گیدڑ اور اونٹ والی کہانی تو ہم سب نے سن رکھی ہے۔ جس میں گیدڑ پیٹ بھر کر خربوزے کھانے کے بعد چلانا شروع کر دیتا ہے اور قصبے کے لوگ اونٹ کو مارنے لگتے ہیں۔ عام طور پر گیدڑ اپنی بزدلی کی وجہ سے مشہور ہیں لیکن ان کا تعلق جانوروں کے "کینین خاندان" سے ہے جس میں بھیڑیے اور کتے جیسے وحشی و بہادر جانور بھی شامل ہیں۔
گیدڑ ہر دور کی روایتی کہانیوں کا بھی نمایاں کردار ہے۔ جس میں کبھی تو اتفاقاً رنگ کی بالٹی میں گر کر رنگنے کے بعد بزعم خود جنگل کا بادشاہ ہونے کا دعویٰ دار بن کر خوب عیش کرتا ہے۔ بلکہ کئی مواقع پر تو داد عیش بھی دیتا نظر آتا ہے۔ ایک کہانی میں تو گیدڑ خود بہ خود سرپنچ بن کر اود بلاؤں کو ڈرا دھمکا کر بے وقوف بناتا ہے اور ان کی جمع کی گئی مچھلیوں کی دم اور سر ان کو دے کر ساری مچھلیاں خود لے جاتا ہے۔
گیدڑ سنگھی کو بھی اسی طرح مقدس سمجھا جاتا ہے جیسے خود ساختہ پیروں کے معجزات گردش میں رہتے ہیں اور ان پر سونے چاندی کے ورق لگا کر نذرانہ یا چندہ فیکٹریاں کھولی جاتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جس خوش نصیب کے پاس گیدڑ سنگھی ہوگی، اس کے کاروبار میں خوب ترقی ہوگی۔ گمشدہ مال مل جایا کرے گا۔ غیب سے ہر طرح کی مدد اور خوشحالی حاصل ہوگی۔ دولت آنے کے ہر ذریعے میں کامیابی ہوگی۔ لاٹری، بانڈ، جوا، سٹہ، کاروبار میں کامیابی ہوگی۔ گیدڑ سنگھی کا ذکر قدیم مصر میں ملتا ہے۔
قدیم مصر میں گیدڑ کو انتہائی متبرک جانور سمجھا جاتا تھا۔ ان کے ایک دیوتا کا نام انوبس Anubis تھا جس کا سر گیدڑ جیسا اور باقی جسم انسان کا تھا۔ قدیم مصر کے اہرام اور دیگر قدیم عمارات کی دیواروں پر اسی دیوتا کے نقوش ہیں۔ تاہم ان کرامات میں محبوب کو تسخیر کرنے کا کوئی خاص ذکر نہیں ملتا۔ حالانکہ سوشل میڈیا والز walls اور اس سے پہلے جگہ جگہ دیواروں پر جادوئی حکمت کی زبان میں حیوانات سے جمادات اور نباتات کے ذریعہ ہر قسم کی کم زوری اور کھوئی ہوئی جوانی حاصل کرنے کے آزمودہ تیر بہدف نسخے موجود ہیں۔
حیرت ہے گیدڑ سنگھی کو محبوب تسخیر کرنے کے لیے کیوں ضروری نہیں سمجھا گیا۔ شاید اس لیے کہ سائنس اور بائیلوجی گیدڑ سنگھی کے مخفی اثرات کو نہیں مانتے۔ ماہر حیوانیات کے مطابق گیدڑ سنگھی ایک بیماری کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ ایک ٹیومر ہوتا ہے جو کبھی کسی گیدڑ کے سر میں نکل آتا ہے۔ اس کو گیدڑ کے سر سے الگ کرنے پر اس کے بڑھنے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ٹیومر پیدا کرنے والے بیکٹیریا اس سنگھی میں موجود ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کو کھا کر بڑھتے رہتے ہیں اور جس سے محسوس ہوتا ہے کہ گیدڑ سنگھی بڑھ رہی ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ کسی گیدڑ سنگھی میں یہ آئینہ بھی نہیں جو حقیقت حال و باطن کی تصویر واضح کر سکے۔
ادب میں بھی عاشقوں کی آہ و زاری اور رونا اردو شاعری کا پسندیدہ موضوع ہے۔ جس میں محبوب کے مظالم اور عاشق کی بے بسی ایک المیہ کو جنم دیتی ہے۔ اس میں بھی رقیب و قاصد کے ساتھ گیدڑ سنگھی کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ کہیں ایسا بھی ہوتا کہ قاصد کے ہاتھ خط کی بجائے محبوب کو گیدڑ سنگھی بھیجی جاتی اور محبوب کو سالم لپیٹ لیا جاتا۔ کسی عاشق کو محبوب پر ڈورے ڈالنے سے پہلے اجازت دریافت کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ عاشق کے طرفدار تو بہت سے شرح خواں ہیں لیکن محبوب کی بے چارگی کی تصویر ہمیں کہیں دکھائی ہی نہیں دیتی۔
مصنوعی اقدار کی طرح ہمارے ہاں مصنوعی گیدڑ سنگھیاں بھی ہر محکمہ میں بدرجہ اتم موجود ہیں اور عوامی بیکٹیریا کھا کر خوب پھل پھول رہی ہیں۔ اس گیدڑ سنگھی میں موجود کینسر کے جراثیم سے عوام پر ایسا سپرے کیا جاتا ہے کہ وہ روٹی سے آگے کچھ سوچ ہی نہیں سکتے۔ ایسی گیدڑ سنگھی اپنی ساتھی گیدڑ سنگھی کو بھی امداد فراہم کرتی ہیں۔ یہ روایت بھی ہے کہ اس گیدڑ سنگھی کو سیندور میں رکھا جاتا ہے تا کہ اس کی بڑھوتی میں کمی نہ آنے پائے۔ اس اعتقادی کینسر کے خوش کن اثرات گھر والوں یا والیوں تک بھی پہنچتے ہیں اور وہ بھی گھر بیٹھے خود کو ولی سمجھنے لگتے یا لگتی ہیں۔ اختیارات کی خوش بو سونگھ کر بااختیار جو تباہی مچاتے ہیں اس پر کوئی مرہم یا وظیفہ اثر نہیں کرتا۔
اکثر اوہام پرستی کا شکار لوگ اس گیدڑ سنگھی کو پاس رکھنا نیک شگون سمجھتے ہیں۔ انھیں لگتا ہے بالوں کا یہ گچھا دولت کا انبار لگانے کے کام آتا ہے۔ بیماروں کو شفا ملتی ہے۔ یہ گیدڑ سنگھیاں ہم سب کے پاس ہیں۔ جن کے پاس نہیں وہ خود گیدڑ سنگھی بن کر کینسر تقسیم کرتے ہیں۔ پوری قوم سونگھنے پر لگی ہے۔ گرمیوں میں بجلی کے بل سونگھ سونگھ کر ادا کیے جاتے ہیں۔ دو یونٹ اوپر چلے جائیں تو میٹر سونگھنے لگتے ہیں۔ پٹرول کی قیمت بڑھ جائے تو پمپوں کا منہ سونگھا جاتا ہے۔
شکر ہے گیدڑ سنگھی رکھنے کے لیے ہے۔ کھانے، چاٹنے یا پکانے کے لیے استعمال نہیں ہوتی۔ ورنہ سوچیں اگر ایسا ہوتا تو ہر سیاسی کارکن یا تو پکا دیا جاتا یا دوسرے کو شکار کر لیتا۔ ابھی تو صرف اسے سنگھا کر ہی وزارتیں حاصل کی جاتی ہیں۔ ابھی تو عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔ پیارے ہم وطنو! گرمیاں ختم ہوتے ہی سردیاں بھی آنے والی ہیں۔ ابھی تو میٹر سونگھتے ہو۔ جب گیس بھی نہ ہوگی نالیوں میں اور بل بھی ٹکا کر آئیں گے تو کسے سونگھو گے؟ ویسے مشرفی بنگال کو آمریت کی گیدڑ سنگھی مبارک ہو۔