Saturday, 16 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Loe Loe Bhar Le Kuriye

Loe Loe Bhar Le Kuriye

مجھے روٹین کے کام سے ایک وقفہ لینا پڑا کہ تصویر سے سے باہر نکل کر تصویر کو دیکھوں۔ میرے پڑھنے والوں نے محسوس کیا ہوگا کہ کچھ عرصے سے میرا ہفتے میں ایک کالم ہی چھپ رہا تھا۔ وجہ یہ کہ میں گزشتہ ایک ماہ سے آدھی چھٹی پر تھی کہ تین کی بجائے ہفتے میں ایک کالم۔۔ !

اب جب کہ میرے آزادی کے یہ دن ختم ہونے میں ایک دن باقی تھا تو مجھے اشرف شریف کا فون آیا کہ آپ کی چھٹیاں ختم ہو گئی ہیں سو آج آپ کو کالم بھیجنا ہے۔ میرے کلینڈر کے مطابق چھٹی کی معیاد ختم ہونے میں پورا ایک دن باقی تھا۔ خیر دفتر تو دفتر ہی ہوتا ہے، کالم لکھنا پڑا۔ اخبار نویس کے لیے اخبار کا کام کسی نشے کی طرح ہوتا ہے خصوصا وہ جو اخبار میں تواتر کے ساتھ لکھتے ہیں۔ صرف ان کے قارئین کو ہی نہیں انہیں خود بھی ہفتے کے متعین کردہ دنوں میں خود کو دیکھنے اور اپنی تحریر کی محبت میں مبتلا ہونے کی عادت پڑ جاتی ہے۔

جب میں نے ملازمت کا آغاز کیا تو میرے آس پاس اخبار کے بڑے مشہور نام کام کررہے تھے۔ وہ لوگ جن کے نام ہر ہفتے چھپتے تھے اور وہ اخبار سے جڑے ہوئے ہر قاری کے لیے جانے پہچانے صحافی تھے۔ اپنے ایڈیشن کے انچارج کے طور پر برسوں سے ایک ہی فریم کے چوکھٹے میں کام کرنے کے عادی تھے۔ اور اس میں کسی قسم کی تخلیقی اختراع کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی خود تھے۔

ہر ادارے میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جو نئے آنے والوں کے نئے خیالات، روٹین سے ہٹی ہوئی تخلیقی سوچ سے گھبراتے ہیں۔ یہ ایڈیشن انچارج کسی بھی طور اپنے کسی نئے ساتھی کو اپنے صفحے پر لکھنے کی اجازت دینے کا حوصلہ نہیں رکھتے تھے۔ میں مخصوص دائرے میں کام کرتے کرتے جب یکسانیت کا شکار ہوتی تو دل چاہتا کہ کسی اور موضوع پر بھی لکھوں، کبھی اس کا تذکرہ ہوتا تو سامنے والا کہتا ہے آپ نے ضرور کسی کے چھابے میں ہاتھ مارنا ہے۔ چھابا ایک سلینگ slang نما اصطلاح تھی۔

آہستہ آہستہ یہ بات سمجھ میں آ گئی کہ یہاں ہر ایک کا اپنا چھابا ہے جس کے ساتھ اس کا سروائیول جڑا ہوا ہے۔ یعنی اگر اس کے ایڈیشن پر کسی اور کا نام چھپ گیا تو سمجھیں کہ کائنات کا نظام تلپٹ ہو کر رہ گیا۔ عدم تحفظ کی یہ صورت دیکھی تو سب سے پہلے میں نے خود کو سر وائیول کے اس محدود کنویں سے باہر نکالا۔

ہفتے کے تین دن اپنا نام، کالم کے لوگو اور تصویر کے ساتھ دیکھنے کی عادت اب برسوں سے ہے۔ جس روز اپنا کالم کھول کر دیکھتی ہوں خود کو تھپکی دی جاتی ہے کہ خوب دانشوری کا بگھار لگایا ہے۔ لیکن کبھی کبھی اس میں بھی یکسانیت محسوس ہوتی ہے۔ حالات حاضرہ وہی رہتے ہیں۔ کالم نگاروں کو کم و بیش ایک ہی جیسے موضوعات پر لکھنا پڑتا ہے۔ یوں حالات حاضرہ کی یکسانیت تحریروں میں بھی جھلکنے لگتی ہے اور وہ آخر کار یکسانیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ حالات وہی ہیں، سیاسی مفادات کے گرد رقص کرتی کمینگیاں وہی ہیں۔ اشرافیہ کی زندگی آسائشوں اور عیاشیوں سے مالامال ہے تو غریب شہر مہنگائی اور غربت سے ویسا ہی بیحال ہے جیسا ایک دہائی پیشتر تھا، بلکہ اب تو کچھ زیادہ ہی صورت حال ابتر ہے۔ پھر ان پر تبصرہ کرنے والی تحریریں کیسے بدل جائیں۔

ہمارے ایک معاصر کالم نگار جو کبھی انگریزی میں اپنی تحریر کے جھنڈے گاڑا کرتے تھے اب اردو کالم میں اپنے دل کا احوال بڑے بے ساختہ انداز میں بیان کرتے ہوئے اعتراف کرتے ہیں کہ ہمارے لکھنے سے کچھ نہیں بدلے گا۔ محترم ہارون الرشید نے ایک دن کہا کہ کبھی سوچتا ہوں کے کالم نگاری چھوڑ کر کوئی ناول لکھوں۔ ایسی ہی خواہش کا اظہار کسی انٹرویو میں یاسر پیرزادہ نے بھی کیا کہ افسانے لکھنا چاہتا ہوں۔

ہمارے اخبار کے کالم نگار احمد اعجاز اکثر کالم کو کہانی کا روپ دیتے ہیں۔ اشرف شریف سیاست سے اور حالات حاضرہ سے ہٹ کر لکھیں تو تحریر کا آہنگ ہی اور ہوتا ہے۔ اخبار کے لیے مخصوص انداز میں لکھتے لکھتے اور چیزوں کو ایک خاص زاویے سے پرکھتے اور جانچتے ہوئے اخبار نویس کے دل میں خالص تخلیقی نثر لکھنے کی خواہش جاگ اٹھے تو یہ بھی غنیمت ہے۔ لکھاری کے لیے یہ وہ اثاثہ ہے جسے ہر صورت سنبھال کر رکھنا چاہیے۔

اخبار نویس میکانکی انداز میں چیزوں کو جانچنے اور پرکھنے لگتے ہیں۔ میرے اندر کے لکھاری پر بھی یکسانیت کی ایسی کائی جمنے لگی تھی۔ ایک تخلیقی بہاؤ تھا جو اظہار کے لیے راستے کا طلب گار تھا۔ ایک ہی روٹین میں چلتی ہوئی زندگی کو کبھی رک کر یکسانیت کی گرد جھاڑنے، پونچھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کبھی تصویر سے باہر نکل کر تصویر کو دیکھنے کی چاہت اور حاجت ہوتی ہے۔ چیزوں کو ایک نئے زاویے سے پرکھنے اور جانچنے کی خواہش ہوتی ہے تاکہ آپ تتلی کے پروں میں خوشبو اور ہوا کے ماتھے پر لکھے ہوئے سندیسے پڑھ سکیں۔

وہ ان کہی جو کہیں اندر رہ جاتی ہے اسے کہنے کاسلیقہ ڈھونڈیں۔ میرے جیسے وہ لوگ جو زندگی میں قوس قزح کے ساتوں رنگ جینا چاہتے ہیں ان میں اس خواہش کا الاؤ زیادہ بھڑکتا ہے۔ خالی کینوس، ادھوری نظمیں، آدھ پچد کہانیاں، غزلوں کے ہاتھ سے پھسلتے ہوئے مصرعے، پڑھنے والی کتابوں کی لمبی فہرست۔۔۔ میری ٹو ڈو لسٹ عمرو عیار کی زنبیل کی طرح لامحدود ہے کہ میری دنیا کتاب سے کچن اور پن سے ہوم میڈ پزا کے درمیان ایک پنڈولم کی طرح جھولتی ہے۔ اس پر پراسرار تیزی سے گزرتے ہوئے شب و روز۔ میاں محمد بخش کا یہ لازوال شعر روز میرے کان میں پھونکے جاتے ہیں:

لوئے لوئے بھر لے کڑیے جے تْدھ پانڈا بھرنا

شام پئی بن شام محمد گھر جاندی نے ڈرنا۔۔

سو تصویر سے باہر نکل کر تصویر کو دیکھنے کے لئے وقفہ لیا تھا۔ اب وقفے کے بعد حاضر ہوں۔