انسان صدیوں سے راستے بھولتا آیا ہے۔ اس لیے بعض نیک لوگوں بارے لیجنڈ مشہور ہے کہ وہ بھٹکے ہوئوں کو راستہ دکھاتے تھے۔ آج کل یہ بھٹکے ہوئوں کو راستہ دکھانے کا کام گوگل میپ کرتا ہے۔
مجھے یاد ہے میں کبھی اماں کو دن میں کہانی سننے کی ضد کرتا تو وہ کتہیں بیٹا دن میں قصہ نہیں سنتے یا سناتے ورنہ مسافر راستہ بھول جاتے ہیں۔ میں ڈر سا جاتا کہ اگر وہ مسافر راستہ بھول کر گھر نہ پہنچے تو ان کے بچوں کا کیا ہوگا؟ یوں اماں کو ضد نہ کرتا اور رات ہونے کا انتظار کرتا۔
خیر کبھی راستہ بھولنا ایک خوفزدہ کرنے والا عمل سمجھا جاتا تھا لیکن آج کی جدید دنیا میں بعض دفعہ راستہ بھولنا بھی ایک نیا تجربہ ہوتا ہے۔ آپ ایسے لوگوں سے جا ملتے ہیں جن کا آپ نے سوچا تک نہیں ہوتا۔
اب یہی دیکھ لیں جی ٹی روڈ پشاور سے آتے ہوئے سوچا حضرو سے موٹر وے پکڑ لیتے ہیں۔ لیکن باتوں باتوں میں ایک ٹرن بھول گئے تو اچانک خود کو ایک بازار کی لمبی گلی میں پایا۔ کچھ حیران ہوئے کہ اب رات کے اس پہر کہاں جائیں۔ خیر آگے گئے تو اچانک جیند مہار کی نظر قلفے والی ریڑھی پر پڑی، وہ چلائے گاڑی روکو گاڑی روکو۔ راستہ تو بھول ہی چکے ہیں۔ اب بندہ قلفہ بھی نہ کھائے۔
میں نے بالکل ٹھیک۔
بریک لگائی۔ گاڑی سائیڈ پر لگائی۔
مہار صاحب قلفہ لائے تو ایسا مزیدار قلفہ شاید ہی زندگی میں کھایا ہو۔ پہلے ایک ایک سکوپ تو پھر دو تین سکوپ کھائے۔ منہ میں گھلتی جائے۔
اب زرا تصور کریں آپ راستہ بھولے ہوئے ہیں۔ رات کا وقت ہے اور آپ سب کچھ بھول کر ایک بازار کی گلی میں آئس کریم نما قلفہ کھا رہے ہیں۔ بڑے مزے سے قلفہ کھایا۔
میں نے کہا مہار صاحب آپ کے ہاتھ میں دم ہو یا ذائقہ ہو تو آپ کے گاہک ایک کی بجائے تین تین سکوپ کھا جاتے ہیں اور سوچتے رہتے ہیں پھر کب یہاں سے گزر ہوگا۔
نام پوچھا تو فضل مولا بتایا۔ بنک بازار میں وہ قلفے کی ریڑھی لگاتے ہیں۔
اتنی دیر میں قریبی دکان بابر سوئٹ شاپ سے شاہ جہاں صاحب آئے۔ انہیں ہمارے چہروں سے لگا کہ معصوم لوگ راستہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ ان کا تعلق بہاولپور سے نکل آیا۔ انہوں نے پیار سے راستہ سمجھایا۔ انہیں کچھ خیال آیا تو فورا اپنی مٹھائی کی دکان کے لڑکے کو آواز دی کہ کہا بھاگ کر ایک ڈبے میں مختلف مٹھائیاں اور برفی لائو۔ یہ راستے میں کھاتے جائیں گے۔
میں نے کہا مہار صاحب بعض غلط موڑ زندگی کا رخ خراب نہیں کرتے بلکہ آپ کو قلفہ اور برفی بھی کھلاتے ہیں۔
کلاسک فلم Forrest Gumpکا ڈائیلاگ یاد آیا۔۔ ماما کہتی تھیں زندگی ایک چاکلیٹ باکس کی طرح ہے۔ آپ کو کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ ڈبے میں اگلی چاکلیٹ کا ذائقہ کون سا ہوگا۔