دراز میں رکھی ہوئیں نیلی، میرون، سرمئی اور سبز رنگ کی یہ ڈائریاں میرے گزرے ہوئے شب و روز کا عکس، اپنے صفحات کے دامن میں سنبھالے ہوئے ہیں۔ صفحات جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بوسیدہ ہوتے چلے جائیں گے مگر ان پر کھینچی ہوئی سطروں میں زندگی کے عکس ہمیشہ تازہ رہیں گے۔ زندگی کے کتنے ہی منظر ان سطروں میں دھڑک رہے ہیں۔ گزرے ہوئے وقت کی کہانیاں جو اب خواب سا محسوس ہوتا ہے۔ مگر ڈائری کو کھولنے پر یہ خواب ایک لمحے کو آنکھوں میں نمی بن کر پھیل جاتا ہے۔
ہاں۔ ڈائریاں ایسی ہی جادوگر ہیں۔ وقت جو کبھی نہیں رکتا!ایک سیل رواں کی مانند بہتا چلا جاتا ہے اور ہم خود اس سیل رواں میں بہتے ہوئے، زندگی کے کتنے دریا پار کر لیتے ہیں مگر ان ڈائریوں کے بوسیدہ پرانے صفحات میں یہ وقت ٹھہرجاتا ہے۔ ڈائری لکھنے کی عادت میں نے اپنے پیارے ابو جان سے لی۔ وہ باقاعدگی سے روزنامچہ لکھا کرتے تھے۔ میری طرح احساسات اور شب و روز کی کہانیاں تو کبھی نہیں لکھتے تھے بس کچھ ضروری یاد رکھنے والی باتیں اور پورے دن کا مختصر سا احوال بہ زبان انگریزی کبھی کبھی اردو میں بھی۔ ان کی لکھی ہوئی ڈائریوں کا ایک ڈھیر، سا ٹرانسفر اور شفٹنگ کے دوران ایک صندوق سے برآمد ہوا۔ اس سے پہلے ہمیں خبر نہیں تھی کہ ابو جان کی پرانی ڈائریاں محفوظ بھی ہیں یا نہیں۔ ان ڈائریوں میں کچھ ایسے صفحات بھی پڑھے جن پر انہوں نے خاندان میں پے درپے آنے والے صدمات پر اپنے دلی جذبات کو تحریر کیا ہوا تھا۔ کچھ دلگداز اشعار بھی لکھے ہوئے تھے۔ ہر بچے کی طرح ہم بھی اپنے ابو جان کو چٹان جیسا مضبوط سمجھتے تھے۔ مگر غلطی یہ ہو جاتی ہے کہ ہم سمجھ بیٹھتے ہیں کہ چٹان جیسا مضبوط یہ شخص دکھوں کے مقابل کمزور نہیں پڑ سکتا۔ یا اس کے دلی احساسات اور جذبات ہوتے ہی نہیں یا ہوتے ہیں تو وہ انہیں بیان نہیں کر سکتا، پہلی دفعہ یہ شعر ابو جان کی ڈائری میں پڑھا:
میری قسمت میں غم جو اتنے تھے
دل بھی یا رب کئی دیے ہوتے
ایک ہی سال میں انہیں قریبی رشتوں کی جدائی کا غم سہنا پڑا جن میں ان کی اکلوتی ہمشیرہ کی وفات کا غم بھی شامل تھا، یہ سفر ان کے دلی رنج و غم کا عکاس تھا۔ اندر سے گہرے اور گھمبیر لوگ، جو اپنے دلی احساسات کا اظہار عام طور پر نہیں کر سکتے۔ ایسے لوگ عموماً ڈائری لکھنے کے عادی ہوتے ہیں۔ ڈائریوں میں لکھی ہوئی تحریروں کے ٹکڑے، لکھنے والے کی اندر کی دنیا کو منعکس کرتے ہیں یا بالکل ایسے ہی جیسے آئینہ ہمارے بیرونی عکس کو منعکس کرتا ہے۔ ڈائری لکھنے کے ساتھ یہ روایت بھی جڑی ہوئی کہ ہم اسے چھپا کر رکھتے ہیں اور کسی کو پڑھنے نہیں دیتے اس لئے ڈائریاں سنبھال کر رکھی جاتی تھیں۔
ہمارے خاندان میں بچوں کو بھی ڈائریاں لکھنے کی عادت ہے اگرچہ آج کل کے بچے اپنے جذبات کے اظہار میں بہت کھلے ہیں انہیں جو اپنے والدین سے کہنا ہوتا ہے کہہ دیتے ہیں مگر پھر بھی ایک اندر کی دنیا بھی تو ہوتی ہے، جو ہم پر بھی اسی وقت منکشف ہوتی ہے جب ہم تنہائی میں ڈائری کھولے، اپنے آپ سے گفتگو کرتے ہیں، ڈائری لکھنا دراصل خود سے گفتگو کرنا ہی ہے۔ کچھ عرصہ ہوا میں اپنی ایک دوست کے گھر گئی، جس کا بیٹا دانیال سے عمر میں بڑا تھا۔ اس کے شوق اور دلچسپیاں عمر کے اعتبار سے مختلف تھیں، سو دانیال کی طرف وہ ذرا کم متوجہ ہوا۔ اب ہمارے اس طرح نظر انداز کئے جانے پر اس قدر برہم ہوئے کہ گھر آتے ہی ڈیئر ڈائری کو اٹھایا اور اس پر غصے میں لکھنا شروع کر دیا اس کے بعد اپنی طرف سے وہ ڈائری چھپا دی گئی۔
خیر میں نے پڑھ لی۔ اف اتنا غصہ۔ اپنی ساری بھڑاس ڈیئر ڈائری کے صفحات پر خوب نکالی ہوئی تھی اور جب صاحبزادے کو معلوم ہوا کہ ماں نے ان کی ڈائری پڑھ لی ہے تو بولے ماما آپ کو معلوم نہیں کہ "ڈائری پرسنل چیز ہوتی ہے اسے نہیں پڑھتے۔ میں حیران ہوئی کہ ڈیجیٹل دور میں آن لائن کلاسیں لینے والا بچہ بھی ڈیئر ڈائری سے جڑی اس روایت کا پاسدار ہے۔ وجہ یہی کہ ڈائری آپ کے دل کے نہاں خانوں کی راز دار ہوتی ہے۔
ڈائری کا لفظ لاطینی زبان سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے"دن" یعنی دن بھر کی روداد لکھنا۔ دنیا کی سب سے پہلی ڈائری دوسری صدی میں روم کے ایک شہنشاہ (Marcus Aurelius)مارکس اوریلس نے لکھی، یہ ایک فلاسفر قسم کا بادشاہ تھا، جو اپنے شب و روز، ذاتی زندگی کے مشاہدے اور تجربات سے، حکمت دانش اور فلسفے کی باتیں اپنی ڈائری میں روز لکھتا۔ شہنشاہ مارکس اوریلس اس کی یہ ڈائریاں بعدازاں "Meditation" کے نام سے شائع بھی ہوئیں اور پڑھنے والوں میں بہت مقبول ہوئیں۔ جرمنی کی ٹین ایجر لڑکی این فرنیک کی لکھی ہوئی ڈائریاں دوسری جنگ عظیم کے دوران لکھی گئیں جب نوعمر فرینک اپنے خاندان کے ساتھ دو سال روپوش رہی۔ بعدازاں پورا خاندان گرفتار ہوا اور اس ذہین نوعمر تخلیق کار کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ تنہائی میں ڈیئر ڈائری کے سامنے اپنے دلی احساسات کا اظہار کرنے والی فرینک کی لکھی ڈائریاں The diary of a young girlکے نام سے شائع ہوئیں جو آج بھی دوسری جنگ عظیم میں لکھے گئے ادب کا سب سے اہم حوالہ سمجھی جاتی ہیں۔
ڈائری لکھنے والا تنہائی کے کسی گوشے میں بیٹھ کر اپنے دل کو ڈائری کے صفحات پر انڈیلتا ہے مگر بے خبری میں وہ ان چھوٹی چھوٹی ذاتی نوعیت کی تحریروں میں اس عہد کی تاریخ مرتب کر رہا ہوتا ہے۔ اگر کسی ایک پہلو سے ہی سہی مگر وہ جو لکھتا ہے وہ سچائی اور دیانت پر مبنی ہوتا ہے۔ کسی بیرونی خواہش یا اثر سے پاک سیدھی اور بے تکلف تحریر۔ !یہی وجہ ہے کہ پرسنل ڈائریاں جب بھی شائع ہوئیں۔ وہ بیسٹ سیلر کتابیں بن کر پڑھنے والوں میں مقبول رہیں۔ (جاری ہے)