مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے ملک احمد خان کو اپنا ترجمان مقرر کر دیا، بظاہر یہ ایک عام سی خبر ہے، سیاستدان اپنا ترجمان لگاتے، بدلتے رہتے ہیں۔ لیکن موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میں شہباز شریف کا یہ فیصلہ نہایت اہم ہے۔ اس فیصلے نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے، مثلاً ایک سوال تو یہ ہے کہ کیا ن لیگ کی موجودہ سیکرٹری اطلاعات مریم اورنگزیب اپنا کام درست انداز میں نہیں کر پارہیں؟ کیا شہبازشریف کو ان پر اعتماد نہیں رہا، یا وہ اہم معاملات پر پارٹی کی رائے اسکی روح کے مطابق بیان نہیں کر سکیں؟
سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا نوازشریف کا وہ مزاحمتی بیانیہ بھی تبدیل ہو گیا ہے جس کی بناء پر وہ اسٹیبلشمنٹ کے سامنے آکھڑے ہوئے۔ ان کے بقول اسی بیانیے کی وجہ سے ان کی حکومت گئی اور 2018 کے انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ آزاد رائے رکھنے والے دانشوروں کی ایک بڑی تعداد اس بات پر متفق ہے کہ گزشتہ 3 سالوں میں اپوزیشن کی جانب سے حکومت گرانے کیلئے احتجاج کی کئی کوششیں ناکام ہونے کی ایک بڑی وجہ بھی مزاحمتی بیانیہ تھا۔ پاکستانی اداروں بالخصوص ہماری فوج کے خلاف نازیبا زبان پاکستانیوں کو قابل قبول نہیں۔ شاید اسی لیے حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی تقریباً تمام جماعتیں اپنی انتہائی کوشش کے باوجود احتجاج کیلئے عوام کو سڑکوں پر نہ نکال سکیں۔ جلسوں میں گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ عوامی حاضری کم ہوتی گئی۔ اور بالآخر جلسوں کا سلسلہ تھم گیا، جو اب دوبارہ شروع ہوا ہے۔ لیکن اب اس کا مقصداور ہدف عمران حکومت کو گرانا نہیں، بلکہ 2023 کے انتخابات کو شفاف بنانا ہے۔
ملک احمد کا شہباز شریف کا ترجمان مقرر ہونا درحقیقت اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ ن لیگ کا بیانیہ تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ شہبازشریف کی گرفت پارٹی معاملات پر مضبوط ہورہی ہے۔ آنے والے دنوں میں ن لیگ کے انتظامی ڈھانچے میں تبدیلیاں ہوں گی، اہم عہدوں پر ایسے افراد کو تعینات کیا جائے گا جو شہباز شریف کی پالیسیوں کو آگے لے کر چلیں گے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یہ لوگ نواز شریف سے وفادار نہیں ہو ں گے۔
ن لیگ کے بیانیے میں تبدیلی پر نواز شریف بھی راضی ہیں لیکن آگے بڑھنے اور اسٹیبلشمنٹ سے معاملات کی درستگی کے لیے طریقہ کار شہباز شریف طے کریں گے۔ مریم نواز صاحبہ کا پارٹی میں کردار اندرونی معاملات تک محدود کر دیا جائے گا۔ ن لیگ کے اہم لیڈر نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ نواز شریف بہت پہلے مان چکے تھے کہ دیوار سے سر ٹکرانے کا فائدہ نہیں ہوگا۔ لیکن مریم صاحبہ کے اردگرد سخت گیر موقف رکھنے والے قائدین کا خیال تھا کہ کسی بھی معاہدہ تک پہنچنے کے لیے سڑکوں پر ہجوم کو اکٹھا کرنا پڑے گا، کیونکہ گفتگو بھی کمزوری کی سطح سے نہیں کی جا سکتی۔ لیکن پہلے گلگت بلتستان، پھر بعد میں آزاد کشمیر کے انتخابات کے نتائج نے نواز شریف کو مایوس کیا۔ شہباز شریف اور حمزہ کاہمیشہ سے موقف رہا تھا کہ عوامی حمایت کو ووٹ میں بدلنے کے لیے سخت زبان کی جگہ صرف حکومت پر تنقید کرنا ہوگی۔ ہر بات کا ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ کو قراردینا تباہی کی دلدل میں دھکیل دے گا۔
شہباز شریف نے تمام معاملات کو سمجھتے ہوئے پارٹی کے اندر اہم رہنماؤں کو ہمنوا بنایا اور پھر ایک حکمت عملی کے تحت ان رہنماؤں نے وقتاً فوقتاًپارٹی کے قائد نواز شریف سے ٹیلی فون پر رابطہ کر کے ایک نہایت غیر محسوس انداز میں پیغام دیا کہ انتخابی سیاست میں کامیابی کے لیے رویوں کو تبدیل کرنا ہوگا۔ تنقید کا رخ عمران خان کی طرف کرنا ہوگا۔
ایک نہایت اہم لیڈر نے بتایا کہ نواز شریف کو باہر بھیجنے کا فیصلہ پارٹی کی مرکزی قیادت نے مریم نواز اور شہباز شریف کے کہنے پر کیا تھا۔ لیکن مریم صاحبہ اور شہباز شریف کی اس فیصلہ پر حمایت کی الگ الگ وجوہات تھیں۔ شہباز شریف اس لیے نواز شریف کو باہر لے جانا چاہتے تھے کہ وہ اپنے بھائی کو ان لوگوں سے دور کر سکیں جو انہیں فوج کے مدمقابل لے آئے۔ نواز شریف کے اردگرد موجودلوگ ان کے ذہن میں ایسا زہر بھررہے تھے جس کا توڑ مشکل تھا۔ نواز شریف باہر جانے کے فیصلے پر تامل کا اظہار کر رہے تھے، لیکن شہباز شریف اپنی والدہ محترمہ شمیم اختر کو ہسپتال لے آئے اور نواز شریف کو باہر جانے پر قائل کیا۔ ساتھ ہی انہوں نے اپنے ذرائع سے طاقتور حلقوں کو بھی قائل کیا کہ وہ مفاہمت کی سیاست کو لے کر آگے چلنے میں نواز شریف کو ساتھ لے آئیں گے۔ مریم نواز اس لیے اپنے والد کو باہر بھیجنا چاہتی تھیں کیونکہ انہیں اندازہ تھا کہ نواز شریف کی موجودگی میں ان کا سیاسی سفر شاید اس شان سے شروع نہ ہو سکے۔ انہیں ان کے سیاسی مشیروں نے آگاہ کیا گیا تھا کہ ن لیگ میں سحر انگیز شخصیت نواز شریف کی ہے۔ اور اگر وہ ملک سے باہر ہوئے تو جلسوں میں آنے والے ورکرز آپ کی صورت میں نواز شریف کو دیکھیں گے۔ آپ کی جلسوں میں عوامی پذیرائی اتنی زیادہ ہو گی کہ شہباز شریف اور حمزہ آپ کی پارٹی میں قیادت کو چیلنج نہ کر سکیں گے۔
اس صورت حال میں شہباز شریف نے اپنے تجربے اور سیاسی فراست سے وہ راستہ اپنایا جس سے مریم نواز اپنے آپ کو سنبھال نہ سکیں۔ ان کی تلخ اور تکلیف دہ گفتگو نے شاید وقتی طور پر جلسوں میں لیگی کارکنوں کو گرمایا لیکن اس آگ کے نتائج نے مسلم لیگ ن کو شدید نقصان پہنچایا۔ گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کے انتخابات میں ن لیگ کی ناکامی نے نواز شریف کو کسی حد تک قائل کر لیا تھا کہ اب حکمت عملی میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ سیالکوٹ میں پی پی 38 کی شکست کے بعد شہباز شریف نے مضبوط لہجے میں نواز شریف سے کہا کہ اب وقت آگیا ہے نئی سوچ لے کر آگے بڑھیں۔ ملک احمد کی تقرری نے پارٹی کے اندر پیغام دے دیا کہ آنے والے دنوں میں ن لیگ کس طرف جائے گی۔ ساتھ ہی طاقتور حلقوں کو بھی خبر کر دی گئی ہ اب فیصلے ان کی مرضی سے ہوں گے۔
شہباز شریف نے پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی الیکشن کمیشن ممبران کی تعیناتی کے حوالے سے مشاورت کا آغاز کیا ہے۔ لگتا ہے اب سیاست پارلیمنٹ میں ہو گی۔ آنے والے دنوں میں پنجاب، مرکز اور سینیٹ میں تحاریک عدم اعتماد سیاسی میدان میں ہلچل مچا سکتی ہیں۔
ن لیگ کے اندر شہباز شریف کا متحرک ہونا، پیپلز پارٹی کے قریب آنے کی کوششوں سے سب سے زیادہ پریشانی اگر ہوگی تو حکمران اتحاد کو ہوگی۔ مرکز اورپنجاب میں انتہائی کم نمبروں سے پی ٹی آئی حکومت قائم ہے۔ جہانگیر ترین کی سربراہی میں تحریک انصاف کے اندر گروپ ان حالات میں معاملات بگاڑنے اور سنوارنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ وزیراعظم نے بڑے ٹھیک ٹائم پر پنجاب حکومت کو ہدایت کی ہے کہ اتحادیوں خاص طور پر مسلم لیگ ق کے تحفظات دور کیے جائیں اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کی تیاری کی جائے۔
شہباز شریف کے لیے بڑا چیلنج نہ صرف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا ہے، بلکہ پارٹی کے اندر مریم کے وفاداروں کو قابو میں رکھنا بھی نہایت اہم ہے۔ اور یہ صرف اسی صورت ممکن ہے جب شہبازشریف سے کیے گئے وعدوں کو نظر اندازنہ کیا جائے۔ ملک احمد خان کی تعیناتی صرف ایک شخص کی تعیناتی نہیں بلکہ حکمت عملی میں تبدیلی ہے۔ اب یہ حکمت عملی کی تبدیلی کامیاب نتائج دیتی ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا۔