آج کل موجودہ دنیا میں حکومتوں اور ممالک کے درمیان دوستی اور تعاون کو مفادات کے تابع قرار دیا جاتا ہے۔ اسے بہترین سفارت کاری سے منصوب کیا جاتاہے۔ سفارت کاری اور دوستی کے یہ اصول ہم نے مغربی تعلیمات اور ثقافت سے مستعار لیے ہیں۔ اور ہمارے ہاں بھی دانشور، صحافی اور سیاست دان یہی تبلیغ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ جدید دور میں قوموں کے درمیان دوستی اور تعاون ماضی کے تعلقات کی بنیاد پر نہیں بلکہ مستقبل میں ممکنہ تعاون اور ضرورت کی بنیاد پر ہیں۔ صرف مشترکہ مفادات ہی دوستی کی ضمانت ہیں۔
لیکن ہماری ثقافت اور روایات تھوڑا مختلف درس دیتی ہیں۔ یقیناً ملکی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی دوسرے ممالک اور گروہوں سے تعلقات رکھنے چاہئیں لیکن اگر کسی کے ساتھ کوئی معاہدہ کیا گیا ہے، تو چاہے جتنا بھی نقصان ہونے کا احتمال کیوں نہ ہو اسے پورا کرنا چاہیے۔ ماضی میں اگر کسی نے آپ کا ساتھ دیا ہو تو مشکل حالات میں بھی اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اس کے ساتھ کھڑا ہونا یقیناً بہتر فیصلہ ہوگا۔ لیکن یہ تب ہی ممکن ہے اگر اللہ پر یقین کامل ہو، صرف ایمان کی حرارت ہی اتنی مضبوطی اور طاقت مہیا کرتی ہے کہ انسان بڑے سے بڑے خطرے سے ٹکرا جاتا ہے۔ ماضی قریب میں اس کی مثال طالبان کے امیر ملا عمر کی زندگی ہے۔ نائن الیون حملوں کے بعد امریکہ نے مطالبہ کیا کہ اسامہ بن لادن کو ان کے حوالے کیا جائے کیونکہ وہ ان حملوں کے ماسٹر مائنڈ ہیں۔ لیکن ملا عمر نے امریکی مطالبہ مسترد کر دیا اور کہا کہ اگر امریکہ اس کا ثبوت دے کہ بن لادن ملوث ہیں تو پھر اس معاملے پر غور کیا جائے گا۔ لیکن طاقت کے نشے میں چْور امریکہ کسی بد مست بھینسے کی طرح افغانستان پر چڑھ دوڑا۔ تباہی اور قتل و غارت کا ایک ایسا تھیٹر سجایا جوبیس سال تک ظلم و ستم کی داستانیں دکھاتا رہا۔ لیکن ملا عمر نہ تو امریکی طاقت سے مرعوب ہوئے اور نہ ہی اپنے اقتدار کے جانے کا غم کیا۔ ان کا موقف واضح تھا کہ بن لادن نے افغانستان کی روس کے خلاف آزادی کی جنگ میں مجاہدین کا ساتھ دیا تھا۔ وہ افغانستان کے دوست اور مہمان ہیں۔ اس لیے انہیں امریکہ کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔ بھلے اس کی قیمت انہیں اپنی جان اور حکومت کو قربان کر کے ادا کرنی ہو، اور انہوں نے یہ عملی طور پر کر کے دکھایا۔ ہو سکتا ہے آج کے مغرب زدہ دانشور اسے ملا عمر کے اس کام کو درست نہ سمجھتے ہوں لیکن حالات اور واقعات نے ثابت کیا کہ اگر آپ اپنے مقصد سے پکی طرح جڑے ہوئے ہوں اور اللہ پر ایمان رکھیں تو فتح آپ کے قدم چومتی ہے۔ آج امریکہ اپنی تمام طاقت کے باوجودرْسوا ہو کر افغانستان سے بھاگ رہا ہے اپنے ہی فوجیوں کی سلامتی کے لیے طالبان سے مدد کی بھیک مانگ رہا ہے۔
طالبان نے ثابت کیا ہے کہ وہ مشکل حالات میں مدد کرنے والوں کو نہیں بھولتے۔ اسی کی دہائی میں پاکستان کے حکمران جنرل ضیاء الحق نے افغانستان میں مجاہدین کی مدد کی تھی۔ روس کے خلاف جنگ میں افغانیوں کا ساتھ دیا تھا۔ یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بہاولپور کے نزدیک فضائی حادثے میں صدر ضیاء کی موت کے پیچھے بڑی بین الاقوامی سازش تھی۔ لیکن طالبان نے صدر ضیاء کی افغانستان کے ساتھ تعاون اور دوستی کو نہیں بھلایا۔ بدقسمتی سے ہمارا نیشنل میڈیاان واقعات کی طرف توجہ نہیں دلاتا جن کا تعلق ہماری اپنی اقدار سے ہو۔ سترہ اگست کو صدر ضیاء کی برسی میں طالبان کے ایک 15رکنی وفد نے شرکت کی جس کی سربراہی محمد سعید ہاشمی نے کی جو پشاور میں افغان مہاجرین اور طالبان کے نمائندوں کے سربراہ ہیں۔ برسی میں شرکت کا مقصد یہ یاد دلانا تھاکہ طالبان اپنے محسنوں کو نہیں بھولے۔ اس سے قبل جون میں افغانستان سے طالبان کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے ضیا ئ الحق مرحوم کے صاحبزادے کے گھر آکر ان سے ملاقات کی۔ اس کا مقصد بھی ضیاء الحق کی افغانستان میں روس کے خلاف جنگ میں خدمات کو سراہنا تھا۔ وفد کی سربراہی عبدالحکیم صحرائی نے کی جو امارات اسلامی کے چیف جسٹس اور ربانی شوری ٰ کے سربراہ بھی ہیں۔ اس وفد میں شیخ محمد خالد، مولانا فضل اللہ حقانی، احمد شاہ کیف اور نور جلال کے شرکت کی۔ یہ وہ تمام اہم لوگ ہیں جو مستقبل کے طالبان سیٹ اپ میں اہم عہدوں پر فائز ہوں گے۔ اس بات سے قطع نظر کہ پاکستان میں کس کی حکومت ہے طالبان نے اپنے محسن کو نہیں بھلایا۔
ضیاء الحق کے خاندان کے ساتھ مستقل رابطے میں ہیں، انکی خدمات کو نہیں بھولے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان پاکستان کے دوست ہیں ساتھی ہیں اور مستقبل میں بھی ہمارے ساتھ کھڑے ہونگے لیکن اس وقت بڑا سوال یہ ہے کہ ہم طالبان کی کھل کر حمایت کیوں نہیں کر رہے۔ ہم ان سے کس بات کی ضمانتیں مانگ رہے ہیں؟ کیا اس وقت مغرب کی زبان بولنا ملکی مفادات کا تحفظ ہے یا ذاتی نوکریاں پکی کرنا ہے۔ درست ہے کہ اہم معاملات پر عجلت اور جلدبازی مناسب نہیں لیکن اسی طرح غیر معمولی اور غیر ضروری تاخیر بھی نامناسب ہے۔ یہ مطالبہ تو امریکہ کا ہے کہ تمام دھڑوں پر مشتمل حکومت بنائی جائے کیونکہ شکست خوردہ گروہوں کو حکومت میں شامل کروا کر امریکہ طالبان پر پریشر قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ افغان عوام کو حق ملنا چاہئیے کہ وہ اپنی پسند کی حکومت بنائیں تو پھر یہ شرط کہ تمام گروہوں کو شامل کریں بیرونی مداخلت نہیں ہے؟ ان شرائط کا حصہ صرف طالبان کو کمزور کرنا اور افغانستان میں خانہ جنگی جیسی صورتحال پیدا کرنا ہے۔ طالبان بار بار یہ کہہ چکے ہیں کہ افغانستان کی سرزمین کسی دہشت گرد گروپ کے استعمال میں نہیں ہوگی۔ تحریک طالبان پاکستان کو اجازت نہیں کہ وہ پاکستان میں دہشت گردی کروا سکے۔ ، پاکستان کو اس پر اعتبار کرنا چاہئیے۔ اور اس موقع پر صرف آف دی ریکارڈ گفتگو میں طالبان کی حمایت اور تعریف کافی نہیں۔ یہ وقت کھل کر فیصلہ کرنے کا ہے۔ طالبان کو تسلیم کرنے اور امداد کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو چاہئیے کہ وہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے والے پہلے ملک کا اعزاز حاصل کریں۔
طالبان کی مضبوط حکومت پاکستان کی سلامتی کی ضمانت ہے، پاکستان کی تشکیل اسلام کے نام پر ہوئی، برصغیر کے مسلمانوں نے اپنے عقائد کے مطابق ایک آبرو مندانہ زندگی گزارنے کے لیے قائداعظم کی قیادت میں پاکستان بنایا تھا، طالبان بھی افغانستان کو اسلامی امارات بنا رہے ہیں۔ مذہب کا یہ رشتہ دونوں ممالک کو انتہائی قریب لائے گا۔ نظریاتی مماثلت ایک دوسرے کے تحفظ اور سلامتی کی ضمانت ہوگی۔ ایک دوسرابڑا اہم نکتہ بھارت کی ناکامی ہے۔ ماضی میں پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے انڈین حکومت نے نیشنلزم کو ہوا دی۔ مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کے لیے وہاں بنگالی نیشنلزم کے بیج بوئے گئے۔ بنگالیوں کے دل میں پنجابیوں اور مشرقی پاکستان سے نفرت پیدا کی گئی جس کا نتیجہ 1971میں بنگلہ دیش کا قیام تھا۔ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں بھی بلوچ نیشنلزم اور پختونستان کا شوشہ چھوڑا گیا۔ اشرف غنی نے ڈیورنڈ لائن کو قبول نہ کرنے کی بات کو صرف اسی لیے دہرایا تھا کیونکہ وہ پختون نیشنلزم کو ہوا دے کر افغانیوں اور پاکستانیوں کے مضبوط رشتے کو کمزور کرنا چاہتا تھا۔ اس وقت طالبان کی حکومت کو فوری تسلیم کر لینا ہی بہترین سفارت کاری ہو سکتی ہے۔ تاخیر سے بدگمانی پیدا ہوگی۔ وہ طالبان جو آج تک ضیاء الحق کے معترف ہیں اور بل لادن کے مسئلے پر امریکہ سے ٹکرا گئے ہم سے بہترین رویے کی توقع رکھتے ہیں۔ ان کو مایوس نہ کرنا ہی بہترین حکمت عملی ہے۔