یہ 28 مارچ کی صبح تھی جب وہ میرے آفس میں داخل ہوئی۔ میں اُسے جانتی تھی بردبار اورمتین سی عورت جو گذشتہ چار سال سے مشقت کی چکی میں پس رہی تھی۔ شوہر کی ناگہانی بیماری، اس کی موت، سسرال کاسردمہر رویہ، تین بیٹیوں کا ساتھ۔ اس کی تینوں بچیاں ہمارے پاس پڑھتی تھیں پانچویں، تیسری اور دوسری میں۔ یقینااس وقت وہ ان کا ہوم ورک لینے آئی تھی۔ صبح کا وقت تھا۔ ہوا میں ابھی خنکی تھی مگر وہ پسینہ پسینہ ہورہی تھی۔ گھر کافی فاصلے پر تھا۔ پیدل چل کر آئی تھی۔ اور ہانپ بھی رہی تھی۔
کرسی پربیٹھنے کے ساتھ ہی اس ہونٹ بولنے لگے تھے۔"کرونا پھیل رہا ہے۔ لاک ڈاؤن کردیا ہے۔ اورنج ٹرین بند۔ میٹرو بس بند۔ گورنمنٹ پبلک بسیں بند۔ چنگ چی بند۔ یہ کنٹرول ہورہا ہے۔ غریب آدمی کرونا سے تو بچ جائے گا مگر یہ جو احمقانہ اقدام ہورہے ہیں۔ یہ ان کی زندگی کو عذاب بنا دیں گے۔ اب اگر پاس گاڑی نہ ہو، شوہر مرگیا ہو، بیٹا بھی نہ ہو تو غریب کو انہوں نے مارنا ہی ہے نا۔ ابھی منڈی سے سبزیاں ہفتے بھرکی لے کر آرہی ہوں۔"لاک ڈاؤن کِس چڑیا کا نام ہے کوئی وہاں جا کر دیکھے۔ انسانوں کے جتھے، نہ ماسک اور نہ چھ فٹ کی دوری۔ ٹرکوں سے سامان اُتر رہا ہے۔ بولیاں لگ رہی ہیں۔ خریدوفروخت کا سلسلہ زوروں سے جاری ہے۔ کیسا اور کہاں کا لاک ڈاؤن؟ دیہاڑی دار طبقہ جس کی دیہاڑی لگے گی تو گھر کا چولہا جلے گا۔
اب یہ جو اوپر بیٹھا ہے جس نے ہمیں بہت سارے خواب دکھائے تھے کیا نہیں جانتا کہ اس ملک میں بہت غریب اور مجبورلوگ بھی ہیں۔ جو رکشوں کے دوسو تین سو نہیں دے سکتے ہیں۔ ذرائع آمدورفت کے یہ سارے ذرائع بند کرنے سے پہلے ان کا تو سوچو۔ چلاتے نا گورنمنٹ کی بسیں۔ ایس او پیز کی کڑی نگرانی کرتے۔ ایک بندہ ایک سیٹ۔ مگران کی حکومت تو گھاٹے کا سودا نہیں کرتی۔ خود تو کروڑوں کیا اربوں کو ڈکار مارے بغیر ہضم کر جاتی ہے۔ اور پھر ستم کہ ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں۔ اب میرے پاس انہیں دینے کے لئے ہے کیا۔ دعاہیں یابددعاہیں۔
***
وہ خوبصورت ہی نہ تھی۔ بہت قابل بھی تھی۔ امتیاز کے ساتھ سی اے کرنے والی، دو بچوں کی ماں جو مجھے ہمیشہ گلاب کے کھِلے پھول کی طرح تروتازہ اور مسکراتی ہوئی نظر آتی تھی۔ پچیس مارچ کی اس دوپہر ماسک پہنے کوریڈور میں اُسے آیا سے باتیں کرتے دیکھا۔ غالباً وہ نرسری کی ٹیچر کا پوچھ رہی تھی۔ اس نے ماسک نیچے کرتے ہوئے مجھے سلام کیا۔ اس کا چہرہ جُھلسا ہوا تھا۔ گھبرا کر اُس کی خیریت پوچھی تو جیسے پھٹ پڑی۔
جیٹھ جیٹھانی انگلینڈ سے آئے اور بس سارا گھر اِس کمبخت کورونا کی لپیٹ میں آگیا۔ دراصل پہلا کورونا پھیلا ہی ان کی حماقتوں اورغلط حمایتیوں کی وجہ سے ہے۔ دوسرا کرونا انگلینڈ سے آنے والے لائے۔ چودہ دن قرنطینہ کرنے کی بجائے انہیں پیسے لے کر چورراستوں سے گزاراگیا۔ یورپی ممالک بشمول آسٹریلیا اور چین وغیرہ میں فائیو سٹار ہوٹل میں چودہ دن کا قرنطینہ کرنا لازمی ہے۔ اور وہ بھی اس شخص کے ذاتی پیسوں سے۔ یہاں کیا ہوا؟ تگڑی سفارشوں والے بغیر ٹیسٹ کے نکل گئے۔ کچھ پیسوں کے زورپر کچھ سفارشوں کے ساتھ۔ کچھ کے ٹیسٹ ہوئے جن کی اگلے دن کی مثبت رپوٹ پر ان کے ٹھکانوں پر چھاپے پڑے۔ وہاں بھی خوب پیسے کا کاروبار ہوا۔ پیسے چلے۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ اب پورا گھر اس وبا میں جکڑا گیا ہے۔
حقیقت میں ان بے چاروں کو سمجھ ہی نہیں آرہی ہے۔ کھلنڈرے لاابالی سے لوگوں کی کیفیت اُس اناڑی نائی کی طرح ہی تو ہے جس کے ہاتھ میں اُسترا آجانے سے لوگوں کے گلے کٹنے کا خدشہ پیدا ہوجاتا ہے۔ بائیس سال نعرے لگانے والوں نے نعرے لگانے، دھرنے دینے اور لوگوں میں کھلنڈرا پن ہی تو پیدا کیا ہے۔ حکومت کیسے چلانی ہے؟ اہم ایشوز سے کیسے نپٹنا ہے جانتے ہی نہیں۔
نہ خود میں استحکام، نہ ساتھی قابل، نہ اُن کا تجربہ۔ ایک کو بٹھاتے ہیں، سیٹ کے لیے اہل ہے، نااہل ہے، نہ سوچتے ہیں، نہ کچھ سمجھتے ہیں، نہ جگ ہنسائی کا کوئی خیال ہے۔ پھر رسوا کرکے نکال باہر کرتے ہیں۔ یہی تماشا ہورہا ہے۔
اوپر سے مہنگائی کا جن اتنا بے قابو ہوگیا ہے کہ غریب آدمی کا وہ حال ہے کہ سر ڈھانپتا ہے تو پاؤں ننگے ہوتے ہیں۔
***
یہ 26مارچ کا دن ہے۔ بارہ سالہ بچہ ہاتھ میں موبائل پکڑے باپ کے ساتھ اسکول کے گیٹ سے اندر داخل ہوا تھا۔ نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا باپ قینچی چپل گھیسٹتا بڑ بڑ کرتا بیٹے کے ساتھ چل رہا تھا۔"ہر بچے کے پاس ڈیوائس ہو، گھر میں انٹر نیٹ کا کنکشن ہونا چاہیے، کمپیوٹر ہونا ضروری، لائٹ چلی جائے تو متبادل انتظام بہت اہم۔"
ان ا سکول والوں کو اللہ توفیق دے کہ وہ ذرا سوچیں کہ ان کی فراہمی غریب کے لیے کتنی مشکل؟ اِن حکمرانوں کو بھی خدا کا خوف نہیں۔ یہ چاہتے تو اسکول کھلے رہ سکتے تھے۔ شفٹوں میں کلاسیں ہوسکتی تھیں۔ مگر اِن کے ہاں پلینگ نام کی کوئی شے نہیں۔ گھروں میں رکھ کر بچوں کا بیڑہ غرق کررہے ہیں۔ سارا دن خرمستیوں میں جتے رہتے ہیں۔ آن لائن کلاسز کے لیے مرے جارہے ہیں۔ زمینی حقائق کیا ہیں؟ جانے ان کی جوتی۔ جس ملک میں سخت سردیوں میں بجلی کی آنیاں اور جانیاں رہتی ہوں، جس ملک کے اسکولوں میں ایک کلاس میں اسی اور سو بچہ بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھنسے بیٹھے ہو۔ جہاں پنکھے نہ ہوں۔ جہاں ذرا سا پانی پڑنے پر چھتیں ٹپکتی ہوں۔ جہاں کے حکمرانوں کی ترجیح میں تعلیم سب سے نظرانداز کیا جانے والا شعبہ ہو۔ وہاں آن لائن کلاسیں مذاق نہیں ہے کیا؟