Saturday, 16 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. October Mein Phir Aik Zalzala

October Mein Phir Aik Zalzala

گزشتہ صبح بلوچستان میں آنے والے شدید زلزلے نے دل دہلا دیا۔ وہی اکتوبر کا مہینہ اور تاریخ میں صرف ایک دن کا فرق۔۔ وہ 8اکتوبر تھا یہ زلزلہ 7اکتوبر کو آیا۔ سولہ برس بیت گئے ہیں مگر قیامت خیز زلزلے کی یادیں ہن سے محو نہیں ہوئیں۔ قدرت نے زمین کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا تھا اور اس زمین کے الٹ پھیر کے ساتھ سینکڑوں لوگوں کی زندگیوں میں وہ زلزلہ آیا جس کے اثرات سے وہ اپنی آخری سانس تک نہ نکل سکیں گے۔ ریڈیو پاکستان لاہور کے سینئر براڈ کاسٹر اظہرعلی ان دنوں مظفرآباد ریڈیو میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے تھے وہ اپنے تین بچوں اور اہلیہ کے ساتھ مظفرآباد کے گھر میں مقیم تھے اس قیامت خیز زلزلے نے ان کے تینوں بچے ان سے چھین لیے۔ اس ہولناک زلزلے کی پہلا کلپ جو انٹرنیشنل میڈیا پر آن ائیر گیا وہ اظہر علی اور ان کی اہلیہ کی تھی جو دیوانوں کی طرح لوگوں کو مدد کے لئے پکار رہے تھے ان کا گھر منہدم ہوچکا تھا اور اس گھر کے ملبے کے نیچے ان کی زندگی کا اثاثہ، ان کی متاع حیات، ان کے تینوں معصوم بچے آخری سانسیں لے رہے تھے۔۔۔ آہ۔۔ قیامت سی قیامت تھی جو ان دونوں پر بیت گئی۔

اظہر علی صاحب سے ریڈیو پر کئی ملاقاتیں رہیں۔ ریڈیو پاکستان سے کرنٹ افیئرز کے لائیو پروگرام کے لیے مجھے اظہر علی اور احمد رضا چیمہ نے ہی بلایا۔ اظہرعلی اس پراجیکٹ کے ہیڈ تھے۔ انہیں دیکھ کر احساس ہوتا کہ کس سلیقے اور کس صبر سے انہوں نے اپنے اندر ایک لامتناہی دکھ کو سنبھالا ہوا ہے۔ کبھی کبھی اپنے بچوں کی تصویریں بھی دکھاتے جنہیں 8 اکتوبر کا زلزلہ نگل گیا۔ یہ صرف ایک کہانی ہے 8۔ اکتوبر کے زلزلے نے ایسی کتنی ہی المناک داستانوں کو جنم دیا۔ ایک ایک کہانی میں دکھ اور غم کے لامتناہی صحراموجود ہیں۔ لوگوں کے لیے تو وقت گزر جاتا ہے مگر جن پر گزری ہوتی ہے ان کے لئے غم پہاڑ کی مانند ٹھہر جاتا ہے بچھڑنے والے تمام عمر ہجر کے اس کا پہاڑ کی کوہ پیمائی میں گزار دیتے ہیں۔

سولہ برس ہونے کو آئے ہوئے اور آج بھی وہ یادیں اسی طرح ذہن میں تازہ ہیں۔ کشمیر، بالاکوٹ، مظفرآباد سے سینکڑوں زخمی لاہور کے اسپتالوں میں لائے گئے تھے۔ ہسپتال زلزلے بسے متاثرہ زخمیوں سے سے بھر چکے تھے۔ میں ان دنوں ایک بڑے اخبار میں بچوں کے صفحہ کی انچارج تھی اور سنڈے میگزین میں بطور فیچر رائیڑ کام کرتی تھی۔ زلزلے سے سے پوری قوم دکھ اور احساس کے ایک لڑی میں پروئی گئی تھی، میں نے تو اپنی زندگی میں ایک ہی بار اپنی قوم میں یگانگت اور اتحاد کا یہ مظاہرہ دیکھا ہے۔ یہاں تک کہ دور دراز کے رہنے والوں نے بھی زلزلے کے متاثرین کا دکھ اتنا محسوس کیا کہ اس برس شاید ہی کسی نے عید روایتی تیاریوں کے ساتھ منائی ہو۔ یاد رہے کہ زلزلہ رمضان المبارک میں آیا تھا اور اس کے بعد عید الفطر تھی بازاروں میں رش نہیں تھا لوگ خریداری کرتے بھی تو زلزلہ متاثرین کیلئے احساس اور ایثار کا الگ ہی جذبہ تھا۔ بطور انچارج چلڈرن ایڈیشن ہم نے لاہور کے بڑے بڑے ہسپتال میں زخمی بچوں کا سروے کیا ان کی عمر اور ان کی ضرورتوں کی فہرستیں بنائیں اور مخیر حضرات سے رابطہ کر کے ان کے لیے ان کی ضرورت کے مطابق تحائف تیار کئے۔ کپڑے جوتے سوئیٹر یہاں تک کے ان کی پسند کے کھلونے تک خریدے گئے۔ تحائف کو خوبصورت گفٹ پیپرز میں میں لپیٹا گیا یا ان کے بیگ بنائے گئے گئے اور پھر فہرستوں کے مطابق اسپتالوں میں زخمی بچوں میں تقسیم کیے۔ یقینی طور پر یہ اخبار کا کام نہیں تھا یا پھر بچوں کے صفحے کے انچارج کی حیثیت سے میری یہ ڈیوٹی نہیں تھی لیکن اس کے پیچھے بس یہی جذبہ تھا کہ سٹوریز اور رپورٹنگ کرنے سے بڑھ کر کچھ ایسا کر سکیں کہ اپنے دکھی پاکستانی بہن بھائیوں کے لیے کسی طور ہم بھی تسلی اور مرہم ذریعہ بن سکیں۔

اسپتالوں میں زخمیوں کے سروے کے دوران کئی بار میرے ساتھ فاخرہ تحریم بھی ہوتیں جو خواتین ایڈیشن کے حوالے سے زلزلے سے متاثرہ۔ خواتین سے بات چیت کرتیں، اسپتالوں میں زخمی کراہتے ہوئے زلزلہ متاثرین کی کہانیاں سنتے تو خود ہماری آنکھوں میں آنسو آ جاتے۔ دینے والے کئی ہاتھ آج دوسروں کی طرف مدد کے لیے دیکھ رہے تھے۔ عبرت کی تہہ در تہہ داستانیں بکھری پڑی تھیں، اگر ہم سیکھتے تو یہ بہت بڑا پیغام تھا جو اس قیامت کی گھڑی میں اس قوم کو ملا۔ کاش کہ اتحاد و یگانگت قربانی اور ایثار کا یہ جذبہ ہم بحیثیت قوم اپنے پلے سے باندھ لیتے۔۔ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!

سولہ برس کے بعد آج وہی مہینہ ہے، بس ایک ہی دن کا وقفہ ہے میرے بلوچستان کے کچھ دور دراز پسماندہ شہروں میں کو اس قدرتی آفت نے قیامت برپا کی ہے۔ زیادہ متاثر ہونے والا شہر ہرنائی ہے جبکہ قلعہ سیف اللہ مسلم باغ میں بھی بھی نقصان ہوا ہے۔ ہماری دو بہنیں بلوچستان میں مقیم ہیں۔ ایک تو مسلم باغ میں کالج کی پرنسپل ہیں، ان سے فون پر خیریت معلوم کی، دوسری کوئٹہ میں موجود ہیں۔ مسلم باغ والی بہن کے بارے میں زیادہ تشویش تھی کیونکہ یہ علاقہ زلزلے سے متاثر ہوا ہے۔ ریسکیو آپریشن تو شروع ہو چکا ہے مگر افسوس کے جن علاقوں میں زلزلہ آیا وہاں قریب اچھے اسپتال کا انتظام نہیں تھا تو دور دراز سے زخمیوں کو کوئٹہ کے ہسپتالوں میں منتقل کیا جارہا ہے۔ اس سرگرمی میں فوری طور پر طبی امداد کے مستحق متاثرین پر کیا گزری ہوگی اندازہ لگانا مشکل نہیں کبھی کوئی ایمرجنسی ہو جائے سسٹم کے انفرسٹرکچر کی قلعی کھل جاتی ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ یہاں قدرتی آفت سے بھی بڑی آفتیں کرپشن حکومتی انتظامی نااہلی امن وامان کی مخدوش صورت حال اور عدم تحفظ کی صورت عوام پر سارا سال ہی مسلط ہی رہتی ہیں۔