دو دن سے چھاجوں مینہ برس رہا ہے۔ کل اور آج تو آنکھ بھی بارش کی جلترنگ سے کھلی۔ مسلسل اور متواتر، تابڑ توڑ بارش کی یلغار نے پوری فضا کو ایک بارشیلے شور سے بھر رکھا تھا۔ بارش ہو تو مجھے قدرت کے رومانس میں ڈوبے ہوئے چائے، سما وار اور درختوں کے عاشق، نثر میں شاعری کرنے والے پسندیدہ مصنف اے حمید ضرور یاد آتے ہیں۔
ان کی وفات کے بعد ان کی اہلیہ نے اپنے لکھاری شوہر کے بارے ایک مضمون لکھا تھا۔ انہوں نے لکھا کہ بارش ہوتی تو اے حمید دیوانے ہو جاتے، رات کے کسی پہر بارش کی آواز انہیں نیند سے بیدار کرتی تو وہ نیم تاریک برآمدے میں رکھی کرسی پر جا کر بیٹھے رہتے اور آسمان سے برستی بارش کو تادیر ایسے دیکھاکرتے جیسے بارش نے ان پر جادو کر دیا ہو۔ آج فجر کی اذان سے پہلے آنکھ بارش کے شور سے کھلی۔ رات کے تیسرے پہر کے خالی سکوت کو تیز برستی بارش کی جلترنگ نے بھر رکھا تھا۔
کھڑکی کے پار دیکھا تو مبہوت کر دینے والا منظر تھا۔ بارش میرے دل کو خوشی سے بھر رہی تھی۔ بادلوں میں اتنا زور تھا کہ صبح تک لگاتار اسی تسلسل سے بارش ہوتی رہی۔ موسلادھار بارش کی ایک دبیز چادر آسمان کی پنہائیوں سے زمین تک آتی دکھائی دیتی۔ کبھی کبھی اس چادر میں دراڑ پڑتی تو آسمانی پانیوں میں نہاتی ہوئی منی پلانٹ کی بیلیں مسکراتی دکھائی دیتیں۔ بوگن ویلیا کی گلابی پھولوں سے بھری ہوئی بیلیں بارش کے تیز پانیوں میں اپنے پھول گیلے فرش پر ایسے گرا رہی تھیں کہ گمان ہوتا ابھی کوئی شہزادی پھولوں کے اس طلسمی فرش پر پائوں دھرنے والی ہے جس کے لئے یہ سب اہتمام ہو رہا ہے۔ ایلو ویرا کی نوکیلی طرح دار شاخیں بڑے طمطراق سے تنی ہوئی برستی بوندوں سے لطف اندوز ہو رہی تھیں۔ پودینے کی کیاری بارش کے پانیوں سے راہ رسم بڑھانے کو خوشگوار موڈ میں تھی۔ الٹا اشوک کی گھنیری باڑیں مستعد فوجی دستوں کی طرح چاک و چوبند کھڑی بارش میں بھیگ رہیں تھیں۔ پتوں پر جمی گرد دھل چکی تھی۔ سبز رنگ گہرے دھلے ہوئے سبزے میں تبدیل ہو گیا تھا۔
کیکٹس کا نخرہ بھی بارش میں دھل کر شاداب تھا۔ گل دوپہری البتہ اداس تھی۔ سورج کے انتظار میں اس کے پھول ادھ کھلے سر جھکائے بارش کے پانیوں میں نہاتے تھے۔ دل ہی دل میں سورج کی تپش آٓلود کرنوں کا انتظار کرتے جن کے لمس سے ان کے چہرے پر بہار آتی، لیموں کے پودے پر ننھے ننھے سفید پھول جگنووں کی طرح چمکتے تھے۔ لائونج کے دروازے کے ساتھ لگی میگی(بلی) جالی کے پار سے بارش کے اس سارے منظر کو ایسے مبہوت دیکھتی تھی گویا اس میں اے حمید کی روح حلول کر گئی ہو۔ آسمانوں سے اترتے بارش کے یہ قافلے زمین والوں کا دل شاد کرتے تھے۔ مسلسل برستی ہوئی بارش نے سڑکوں پر پانی کے دریا بنا دیے تھے بارش کے اس دریا سے کوئی تیز رفتار کار گزرتی تو شڑاپ کی آواز کے ساتھ دور تک پانیوں کی جھالریں سی بنتیں۔ !
اب بارش کچھ تھمنے لگی تھی جیسے برس برس کر اب تھکنے لگی ہو اور کچھ دیر کو سستانا چاہتی ہو۔ اس وقفے کو غنیمت جانا اور گیٹ پر جا کر اخبار تلاش کیا۔ ایک طرح پانی کا ننھا سا تالاب بنا ہوا تھا جس کی سطح پر آج تازہ اخبار تیرتا ہوا دکھائی دیا۔ عالمی منظر نامے پر بدلتی ہوئی صورت حال کی گرما گرمی ہو یا پاکستان کی داخلی سیاست کا احوال عام آدمی کی بگڑتی ہوئی معاشی صورت حال ہو یا سماجی زوال کی خبریں۔ سب بارش کے پانیوں میں ڈوبے ہوئے دکھائی دیے۔
بارشیلے پانی کے ننھے تالاب سے اخبار اس احتیاط سے اٹھایا کہ کہیں ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو، والا مصرعہ یاد آ گیا۔ لان کی کرسی پرکچھ دیر اخبار نچڑنے کے لئے ڈالا۔ خاطر خواہ پانی نچڑ گیا تو پھر اسے استری کر کے خشک کیا۔ یوں کم از کم ایک اخبار اس قابل کر لیا کہ اسے پڑھا جا سکے۔ بہت سی خبریں میں پڑھ رہی تھی اور بہت سی گرما گرما خبریں مجھے اپنا آپ پڑھوا رہی تھیں۔ طالبان بیس سال کے بعد دوبارہ افغانستان میں اپنی حکومت بنا کر دنیا کو حیران کر رہے تھے۔ عبوری حکومتی بندوبست کا اعلان تو کچھ روز پہلے ہی ہو گیا تھا۔ مگر حلف برداری کے لئے انہوں نے خاص ستمبر کا وہ دن چنا تھا جو نائن الیون کے نام سے اب ایک معنی خیز محاوروں والی اصطلاح میں ڈھل چکا تھا۔ 11ستمبر 2021ء۔
ایک اور خبر پر نظر پڑی کسی خستہ حال بستی میں مسلسل بارشوں نے چھت زمین بوس کر دی۔ چھت کے ملبے تلے دبنے والے جان کی بازی ہار گئے۔ کہیں کوئی بارش کے موسم میں کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہو گیا اور آج اس کے مرنے کی خبر اخبار میں چھپی تھی۔ بارشوں سے متاثر ہونے والے یہ وہ عام پاکستانی تھے جو زندہ ہوں تو کبھی اخبار کی خبروں کا موضوع نہیں بنتے بارش میں گھر کی کمزور چھت تلے آ کر مر جائیں تو ان عام پاکستانیوں کو اخبار اور چینل کی خبروں میں جگہ ملتی ہے۔ ایسی افسوس سے بھری خبروں سے ہمیں بارش کا دوسرا چہرہ بھی نظر آتا ہے جو ڈرائونا اور خوفناک ہے۔
بارش کتنا بڑا پیراڈوکس ہے کہیں جلترنگ، رم جھم اور آسمان سے برستا ہوا موسلا دھار نغمہ ہے تو کہیں بارش ملبہ ہوتی چھت اور منہدم ہوتے ہوئے درو دیوار کی بدقسمت کہانی ہے یا پھر گلی کوچوں میں ٹھہرے ہوئے پانیوں کا بیاں ہے۔ بجلی کے کسی کھمبے میں دوڑتا ہوا جان لیوا کرنٹ ہے جو جیتے جاگتے راہ گیر کو موت کی وادی میں لے جائے۔ بارش کے اس خوفناک چہرے کو دیکھ کر مجھے ارنسٹ ہیمنگوئے یاد آتا ہے۔ اس کا لکھا ہوا ناول فیئر ویل ٹو آرمز یاد آتا ہے، اس کہانی میں برستی ہوئی بارش بدقسمتی، جدائی اور موت کی علامت ہے۔ جب بھی بارش ہوتی فیئر ویل ٹو آرمز کا ہیرو بے چین ہو جاتا ہے۔ بارش کی آواز میں اسے کسی جدائی کی چاپ سنائی دیتی ہے۔ اس کی محبوبہ بچے کی پیدائش کے دوران جان ہارتی ہے تو اس وقت بارش ہو رہی ہوتی۔ بارش جو اس کے لئے بدقسمتی اور جدائی کی علامت ہے۔
بارش کہیں مسرت سے دل کو بھرتی ہے۔ کہیں خوشی اور حسن کا استعارہ ہے تو کہیں اس کا تسلسل سے برسنا، اس کا بارشیلا شور، عدم تحفظ خوف اور تکلیف کی علامت بن جاتا ہے۔ کچے مکانوں والے بارشوں سے دوستی نہیں نبھا سکتے۔ بارش اب تھم رہی تھی۔ کئی گھنٹوں سے مسلسل برس برس کر تھکنے لگی تھی، چھوٹے چھوٹے طویل وقفوں سے ٹپ ٹپ کی آواز آتی۔ کہیں پرنالے سے پانی گرتا۔ پتوں کے کناروں پر چمکتی بارش کی بوندیں موتیوں کی طرح دکھائی دیتیں۔ گل چیں کے سفید بگلے جیسے پھولوں کے پروں پر بارش کے قطرے اٹکے ہوئے تھے۔ باغ بارش کے پانیوں میں بھیگ چکا تھا۔ بارش تھم چکی تھی مگر فضا ابھی اس کے سحر سے آزاد نہیں تھی۔ بارش کا آسمانی جادو ابھی کائنات کو اپنی گرفت میں لئے ہوئے تھا۔