Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Doro Zamana Chal Qayamat Ki Chal Gaya

Doro Zamana Chal Qayamat Ki Chal Gaya

گھر مکینوں سے خالی تھے اور کسی کو پروا تک نہ تھی۔ گھر سے گھر تک کچھ بھی ذاتی نظر نہیں آ رہا تھا۔ اخوت کے نئے معانی مارکیٹ میں ہر قیمت اور ہر گروہ کے لئے رعایتی نرخوں پر باافراط موجود تھے۔ چنو منو نے اِدھر اُدھر دیکھا کہ شاید ان کی سمجھ میں کچھ آ جائے لیکن عجیب دھمال نما دھما چوکڑی تھی۔ سر اور تال کا کوئی میل نہ تھا لیکن سر کی چھایا چھپڑ پھاڑ کے ایک زمانے کو مطیع کرنے پر تلی تھی۔ نئے پرانے گانوں کے کیسٹ چل رہے تھے اور اچانک کوئی بھاگتا ہوا آکر ناچنے لگتا۔

فرقہ ملامت کے پیروکار بھی واہ، واہ کیے جا رہے تھے۔ باغ میں لوگ پکنک منا رہے ہیں اور اچانک کوئی مخلوق ٹھمکے لگانے لگتی ہے۔ شاپنگ مال کی سیڑھیوں پہ یک دم کسی کو یوں کرنٹ لگ جائے اور وہ کودنے لگے۔ کہیں میز پر کھانا لگا ہے اور سب کے ہاتھ ساکت ہو جائیں کہ پہلے ویڈیو بنے گی۔ چنو کو لگا کہ وہ زومبیز کے دیس آ نکلے ہیں، لیکن منو نے موٹیویشنل سپیکر کا روپ دھارن کرتے ہوئے اسے سمجھایا کہ ایکسٹراز کی نکل پڑی ہے۔

پہلے ایک گروپ میں شامل ہو کر ناچنے کے جن لوگوں کو100 روپے ملتے تھے۔ اب انہوں نے اپنا بزنس کھول لیا ہے اور کچھ نے مائیک خرید کر ان کو ہیرو، ہیروئن بنا دیا ہے۔ "ایکسٹراز راکڈ، سامعین شاکڈ"۔ سامعین یعنی بالکل عام لوگ۔ تو ایسے پتھر ہیں کہ ان پہ بجلی، گیس، پانی سے لے کر خفیہ جگا ٹیکسز کا رتی برابر بھی اثر نہیں ہوتا۔ سہے جا رہے ہیں، بلکہ یوں کہیے بتیسی نکالے سہنے پہ مائل ہیں۔

چنو منو ٹھہرے روایات و تہذیب کے پروردہ۔ انہیں یہ کرنٹ لگے، اول فول بہاتے، ٹھمکے لگاتے، سر پر راکھ ملتے، گوہر میں ڈبکی لگاتے لوگوں پر بڑا ترس آیا۔ بے چارے، لیکن چنو منو کب جانتے تھے کہ ان کرنٹ کھائی مخلوق کے خواب بہت بڑے ہیں۔ ملک کے شوگر مافیا سے بھی بڑے۔ بجلی کے گھوسٹ پلانٹ سے بھی بڑے۔ ان کے خواب بحریہ ٹاؤن سے بھی بڑے ہیں۔ یہ سائفر لہرا کر مجمع کو مٹھی میں کر سکتے ہیں۔ جو چاہے سر ٹکراتا رہے۔ یہ پٹاخے جہاں چاہے پھوڑ سکتے ہیں۔ یہ پاؤں سے دروازے کھولتے ہیں۔ للکار کر بھاگ سکتے ہیں۔ پاکستانی پرچم پر کھڑے ہو کر ڈانس کرتے ہیں۔

پبلک فگر بننے کے لئے دو دھجیاں پہن کر ناچ برپا کرتے ہیں۔ معنی خیز اشاروں سے خلقت کو جمع کرتے ہیں اور پھر اس ویڈیو کے وائرل ہونے پر پریس کانفرنس منعقد کرتے ہیں۔ اب یہ ہی ہمارے قومی اعلامیے ہیں۔ وطن عزیز کو وجود میں آئے ربع صدی گزر رہی ہے، لیکن یہاں ابھی سسٹم نوزائیدہ بچے جیسا اور زمینی خداؤں کی بہتات ہے۔

ہمارے ہاں کسی کو اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ جدید نظام قدامت پرستی کے بت پاش پاش کر سکتا ہے۔ یہاں سزائیں تو تفویض کی جاتی ہیں، لیکن جرم کا تدارک مشکل ہے۔ جوہر ٹاؤن ہاسٹل میں جو ہوا اس کی بنیاد ہم نے خود رکھی ہے۔ کیا ضرورت ہے فرسٹ ائر میں بچوں بچیوں کو پرائیویٹ کالجز اور پرائیویٹ ہاسٹل کے نام پر دوسرے شہر بھیجنے کی۔ یہ تمام پرائیویٹ کالجز ہر شہر، ہر قصبے میں موجود ہیں۔ وہاں پڑھانے میں کیا ممانعت ہے۔ یہ تو رپورٹ ہوگئی۔ ایسے کتنے ہی ہاسٹل ہیں ان کی چیکنگ کس رپورٹ پر ہوگی۔

فیس بک پر ایسے ہزاروں پیجز لاکھوں فالورز کے ساتھ کھل کھیل رہے ہیں جہاں کسی بھی بیٹی، بہن، ماں کی تصویر ضرورت رشتہ کے عنوان سے لگائی جاتی ہے۔ بکنے والوں کو علم تک نہیں ہوتا کہ وہ کس صفحہ پر شائع ہو رہا ہے۔ نیچے ازلی کنواروں کی لائن لگی ہوتی ہے، جن کے پاس لکھنے کو یہ چار جملے ہی ہیں۔ بڑی بڑی شخصیات کے نام و تصویر کے ساتھ واہی تباہی لکھا ہوتا ہے۔ کیا سائبر کرائم میں ایسا ڈیپارٹمنٹ نہیں ہونا چاہے جو خود بخود ایسے مواد کو detect کرے اور ایسے ایڈمنز کی دھلائی کرے۔ کب تک ہم اگلے سانحہ کے منتظر بیٹھے رہیں گے۔

ایک گروہ بھوکوں ننگوں کا بھی ہے جو مٹھیاں بھر بھر چاول منہ میں ٹھونس رہے ہیں۔ چھوٹے بچوں کو اس رستے پر کمانے کے گر سکھانا کیا چائلڈ لیبر کے زمرے میں نہیں آتا۔ ایک طرف بچوں کو گڈ ٹچ، بیڈ ٹچ کے معانی سمجھاتے ہیں اور دوسری طرف بنا کسی بات کے ویڈیوز کے نام پر انھیں بازار میں پھینک رکھا ہے۔ یہ فیڈر پیتے بچے ہاتھ پکڑ کر بزرگوں کو جنت میں لے جا رہے ہیں۔ ان کے بڑے دن میں بھی خواب دیکھتے ہیں تا کہ نئی نئی تعبیرات کا بزنس پروان چڑھے۔ کوئی بی بی 100 کلو وزن کے ساتھ وزن کم کرنے کے طریقے بتاتی ہے اور کوئی حکیم سفید داڑھی اور بالوں سمیت بال جڑ سے سیاہ کرنے کے نسخے عنایت کرتے ہیں۔

جسمانی و جذباتی کم زوریوں کے عادی جرائم پیشہ لوگ آن لائن بزنس کا کنٹرول سنبھال چکے ہیں اور ہمارے پاس مورچہ بندی کی تعریف تک نہیں۔ کھلے میدان میں کھڑے حیرت زدہ لوگ اشہب زمانا کو طلب کے تازیانہ کھاتے جھوٹی، سچی روایات کے سہارے دوڑتے دیکھتے ہیں اور خود کچلے جانے کے خوف سے رینگے چلے جا رہے ہیں۔ یوٹیوب نے جس طرح روزگار کی ترسیل عام کی ہے اب ہر گھر سے بیانیہ نکلنے کا خدشہ پیدا ہو چکا ہے۔ کون ہے جو قدامت پرستی کی آڑ میں جدیدیت کی اس لہر پر قابو پائے۔ شاید قابو پانے والے ہاتھوں میں کیمرے ہیں اور وہ پوڈ کاسٹ کرنے میں مصروف ہیں۔