پنجابی میں کہتے ہیں کہ۔۔۔ سوچی پیا تے بندہ گیا۔ یہ فوک وزڈم کیٹس کے قلم سے نکلا تو اس نے کہا کہTo be think is to be full of sorrow۔ حضرت انسان کے اندر یہ فطری رجحان ہے کہ وہ سوچ کے سفر پر ہمیشہ لاحاصل کا ماتم کرتا ہے۔ نارسا امیدوں اور بے ثمر خوابوں کے بارے میں سوچ کر پریشان رہتا ہے۔ پھر کتاب حق میں لکھی ہوئی بات یاد آتی ہے کہ انسان بنیادی طور پر ناشکرا ہے۔ شکر گزاری بھی سوچ کا نام ہے اور ناشکری بھی انسانی سوچ کی ایک کیفیت کا نام ہے۔ ارادے کی بات دوسری ہے، مگر غیر ارادی سوچیں کبھی انسان کو حاصل ہو جانے والی نعمتوں کے شکر کی طرف نہیں لے کر جاتیں۔
اگر کسی نے اپنی سوچ کے سرپٹ دوڑتے گھوڑے کی لگام کو اپنے قابو میں کر لیا تو سمجھیں اس نے دنیا کو تسخیر کر لیا اور اس فانی دنیا میں خوش رہنے کا نسخہ اعظم تلاش کر لیا۔ مگر کیا کریں کہ یہ نسخہ اعظم ہمارے سامنے بھی پڑا ہو تو اس کو حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ اس کے لیے آپ کو اپنی سوچ کی تربیت کرنی پڑتی ہے کہ کیسے سوچ کے گھوڑے کو مثبت رستے پر دوڑانا ہے اور اگر وہ منفی راستے پر دوڑے تو اس کی لگام کھینچ کر اس کو روشن اور مثبت سوچ کی رہ گزر پر ڈالنا ہے۔ اگر آپ نے زندگی گزارنے کا یہ ہنر سیکھ لیا تو سمجھ لیں کہ آپ نے ذہنی دباؤ کی پہلی سطح کو قابو میں کرنے کا سلیقہ سیکھ لیا۔ اگرسوچ کے سرپٹ دوڑتے ہوئے گھوڑے کو منفی سوچوں اور لاحاصل کے پیچھے بھاگنے سے نہ روکا تو پھر ذہنی دباؤ انزائٹی، ڈپریشن کا آکٹوپس آپ کی زندگی کو شکنجے میں جکڑ نے کو تیار بیٹھا ہے ۔
ا س صورت میں زندگی کی تمام نعمتوں کے باوجود آپ کی زندگی قابل رحم ہوگی کیونکہ آپ اپنے وجود میں لاحاصل کے دکھ میں سلگ رہے ہوں گے اور زندگی کی جو نعمتیں حاصل کی صورت میں آپ کے آس پاس موجود ہیں خواہ وہ مادی صورت میں ہو یا رشتوں کی صورت میں، آپ ان سے بے خبر ہو جائیں گے۔ کیونکہ منفی سوچ کی تاریکی آپ کے اندر سے نکل کر آپ کے آس پاس فضا کو اتنا تاریک کر چکی ہوگی کہ پھر آپ کو اپنی زندگی کی انگنت نعمتیں دکھائی ہی نہیں دیں گی۔ میں ان لوگوں کی بات کر رہی ہو جو زندگی میں سب کچھ ہوتے ہوئے بھی پریشان رہتے ہیں اور ننانوے کے چکر سے نہیں نکلتے۔
انسان وہی کچھ ہے جو وہ سوچتا ہے اگر وہ زندگی کے بارے میں پر امید زاویوں سے سوچتا ہے تو اسے زندگی میں خود بخود مثبت چیزیں دکھائی دینے لگتی ہیں لیکن اگر آپ نے اپنے آس پاس منفی سوچ کے آئینے سجا رکھے ہیں اور زندگی ان سے منعکس ہو کر آپ تک پہنچتی ہے تو پھر آپ کو زندگی کا پرامید اور روشن اجلا چہرہ کبھی دکھائی نہیں دے گا۔ منفی آئینے کئی قسموں کے ہیں۔ حسد کرنا، اپنی زندگی کا موازنہ دوسروں کی زندگیوں سے کرتے رہنا، اپنے آس پاس لوگوں میں خامیاں تلاش کرنا، انکی خوبیوں سے صرف نظر برتنا، زندگی کے بارے میں ان مسائل پر کڑھتے رہنا جو آپ کے اختیار میں نہیں۔
آپ اسی حد تک دنیا کے معاملات کے ذمہ دار ہیں جہاں تک آپ کا اختیار ہے باقی دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اس حوالے سے حساس ہونا ایک باشعور شخص کا طرز عمل ضرور ہے لیکن ان مسائل کو اپنے حواس پر سوار کر کے کڑھنا اور مسلسل اس احساس میں سلگتے رہنا کہ دنیا میں کچھ بھی اچھا نہیں، خطرناک ہے، جو رفتہ رفتہ ذہنی بیماری کی شکل اختیار کر لیتا ہے اس کے اثرات جسم پر ہونے لگتے ہیں۔ مستقل مسائل پر کڑھنا اور انزائٹی میں مبتلا رہنا ہمارے مدافعتی نظام کو کمزور کرکے سب سے پہلے معدے کے نظام کو تباہ کرتا ہے۔ زیابیطس، بلڈ پریشر جیسی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ نا امیدی منفی سوچ کی اولاد ہےنا امید شخص سستی اور کاہلی کا شکار رہتا ہے۔
بس یوں سمجھ لیں کہ منفی سوچیں ناامیدی کاہلی اور سستی آپس میں رشتہ دار ہیں، یہ سب اکٹھا رہنا پسند کرتے ہیں۔ یہ ممکن نہیں ایک جانب آپ پر منفی سوچوں کی گرد پڑی ہو، دوسری جانب آپ زندگی کے میدان میں پرعزم طریقے سے سرگرم عمل بھی ہوں۔ سو میرے پڑھنے والوں زندگی میں یہ ہنر ضرور سیکھ لو کہ اپنی سوچ کو ہر قیمت پر مثبت کیسے رکھنا ہے۔ سوچ روشن رہے گی امید کی فصل لہلہائے گی تو آپ زندگی کہ تمام تر مشکلات کے باوجود میدان عمل میں سرگرم رہیں گے۔ نسخہ اعظم یہ ہے کہ اپنی ہر سوچ کارخ اپنے رب کی طرف موڑ دیں۔ اوور تھنکنگ کا شکار لوگ اپنے اندر سوچوں میں غرق ہوتے رہتے ہیں۔ زندگی میں کیے ہوئے غلط فیصلوں پر خود کو مورد الزام ٹھہرانا نا یا کسی کی بات کا بروقت جواب نہ دے سکنے پر خود کو کوسنا مسائل پر پریشان ہونا اور اپنے ساتھ منفی ڈائیلاگ کرتے چلے جانا اور پھر بحیثیت انسان ہمارا اختیار محدود ہے۔ اپنے ساتھ مکالمہ کرنے والے لوگ محدود پیرائے میں زندگی کو دیکھ کر پریشان ہوتے ہیں۔
ایسی کیفیت ہو تو مکالمہ اپنے رب سے کریں وہ جو آپ کے لیے اسباب بناتا ہے وہی تو ہے جو رات کی گھمبیرتا میں ستارے ٹانکتا ہے چاند روشن کرتا ہے۔ اس اختیار والے سے مکالمہ کریں گے تو آپ کی سوچ کا رخ خود بخود مثبت ہوجائے گا۔ آپ کے اندر نا امیدی کا جھاڑ جھنکاڑ صاف ہونے لگے گا۔ اس نہج پر اپنی تربیت بہت ضروری ہے ہے کہتے ہیں کہ 95 فیصد انسان کی زندگی اس کی سوچ کی پیداوار ہے۔ سوچ آپ کو غلام بنا سکتی سوچ آپ کو بادشاہ بنا سکتی ہے، سوچ آپ کو پر اعتماد بناسکتی ہے، سوچ آپ سے آپ کا اعتماد چھین سکتی۔ سوچ کے اتھرے گھوڑے کو منفی راہ پر نہ جانے دیں۔۔ اس کی لگامیں کھینچ کہ رکھیں۔