Tuesday, 17 September 2024
  1.  Home/
  2. Saadia Bashir/
  3. Andhi Aankhen, Dhali Kaan

Andhi Aankhen, Dhali Kaan

شہر عجب میں معاملات ازل سے ڈگڈگی کی تال پر ہی رواں دواں تھے۔ بندر تو بندر، ریچھ، اونٹ اور ہاتھی تک کا کام صرف اپنی اپنی تال پر جھومنے کا ہی تھا اور وہ اسی میں مگن تھے۔ بیل کی آنکھوں پر بندھی پٹی تو جیسے آنکھ کا حصہ بن چکی تھی۔ اب یہ پٹی بہت سے گروہان کی آنکھوں کو بھی دھندلا چکی تھی۔ اب شعور صرف حلال و حرام تک محدود تھا اور آپسی معاملات سے انسانی تعلقات کو اسی پیمانے پر تولنے کا شوقین تھا۔

فیمینزم کا نام سنتے ہی مینڈکوں کو بھی زکام ہو جاتا۔ اس سے قطع نظرکہ اصل معاملہ کیا ہو سکتا ہے اور حقوق و فرائض کی تفہیم کیسے ہونا چاہیے۔ حرام کے داغ لگا کر ہر شعور کو اپاہج کرنے کے شوق میں ہلکان ہونے کا رواج فروغ پا چکا تھا۔ مغربی دنیا کی پیروی میں ہلکان ہونے والوں کو بیٹی کی ٹانگیں کاٹتے وقت یاد تک نہ تھا کہ مغربی دنیا میں حقوق نسواں کی تحریک نسائیت کا بنیادی مقصد خواتین کو سماجی حقوق کے ساتھ ساتھ عورتوں کے لیے حقِ رائے دہی، مساوات، عورتوں کی ضروریات، حق وراثت، آزادیء رائے، خود کفالت اور آزاد خیالی کے ساتھ ساتھ خانگی ایذا یا گھریلو تشدد اور آبروریزی سے تحفظ وغیرہ بھی شامل ہیں۔ لیکن غلام بنانے کے شوق انصاف کی تاویل میں انصاف کو ہی ذبح کر رہے تھے۔

انصاف اب صرف خواہش کا نام تھا اور تبدیلی نام کی کوئی گنجائش باقی ہی نہ تھی۔ اب ایسی آگ تھی، جس کا دھواں کہیں اور سے اٹھ رہا تھا۔ یہ ایسی آگ تھی جو بجھتی ہی نہ تھی اور دھوئیں پر پیمرا نے پابندی لگا رکھی تھی اور وہ دھواں جس نے عوام پر سانسیں تنگ کر رکھی ہیں۔ اس کی آگ حکومتی راہداریوں میں گم مذہب کے ہتھیار کند کر رہی تھی۔ خلقت خدا کہنے کو فسانے نہیں، ضروریات زندگی مانگ رہی تھی زباں بندی کے تعویذ اور پھونکوں سے اسم اعظم تخلیق کرتے ہوئے شعبدہ باز بھول گئے کہ اب تماشا سنگین حقیقت بن کر انارکی کی طرف جا رہا ہے۔

یک طرفہ محبت کی طرح یک طرفہ اصطلاحات اور فیصلوں سے کسی کو سروکار نہیں کہ اس کی زد میں کتنی زندگیاں برباد ہو رہی ہیں لیکن اسلام کی فتح کا شوق ایسا غالب ہے جو کھیل میں بھی چسپاں کر دیا جاتا ہے۔ بھلے دنیا جتنا بھی مذاق اڑا لے۔ ضرب المثل ہے کہ بات کرو تا کہ پہچانے جاؤ یا پھر جس کا اصل روپ دیکھنا ہے اس کے ساتھ سفر کیا جائے تا کہ اس کے متعلق فیصلے میں آسانی ہو۔ یہاں تو برسوں کا سفر ہے جس میں ہجر کے سال اور ہزاروں رٹے رٹائے بیانات میں سمجھ ہی نہیں آتی تھی کہ دل کو روئیں یا جگر کو پیٹیں۔

شعور کو عشق کی بجھی راکھ تصور کیا جا چکا تھا۔ اب اس راکھ میں کوئی چنگاری باقی نہ تھی۔ راکھ میں انگلیاں پھیر کر سب اپنی اپنی خواہش کے مطابق تصاویر ڈھال رہے تھے۔ لیکن ان میں رنگ بھرنا کسی کے بس میں نہیں تھا۔ شہر عجب میں دانش وہ وردی تھی جسے جادوئی کرشمہ سمجھا جاتا تھا۔ متاثرین کی تعداد سے قطع نظر ہجوم کو آٹو میٹک سسٹم پر لگا رکھا تھا اور یہ ہجوم سیل بے کراں کا روپ دھار لیتا تھا۔ جہاں اس ہجوم کے چند پارٹیکلز بھی جمع ہوتے، کسی بم کی طرح دھماکے سے پھٹتے۔ مقصد صرف لولے لنگڑے اپاہج دماغوں کی افزائش میں اضافہ تھا۔ یہ عمل نرسری سے شروع ہوتا اور سکولز سے کالج اور پھر یونیورسٹی کا سفر طے کرکے معاشرے میں رنگ بھری تصویریں پھینکنے پر مامور تھا۔

کارکردگی کے سوال پر استثنی صرف مخصوص عوامل پر نافذ تھا۔ طلبہ سے لے کر ہر سطح کے ملازمین کو اچھی کارکردگی سے مشروط رکھا جاتا تھا۔ ہر امتحان میں کارکردگی کو اولیت دی جاتی۔ کنٹریکٹ ری نیو کرنا ہوتا تو بھی کارکردگی دیکھی جاتی۔ یہ کنٹریکٹ کسی بھی سطح پر تین سال سے زیادہ نہ تھا۔ صرف آئی پی پیز کے معاہدے تیس تیس سال پر محیط تھے۔ اندھے نے ریوڑیوں کی بوری ہی بیچ دی تھی۔ نہ سالانہ آڈٹ۔ نہ کوالٹی اسسمنٹ ٹیسٹ، نہ ویری فکیشن اور نہ ہی معاہدہ کی شق میں شعور کی کوئی چنگاری۔

شہر عجب میں اتنا ذہین کون تھا جو سوال بنا دے یا سوال اٹھا سکے۔ یہاں اعمال نامہ صرف دائیں ہاتھ میں دینے کا قانون رائج کیا گیا تھا۔ بائیں بازو والے تھے ہی نہیں۔ کچھ ایسی ہی صورت بچوں کی صحت کے متعلق فیصلے کی تھی۔ مائیں دس ہزار بجلی کے بل پر نہر میں چھلانگیں لگا رہی تھیں۔ بھائی بجلی کے بل پر بھائیوں کے گلے کاٹ رہے تھے۔ بے چھت کے گھر، سر پر طوفان اور بچوں کے لیے دودھ کے نام پر ستائیس ارب روپے کی سخاوت۔

بندر نے انصاف کے نام پر بلیوں کی ساری روٹی تو کھا لی لیکن اس کا مقصد صرف یہ نہ تھا۔ وہ مستقبل شناس تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس پر دھوکے کا الزام بھی نہ آئے اور بلیوں کی ہر لڑائی میں روٹی صرف اس کے پیٹ میں جائے۔ ساری زندگی وہ اپنی اولاد کو یہ پاٹھ پڑھانے کی کوشش کرتا رہا۔ دم آخر بندر نے جلی حروف میں یہ خواہش اب وصیت میں شامل کروا دی تھی۔ اب کسی بلی کو روٹی نہیں ملنے والی تھی۔