کولمبو میں ہمارا قیام وائی ڈبلیو سی اے میں تھا۔ یہ سری لنکا کی ورکنگ خواتین اور طالبات کا ہوسٹل تھا۔ صبح ڈائننگ روم میں ناشتہ کرتے ہوئے جب میں نے لڑکیوں سے پوچھا کہ ہمیں کولمبو میں کیا کیا چیزیں دیکھنی چاہیں۔
"ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں جائیں۔ موبائل سے کھیلتی ایک چُلبلی سی لڑکی بولی۔
Slave Island کو ذہن میں رکھیں۔ بیرا Beira Lake کے نظارے لوٹنے ہیں یاد رکھیں۔"
ایک اور نے کہا"کولمبو فورٹ بھی دیکھنے کی چیز ہے۔ Galle Face Road پر ایک بار نہیں کئی بار جائیں۔ عمارتوں کی شاہانہ عظمت، تاریخ اور انکی قدامت سب آپ کی آنکھیں حیرت سے وا کریں گی۔ آتے جاتے ہوٹلوں پر بھی نظریں ڈالتی رہیں کہ مزہ آتا ہے انہیں دیکھ کر اور ہاں گینگراGangara بُدھ ٹمپل ضرور دیکھنا ہے۔ یہ یاد رکھنا ہے۔"
لڑکیوں نے ایک ہی سانس میں کِس تفاخر سے ڈھیروں ڈھیر نام گنوا ڈالے تھے۔ ایک اورلڑکی نے اٹھتے ہوئے گرہ لگادی تھی۔ کولمبو کے بارے تو کہا جاتا ہے "دیکھنے کی چیز ہے۔ اسے بار بار دیکھ۔ تھوڑا سا اضافہ ہم لنکن لڑکیاں اس میں اور کردیتی ہیں۔ شہر ایسی دلرباعی والا ہے کہ اس کی ہر چیز کا دیکھنے سے تعلق ہے۔
چلئیے باہر آکر رکشے میں بیٹھے اور اُسے نیشنل میوزیم کے لئیے کہا۔ درمیانی فاصلہ بہت تھا۔ جہاں سے چلے تھے اسے فورٹ کہتے ہیں۔ میوزیم کولمبو نمبر2میں تھا۔ مگر وہ محاورہ کہیں اللہ میاں کے پچھواڑے والا بالکل درست تھا۔ یوں بھی رکشہ اپنی چھوٹی قامت کی وجہ سے باہر کے نظاروں میں حائل رہتا ہے۔ چلو بس یا ٹرین ہوتی تو اِس دُوری نے بھی لطف دینا تھا۔
یہ کولمبو کا بڑا بارونق علاقہ تھا۔ سر مارکس فمینڈوماواتاSir Marcus Femando Mawatha روڈپر سبزے کے وسیع و عریض لانوں کے پس منظر میں راج ہنس کی طرح ایک سفید براق عظیم الشان عمارت پر پھیلائے ہنستی مسکراتی تھی۔ وسیع و عریض لان کے عین درمیان آ ہنی جنگلے اور اُن میں کھلے رنگا رنگ پھولوں کے اوپر ایک مجسمہ کھڑا تھا۔ چند لمحوں کیلئے رُک کر اُسے بغور دیکھا۔
اس کے بانی ولیم ہنری گریگوری کا تھا جو برٹش دور میں جزیرے کا گورنر ہونے کے ساتھ لنکن ثقافت کے احیاء کا یقینا باپ کہلانے کا مستحق ہے۔ ہاں البتہ ایک اور شخص بھی اِس بڑے کا م میں حصّہ دار تھا۔ جس کا ذکر نہ کرنا زیادتی کے زمرے میں آتا ہے۔ آراسی ماریکرویپچی Arasi Marikar Wapchie جو شیخ فرید فیملی کی نسل سے تھا۔ سری لنکا کا یہ مور (مسلمان) خاندان کوئی لگ بھگ 1060 میں سری لنکا کے ساحلوں پر اُترا تھا اور پھر یہیں کا ہوگیا۔ سری لنکا کے فلاحی کاموں میں اس خاندان کی بڑی خدمات ہیں۔
آراسی 1829 میں پیدا ہوا۔ 1925 میں وفات ہوئی۔ کمال کا ماہر تعمیرا ت تھا۔ کولمبو کی قدیم اور شاندار عمارات جو اس وقت شہر کا لینڈ مارک شمار ہوتی ہیں جن میں جنرل پوسٹ آفس، کولمبو کسٹم، پرانا ٹاؤن ہال، گیلی فیس ہوٹل، کلاک ٹاور جیسے نام ہیں جو اِس خاندان کے کولمبو کی تعمیر و ترقی میں حصّہ ڈالنے اور اس کا چہرہ سنوارنے کا اعتراف کرتے ہیں۔
اِس میوزیم کو بنانے میں آراسی ماریکر کی خصوصی توجہ، دلچسپی اور محنت شامل تھی۔
افتتاح کے دن برٹش گورنر کے ہمراہ برطانوی افسران کے ساتھ ساتھ عمائدین شہر، معززین مملکت کی خاصی تعداد تھی۔ مسلمان بھی کافی تھے۔ رسم کے اختتام پر گورنر نے مسٹر آراسی ماریکر سے پوچھا کہ اس نے میوزیم کے سلسلے میں جو خدمات سرانجام دیں ہیں وہ انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ کِسی ایسی خواہش کا اظہار کریں جسے وہ پورا کرنے میں خوشی محسوس کرے۔ آراسی میریکر نے میوزیم جمعہ کے دن بند کرنے کی خواہش کا اظہار کیا اورکہا کہ جمعہ مسلمانوں کا سبتSabbath ہے۔ اِس درخواست کو پذیرائی دی گئی اور اِسے قائم رکھا گیا۔
اور یہاں ایک بے حد دلچسپ، قابل غور، قابل عمل اور قابل فخر بات اور بھی ہے۔ جب آخری کینڈی شہنشاہ کا تخت و تاج اور دیگر شاہی اشیاء کو میوزیم کی زینت بنایا گیا اور اس کی باقاعدہ نمائش ہوئی۔ یہ 1948 آزادی کے بعد کی بات ہے۔ انتظامیہ کو احساس ہوا کہ چار روزہ نمائش کے تسلسل میں جمعہ کی چھٹی کی وجہ سے تعطل آرہا ہے جو نمائش کیلئے مناسب نہیں ہوگا۔ بات ملک کے وزیر اعظم کو پہنچائی گئی۔ مسٹر ڈی ایسScnanayake نے آراسی ماریکر کے پوتے سررزاق فرید سے صرف اُس جمعہ کو میوزیم کھولنے کی خصوصی درخواست کی جسکی سر رزاق فرید نے منظوری دی۔
واقعی آپ اپنے ملک و قوم کیلئے کام کرتے ہیں، آپ کسی مذہب، کسی رنگ نسل سے ہوں قابل عزت و احترام ٹھہرتے ہیں۔ میرے ملک کے حکمرانوں اور عام لوگوں کو بھی یہ نکتہ سمجھنا چاہیے کہ افراد اوران کے قابل ذکر کام کتنے اہم ہوتے ہیں۔ انہیں رنگ، نسل، فرقوں، مذہب اور مسلکوں کے خانوں میں بانٹنا ایک قوم کی ذہنی مفلسی اور پستہ قامتی کے برابر ہے۔
شہروں کی تاریخی جگہیں اُس علاقے کا اثاثہ اور بیش قیمت سرمایہ ہوتی ہیں۔ جن کی حفاظت ہی ضروری نہیں بلکہ اُن کی شکل و صورت بمعہ اُن کا ماضی سب کو محفوظ رکھنا گویا ملکی تاریخ کو محفوظ رکھنے کے برابر ہے۔ ناموں کی ادلی بدلی صدیوں پرانے مجسموں کی توڑ پھوڑ ہر گز پسندیدہ کام نہیں۔ یوں تو خیر سے آج کے ترقی یافتہ ملکوں میں بھی ایسے کام ہوتے رہے ہیں۔ 1988میں گوربا چوف کے دور میں برثر نیف اور چرننکو کے ناموں کی تختیاں اُتر رہی تھیں اور نئے پسندیدہ نام لگ رہے تھے۔ مگر اسے سراہا تو نہیں جاتا۔ بت شکن بننے کا شوق ہے۔ ضرور بنئیے۔ مگر تاریخ کے ساتھ نہیں جاہلیت اور انسانیت کش رویوں کے بتوں کو توڑ ئیے کہ لوگ سانس لیں اور سکون سے جیئیں۔