بیل بجی تھی۔ 40 کے پیٹے میں ایک سنجیدہ سی لڑکی نما خاتون نے دروازہ کھولا۔ دروازے پر ادھیڑ عمر کے ایک اے ایس آئی کے ساتھ ہیڈ کا نسٹیبل کو کھڑے دیکھ کر گھبرا ئے ہوئے تاثر اور سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھتے ہوئے آنے کی غرض و غایت کا پوچھا۔
"آپ کوئی اکیڈیمی چلارہی ہیں؟" اے ایس آئی نے سوال کیا۔ خاتون نے تھوڑے سے تذبذب بھرے لہجے میں کہا۔"کہہ لیجیے۔ باقاعدہ اکیڈیمی تو کرونا سے پہلے تھی۔ آج کل تو نہم دہم کے چند بچے آرہے ہیں۔ وہ بھی اُن کے والدین نے بہت مجبور کیا ہے۔"
دراصل15پر گذشتہ پانچ دنوں سے کالیں آرہی ہیں کہ یہاں ٹیوشن ہورہی ہے۔ پہلی بار ہم نے اِسے نظر انداز کیا۔ دوسری بار بھی توجہ نہیں کی۔ اب چھ بار مسلسل اِن کالوں کو نظر انداز کرنا مشکل تھا۔ میراخیال ہے کہ یہ آپ کے پاس پڑھنے والے بچوں میں سے ہی کوئی ہیں۔
خاتون نے گیٹ کھولتے ہوئے کہا "آپ اندر آکر دیکھ لیں کہ ان کے درمیان کتنا فاصلہ ہے۔ بچے کتنے ہیں اور ماسک پہنے ہوئے ہیں یا نہیں؟"۔
اے ایس آئی نے کہا "اِس کی ضرورت نہیں۔ میڈم آپ انہیں پڑھائیں۔ آپ نیک کام کررہی ہیں۔ اس ملک کے بڑے غریبوں کے بچوں کو جاہل رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ عام لوگوں کا علاقہ ہے جہاں گھروں کے اندر ایک کمرے میں بیس بیس بچے بیٹھے ہیں۔ جب سے لاک ڈاؤن ہوا ہے۔ والدین مسلسل انہیں ٹیوشنوں پر بھیج رہے ہیں۔ الحمد اللہ ہم بھی علاقے کی پٹرولنگ پر ہوتے ہیں۔ ایک کیس کسی بچے کا رجسٹرڈ نہیں ہوا۔ پڑھائیں انہیں۔ علم دیں۔ اس ملک کو تعلیم کی سب سے زیادہ ضرورت ہے"۔
خاتون کی آنکھوں میں حیرت اُبھری۔ پولیس کا بندہ سوچ میں بڑا منفرد لگا تھا۔ خاتون ماہرِتعلیم ہی نہ تھی بلکہ ملکی سیاست اور حالاتِ حاضرہ سے بھی گہری دلچسپی رکھتی تھی۔ عام پولیس کی سوچ میں اِس احساس کا پیدا ہونا خوش آئند لگا۔ ایک کپ چائے کی آفر کی۔ پولیس والا انکاری ہوا۔ مگر اس کا اصرار اُسے گھسیٹ کر اندر لے آیا۔
آپ کا براہ راست واسطہ لوگوں سے رہتا ہے۔ کورونا کی صورت ہماری معلومات کے مطابق گذشتہ ماہ سے نارمل ہی ہے۔ پھر بھی سکول کھولنے میں حکومت کے عزائم اور پابندیاں ناقابلِ فہم ہیں۔ آپ اس بارے میں کیاکہتے ہیں؟
میڈم، میرے خیال میں نالائق لوگ اکھٹے ہوگئے ہیں جن کے پاس نہ تجربہ ہے اور نہ پلاننگ۔ میں ڈبل ایم اے ہوں۔ ایم اے انگریزی اور ایم اے سیاسیات۔ سارے امتحان میں نے نوکری میں ہی پاس کیے۔ مقابلے کا امتحان بھی دیا۔ تحریری میں پاس ہو گیا۔ انٹرویو میں فیل ہوگیا۔ کیوں؟ میری پُشت پر بڑی سفارش نہیں تھیں۔ دو تصویریں دکھاتا ہوں۔ ایک اپنے علاقے کی۔ اسی سے ملتی جلتی صورت باقی جگہوں کی بھی ہے۔ پوش علاقوں کو چھوڑ دیں۔ پہلے ذرا کورونا بارے صورت واضح کردوں۔
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی بارش میں نشیبی علاقے جھیلیں بن گئے تھے۔ جہاں آنے جانے کی مشکلات کا سامنا تھاوہیں بچوں کی موجیں ہوگئیں۔ یہ منظر گذشتہ بہت سالوں سے ہم دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ بچے نہا رہے ہیں، موج مستیاں کر رہے ہیں، ایک دوسرے پر پانی اچھال رہے ہیں۔ کوئی کہے گندہ پانی تھوڑا بہت ان کے اندر نہیں جاتا تو غلط ہے۔ اندرجاتا ہے۔ گو واٹر پلانٹ سے گھر والے ڈرم بھربھر لاتے ہیں مگر پھر بھی ان کی زندگیوں میں احتیاطیں نہیں ہیں۔
بند روڈ پر گاڑیوں، رکشوں اور چنگ چیوں کا ایک طوفان آیا رہتا ہے۔ چوک پر ایک جانب لنڈا بازار کھلا ہوا ہے۔ جوتوں کی سیڑھیاں، رسیوں میں لٹکے کپڑے اور اُن پر مکھیوں کی طرح بھنبھناتے لوگ۔ بھاؤ تاؤ۔ ایک جانب ایک ٹھیلے میں رکھے بڑے سے تھال میں چپلی کباب تہہ در تہہ دھرے ہیں۔ اردگرد کھڑے تین چار لوگ نان چٹنی کے ساتھ انہیں مزے سے کھا رہے ہیں۔ مٹی گھٹا سب ساتھ ساتھ اندر جا رہا ہے۔
غریب پر جوانی تو بس ہوا کے کسِی خوشگوار جھونکے کی طرح پل بھر کو ہی چھوتی ہے۔ پھر زندگی کو گھسیٹنے والے پہیے اس پر ایسے چب ڈال دیتے ہیں کہ صورت ہی اجنبی بن کر رہ جاتی ہے۔ سچ تو یہ ہے نا خالص غذائیں اور ماحول کی آلودگی کے باوجود بچپن اور جوانی میں ان کا ایمونٹی سسٹم طاقتور رہتا ہے۔ گذشتہ دو تین ماہ میں بچے تو بچے بڑوں کا بھی کوئی خاص کیس سامنے نہیں آیا۔ کوئی بیمار بھی ہو ا تو ہسپتال کی بجائے عام ڈاکٹر یا دیسی ٹونے ٹوٹکوں سے خود ہی رُل کھل کر ٹھیک ہوگئے۔ بیمار کیا وہ پہلے نہیں ہوتے تھے؟
اب سُنیئے تعلیم کی صورت۔ شعبہ تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کیا جا رہا ہے۔ آن لائن کلاسز، آن لائن امتحان، انٹرنیٹ کے دیگر ذرائع کا استعمال۔ جی توچاہتا ہے پوچھیں میاں کسِ ٹارگٹ پر ہیں۔ وہ تو کہتے ہیں کہ کتاب کا زمانہ ختم ہوگیا ہے۔ انٹر نیٹ کا دور ہے۔ ہم قوم کو اس میں طاق کردیں گے۔
یکساں نصاب کا نعرہ ہے۔ اس ملک میں یکساں نصاب۔ آپ تعلیم دیتی ہیں۔ کتنے نصاب ہیں؟ کہیں کیمبرج، کہیں آکسفورڈ، کہیں امریکن سسٹم، کہیں سیکنڈری بورڈ، کہیں اردو میڈیم اور کہیں مدرسہ سسٹم جس میں آگے بھی بے شمار شاخیں ہیں۔ لگتا ہے جیسے کہیں آسمان سے اُتر کر آئے ہیں۔ زمینی حقائق جانتے ہی نہیں۔
آن لائن کلاسز، بھڑکیں اورشیخیاں۔ کیا کوئی جدید سے جدید طریقہ تدریس کلاس روم، استاد، بچے اور اُن کے درمیان اُس رشتے کا نعم البدل ہوسکتا ہے۔ جو ان تینوں کی مثلث سے جنم لیتا ہے۔ اب ذرا آن لائن کلاسوں کی کارکردگی کا بھی جائزہ لے لیں۔ بڑے بچوں کے طریقہ امتحان کی چند مثالیں سُن لیں۔
گروپ میں امتحان۔ بچوں نے مضامین بانٹے ہوئے ہیں۔ جو بچہ جس مضمون میں اچھا ہے۔ اسی کی تیاری۔ باقی مضامین گئے بھاڑ میں، ایک دوسرے کی مدد سے پرچے کیئے جا رہے ہیں۔ کہیں کتابیں کُھلی ہوئی ہیں۔ دس بجے صبح پرچہ ہے۔ اُستاد کی کوئی مجبوری ہوگئی ہے۔ لیجئے رات کو نو بجے پیپر ہورہا ہے۔
ایک ماں کے تین یا چار بچے۔ مختلف کلاسیں۔ اتنے سارے لیپ ٹاپ، موبائل یا کمپیوٹر نچلے متوسط طبقہ کہاں سے پیدا کرے؟ بڑے لوگوں کے پاس تو چلو یہ سب کچھ ہے۔ بڑے سکولوں میں مہنگی فیسیں دینے والوں کے بچے تو پہلے ہی اسِ طریقے سے کافی مانوس ہوتے ہیں۔ نیٹ سے ریسرچ کرنا اُن کی تعلیم اور نصاب کا حصّہ ہے۔ مارے تو غریب کے بچے گئے۔ گورنمنٹ سکولوں میں پڑھنے والے۔ جہاں سو کی کلاس۔ اُوپر سے گذشتہ خادمِ اعلیٰ نے انگلش میڈیم کر دیا۔ بجائے اس کے کہ مڈل کے بعد درجہ بندی کی جاتی کہ کونسے بچوں کے ہاتھوں میں ٹول پکڑانے ہیں؟ کونسے اعلیٰ تعلیم کے لئیے موزوں ہیں؟ نتیجہ کیا ہے؟ کلرک بنا رہے ہیں۔ بی اے پاس بابو جو درخواست نہیں لکھ سکتا ہے۔ 10 لاکھ سالانہ پر امیر کا بچہ ڈاکٹر انجنئیربن رہا ہے۔ نکما نالائق ڈاکٹر جسے خاک پتہ نہیں۔ یہ ہیں ہمارے حکمرانوں کی تعلیمی پالیسیاں۔