میں تصور میں پچھلی صدی کی چوتھی دہائی میں کھڑی ہوں۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں پاکستان کے قیام کا خواب تعبیر میں ڈھلتا ہے۔ قائد اعظم کی عمر اس وقت 71 برس ہے۔ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے عظیم رہنما، جن کی قیادت میں مسلمانوں کو ایک الگ وطن پاکستان نصیب ہوا ہے۔ وہ کروڑوں مسلمانوں کے دل میں دھڑکن کی طرح بستے ہیں۔ اسی عہد میں اسی سال میں بھوپال کا عبدالقدیر اس وقت گیارہ برس کا تھا۔ بوڑھے نحیف رہنما اور کم سن لڑکے کے درمیان کم وبیش 60 برس کا وقفہ ہے۔
دونوں میں اس وقت کوئی قدر مشترک نہیں۔ لیکن دہائیوں کے سفر کے بعد کھلا کہ ان کے عشق کے دھاگے جس معشوق کے پلو سے بندھے تھے وہ ایک تھا، وہ معشوق مملکت پاکستان تھا۔ سوچتی ہوں کہ کمسن عبدالقدیر نے اس وقت بانی پاکستان کی کوئی ایک جھلک کبھی دیکھی ہو گی یا کوئی ایک ذہن پر نقش ہوجانیوالی مختصر سی ملاقات کبھی کی ہوگی یا نہیں۔۔ !تقدیر کی کارفرمائی اور تاریخ کا ہیر پھیر دیکھیں کہ دہائیوں کے سفر کے بعد آج پاکستانی دونوں کو محبت اور عقیدت کے ایک ہی رنگ میں دیکھتے ہیں۔ بھوپال کا کم سن لڑکا پاکستانیوں کے لیے محسن پاکستان کے درجے پر فائز ہوا۔ بانی پاکستان کا احسان آنے والی نسلیں یاد رکھیں گی اور محسن پاکستان کو بھی آنے والی نسلیں سلام پیش کرتی رہیں گی۔
ڈاکٹر عبدالقدیر اسلام کے مجاہد تھے اور جہاد کا راستہ آسان نہیں ہے۔ مشرف دور میں ان کی ڈی بریفنگ ہوئی، ان پر اس قدر پابندیاں تھیں کہ اخبار اور ٹی وی پر ان کا نام آنا بھی بین تھامیں چلڈرن ایڈیشن انچارج تھی۔ ڈاک سے ایک بچے کی نظم موصول ہوئی۔ معصومانہ انداز میں محسن پاکستان سے محبت اور عقیدت کا اظہار کیا گیا تھا۔ میں نے وہ نظم اخبار میں محسن پاکستان کی تصویر کے ساتھ چھاپ دی۔
اگلے روز مجھے ادارے کی انتظامیہ کی طرف سے لیٹر موصول ہوا۔ پتہ چلا کہ مجھ سے سنگین خلاف ورزی سر زد ہوئی ہے۔ اس پر مجھے سنگین غلطی کی کیٹگری کا جرمانہ کیا گیا۔ جبر کا یہ دور گزرا تو پھر وہی اخبار محسن پاکستان کا کالم اعزاز سمجھ کر چھاپتا رہا۔ حفیظ ہوشیار پوری یاد آتے ہیں
اگر تو اتفاقاً مل بھی جائے
تیری فرقت کے صدمے کم نہ ہوں گے
عمر رسیدہ سائنسدان کے دل پر ہر دکھ کی خراش تحریر تھی جسے وہ گاہے منتخب شاعری میں بھی بیان کرتے رہے۔ کل وہ لوگ جو سنگ زنی کرتے رہے آج انہیں اعزاز کے ساتھ دفن کرنے کا اعلان کررہے تھے۔ یہ فیصلہ بھی پاکستانی قوم کے احساسات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ورنہ ان کے چہرے ان کے اندر کے جھوٹ کی چغلی کھا رہے تھے۔ جنہیں اتنی توفیق نہ ہوئی کہ وہ ہسپتال میں زندگی کے آخری دن گزارتے ہوئے ہوئے کمزور اور بیمار قومی ہیروکی عیادت کرتے انہیں پھول بھجواتے، ان سے قومی سطح پر محبت اور عقیدت کا اظہار کرنے کے کئی طریقے تھے۔ ڈی بریفنگ کے تکلیف دہ عمل سے گزار کر قوم کے سامنے ڈاکٹر صاحب سے معافی منگوائی گئی۔ ان کے آزادانہ میل جول پر پابندیاں لگائی گئیں۔ وہ اپنی مرضی سے کہیں نہیں جا سکتے تھے نہ کوئی ان سے ملنے آسکتا تھا۔ عملی طور پر انہوں نے اپنی زندگی کے آخری 17 برس انتہائی تکلیف کے عالم میں نیم اسیری میں بسر کیے۔
ہم شاید بنیادی طور پر احسان فراموش قوم ہیں۔ پاکستان کا قومی ہیرو جس نے ایک آزاد اور آسودہ زندگی کا تاوان دے کر پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا۔ آخری عمر میں عدالت سے استدعا کرتا ہے کہ میری عمر 84 برس ہے، میرے آزادانہ میل جول پر پابندی اٹھائی جائے، میں اپنے ملاقاتیوں سے نہیں مل سکتا، کالج اور یونیورسٹی کے طالب علموں سے بات نہیں کر سکتا۔ قومی ہیرو کو عدالت میں کھڑے ہو کر کہنا پڑتا ہے کہ میں غدار نہیں ہوں۔ میں نے پاکستان کی خدمت کی ہے اور سب کچھ پاکستان کے لئے کیا ہے۔ 2009 میں ان پر پابندیاں نرم ہو گئیں تھیں مگر اس کے باوجود عملی طور پر وہ آزادانہ میل جول نہیں کر سکتے تھے۔
ڈاکٹر قدیر کی زندگی پر نگاہ دوڑائیں تو خیال آتا ہے کہ ہالینڈ سے اپنی بہترین نوکری چھوڑ کر پاکستان آ جانا، 1974 میں بھارت کے جوہری تجربے کو دیکھ کر بے قرار ہونا اور پھر پاکستان کو جوہری طاقت بنانے کے خواب کو اپنے اندر پروان چڑھانا۔ اس کے لئے عملی جدوجہد کرنا آسان ہرگز نہیں تھا۔ انہیں اس کی قیمت یقینا معلوم تھی اس خواب کی تعبیر ان کے لیے کانٹوں کا راستہ تھی مگر وہ اپنے وطن کی محبت میں سرشار تھےسو تمام مشکلات کے باوجود وہ اس راستے پر چلے۔ اہل اقتدار کی طرف سے آتے بے حسی کے نشتر بھی انکے کے لہجے کو تلخ نہ کرسکے۔ وہ شکوہ کرتے مگر دھیمے لہجے میں، یہ جو ہم میں تم میں نباہ ہے میرے حوصلے کا کمال ہے۔ غیر معمولی شخص کو قدرت نے حوصلہ بھی غیر معمولی عطا کیا تھا۔ اب جب وہ بیمار تھے تو حکومت وقت میں سے کسی کو ان کی عیادت کی فرصت نہ ملی۔ مر گئے تو جنازہ تک میں شرکت کرنا گوارا نہ کیا۔
اکتوبر کی اس سہ پہر آسمانوں سے برستی بارش اللہ کے اس مجاہد کی رخصتی پر قدرت کی طرف سے ایک پرسا، ایک تعزیت تھی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک اساطیری کردار بن کر دلوں اور داستانوں میں زندہ رہیں گے۔ ان سے محبت اور عقیدت پاکستان کی آنے والی نسلوں تک ایک اثاثے کی صورت منتقل ہو گی۔ اور وہ جو عالمی غنڈوں کے دباؤ پر محسن پاکستان کو مجرم ٹھہراتے رہے، وہ تاریخ کے کوڑے دان میں پڑے رہیں گے۔