جرات کرکے آ ہی جائے تو وزیر سے لے کر سرکاری بابو تک، اس طرح مونہہ پھاڑ کر پیسے مانگتے ہیں کہ وہ سرمایہ کار فوری طور پر واپس جانے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔

گزشتہ دو چار دہائیوں کی بات کیجیے۔ ملک کو تو غربت کی پاتال میں دھکیل دیا گیا۔ مگر عوام کو حق حکمرانی تو دور کی بات، سانس لینے کے اختیار سے بھی محروم کر دیا گیا۔ حکمران طبقہ اب یہ نکتہ سمجھ چکا ہے کہ ووٹ یا عوام کی رائے کی جوتی کے برابر بھی اہمیت نہیں۔ اب ریاستی اداروں کے کندھوں پر سوار ہو کر، ہر چناؤ، فریب اور فراڈ سے جیتا جا سکتا ہے۔ لہٰذا دنیا میں حکومت کی تبدیلی کا سب سے مستند طریقہ یعنی الیکشن بھی ہم نے بے توقیر کر دیا ہے۔ جب حکومتی عمائدین کے لیے کہ عوام کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں۔ تو وہ کیوں، عام آدمی کی بھلائی کے لیے کام کریں اور واقعی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے اور یہ بدقسمتی، ہماری چوکھٹ پر دستک دے رہی ہے۔ معاشی اور سماجی موت کی یہ آواز اب ہر کان کو پھاڑ رہی ہے۔ مگر حکمران خوش ہیں۔ کوئی جعلی تبدیلی کا راگ الاپ رہا ہے۔ کوئی پچاس برس سے روٹی، کپڑا اور مکان کی دکان کامیابی سے چلا رہاہے۔ کوئی دنیا کے مہنگے ترین بجلی گھروں کو لگا کر، قوم کو دنیا میں ہی جہنم کا نظارہ دکھانے میں مصروف ہے۔

کمال حکمران ہیں اور با کمال عوام ہے۔ ویسے دیکھا جائے۔ تو یہ ملک اب کرپشن اور ناانصافی کا سمندر بن چکا ہے۔ جس میں چالیس خاندان، مہیب وہیل مچھلیوں کی طرح عام لوگوں کا استحصال کر رہے ہیں۔ سمندر میں وہیل مچھلی کے اردگرد، چھوٹی موٹی درجنوں مچھلیاں ہوتی ہیں۔ وہیل مچھلی کے مونہہ سے جو کچھ کھانا بچ جاتا ہے، وہ یہ جونک کی طرح چمٹی ہوئی، چھوٹی مچھلیاں فوراً خوشی سے چٹ کر جاتی ہیں۔ وہیل مچھلی کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ ہمارے چالیس خاندانوں کے اردگرد بھی ایسے لوگ موجود ہیں، جو ان کا بچا کھچا سمیٹ کر مزے لے لے کر کھاتے ہیں اور پھر وفاداری کا حق بھی ا دا کرتے ہیں۔ اب یا تو ہجرت فرما لیجیے۔ یا پھر ان وہیل مچھلیوں کے اردگرد خوراک کے لیے گھومنا شروع کر دیں اور تو کوئی راستہ نظر نہیں آتا؟